Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

خیبرپختونخوا: بلدیاتی نمائندے ہنوز فنڈز ملنے کے منتظر

Now Reading:

خیبرپختونخوا: بلدیاتی نمائندے ہنوز فنڈز ملنے کے منتظر

خیبرپختونخوا میں دو مرحلوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد اپنے دفاتر سنبھالنے کے فوراً بعد منتخب بلدیاتی کونسلرز فنڈز کی عدم فراہمی اور حال ہی میں صوبائی حکومت کی صوبے بھر میں نچلی سطح پر ترقیاتی سرگرمیوں میں بلدیاتی اداروں کے کردار اور اختیارات کو محدود کرنے کی متواتر کوششوں کے خلاف اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ضلع مردان کے میئر، حمایت اللہ مایار کے مطابق صوبائی مالیاتی کمیشن (پی ایف سی) کی جانب سے لوکل گورنمنٹ کے لیے مختص کیے گئے 37 ارب روپے میں سے بلدیاتی کونسلرز کو ابھی تک ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔ ” دسمبر 2021ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد مالی سال 2021ء-2022ء کا نصف بقیہ اور مالی سال 2022ء-2023ء کے تین ماہ گزر چکے ہیں مگر ابھی تک کسی بھی بلدیاتی نمائندے کو  میونسپل خدمات یا ترقیاتی کاموں کے لیے کوئی فنڈ نہیں ملا۔‘‘  مایوس مایار نے دعویٰ کیا۔

انہوں نے کے پی سٹی امپروومنٹ پراجیکٹ کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا جس میں  صوبے کے سات ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں میونسپل سروسز جیسے صفائی اور سیوریج اور پانی کی فراہمی کی بحالی کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے 70 ارب روپے سے زائد کی فنڈنگ  فراہم کی گئی ہے۔  ’’خیبرپختونخوا حکومت نے یہ منصوبہ  مقامی حکومت، جو مقامی سطح پر اس طرح کی خدمات فراہم کرنے کے لیے لازمی اور زیادہ موزوں ہے، کے حوالے  کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اس قدم کے ذریعے، صوبائی حکومت نے بڑے مؤثر طریقے سے مقامی حکومت کو غیر موثر بنا دیا ہے،” مایار نے زور دے کر کہا۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے تجربہ کار سیاسی رہنما نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ 2013 کے تحت ہوئے تھے اور اسی ایکٹ کے تحت صوبے بھر کے منتخب نمائندوں نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا تھا۔ “تاہم، صوبائی حکومت نے سیکشن 53 میں نئی ترامیم کیں  اور فنڈز کی شرط کو صوبائی سالانہ ترقیاتی منصوبے (ADP) کے 30 فیصد سے گھٹا کر20 فیصد سے کم کر دیا،” مایار نے تفصیل سے بتایا۔

مزید برآں، رولز آف بزنس میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی دفعہ 23A اور سیکشن 25A لگا کر منتخب بلدیاتی ممبران کے  انتظامی اختیار کو چھین لیا گیا۔ زمین کا استعمال، ہاؤسنگ سوسائٹیز اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز بھی چھین لی گئیں جبکہ صوبائی حکومت نے میونسپل سروسز کا ہمارا مینڈیٹ بھی چھین لیا کیونکہ اب اسے براہ راست فنڈز دینے اور میونسپل سروسز میں مداخلت کرنے کا اختیار حاصل ہو سکتا ہے۔” حمایت اللہ نے کہا۔

Advertisement

لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں بار بار کی جانے والی ترامیم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پشاور کے میئر زبیر علی نے کہا کہ تاریخی طور پر  خیبرپختونخوا میں بلدیاتی حکومتوں کو تجرباتی شکل میں نافذ کیا گیا تھا۔

’’پرویز مشرف نے ابتدائی طور پر میئر کا نظام فراہم کیا اور پھر اسے ضلعی ناظمین سے بدل دیا۔ تکنیکی طور پر، اس ترمیم شدہ نظام کو باقی رہنا چاہیے تھا اور کسی بھی خامی کو دور کرنے کے لیے مزید ہموار کیا جانا چاہیے  تھا۔ اس کے باوجود جب ٹاؤن میونسپلٹی، بیوروکریسی اور عوام اس کے عادی ہو گئے تو اسے تقریباً 10 سال بعد پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی نے بدل دیا، جو 2014ء میں نیا نظام لائے اور اسے دنیا کا بہترین بلدیاتی نظام قرار دیا۔ تاہم، صرف ایک مدت مکمل ہونے کے بعد ہی سابق وزیر اعلیٰ نے خود اسے 2018ء میں ایک بالکل نئے نظام سے تبدیل کر دیا،” جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما نے  کہا۔

پشاور کے میئر نے مزید کہا کہ مضبوط بلدیاتی نظام کی وجہ سے تمام ترقی یافتہ ممالک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جو کہ اپنے لوگوں کو بہترین سہولیات کی فراہمی کی ضمانت دیتے ہیں۔

’’جب آپ متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ نہیں لیتے  تو ہر نظام  لازماً ناکام ہوجاتا ہے۔ یہ اسٹیک ہولڈرز  بالکل نچلی سطح کے مسائل اور ضروریات سے آگاہ  ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے کے پی میں بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ اپوزیشن کے سیاسی انتقام کے لیے استعمال کیا گیا اور پی ٹی آئی نے بھی ایسا ہی کیا۔ مزید برآں، کے پی لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں 2019ء، 2020ء، 2021ء اور اب 2022ء میں مسلسل ترامیم کی گئیں۔ یہ ابتدائی ترامیم حکمران جماعت کے ناپاک عزائم کو ظاہر کرتی ہیں،” زبیر علی نے الزام لگایا۔

زبیر علی کی حمایت کرتے ہوئے، حمایت مایار نے مزید کہا کہ نئی ترامیم کے ساتھ، صوبائی حکومت وہ حاصل کر سکے گی جو وہ چاہتی ہے، چاہے ایک بھی منتخب لوکل گورنمنٹ ممبر اپنے پورے چار سالہ دور میں حاضر نہ ہو۔

’’اس سے اثر نہیں ہوگا اور دفاتر بدستور کھلے رہیں گے اور  تعینات افسران چاہے وہ ڈپٹی کمشنر ہوں، اسسٹنٹ کمشنرز، سیکریٹریز یا ٹی ایم اوز ہوں کام   کرتے رہیں گے۔ منتخب لوگوں کے لیے  کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا  اور اگر لوکل گورنمنٹ کونسلز بجٹ پاس نہیں کرتی ہیں تو لوکل گورنمنٹ کمیشن اسے منظور کر سکتا ہے اور اس کی تصدیق کر سکتا ہے اور وہ نئی ترامیم کے ذریعے اسے پہلے ہی استعمال کرنے کے قابل ہیں۔” مایار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔

Advertisement

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نئے نظام کے تحت اتھارٹی کو اضلاع سے تحصیل کی سطح پر منتقل کر دیا گیا تاہم تعلیم، زرعی توسیع، لائیو اسٹاک، زرخیز زمین کے تحفظ، سماجی بہبود، آبادی کی بہبود اور کھیلوں وغیرہ کے لیے ایک بھی تحصیل دفتر فراہم نہیں کیا گیا۔ صوبائی حکومت نے ان دفاتر کے قیام کے لیے ایک سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے تحت ڈپٹی کمشنر کو تنخواہوں کے بجٹ، تنخواہوں کے علاوہ بجٹ اور ترقیاتی بجٹ کا ذمہ دار بنایا گیا ہے،‘‘ مایار نے الزام لگایا۔

مزید برآں، حمایت اللہ مایار نے دلیل دی کہ صوبائی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ترامیم کے ذریعے  اختیارات کی منتقلی چاہتی ہے۔ ”   اختیارات کی منتقلی آئین پاکستان کے  آرٹیکل 37i اور آرٹیکل 140A کے مطابق ہونی چاہیے۔ 137i اس بات کا تذکرہ کرتا ہے کہ ریاست انتظامی امور کی منتقلی میں سہولتکاری اور لوگوں کے اطمینان اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومتی ذمہ داریوں کو عدم مرکزیت کی طرف لائے گی۔

اسی طرح آرٹیکل 140 اے کہتا ہے کہ ہر صوبہ ایک بلدیاتی نظام فراہم کرے گا، جو سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داریاں منتخب لوکل گورنمنٹ ممبران کو دے گا نہ کہ مقرر کردہ سرکاری ملازمین کو۔ تاہم،  جہاں تک خیبرپختونخوا حکومت کی ترامیم  کا معاملہ ہے تو دوسرا راستہ  اپنایا گیا ہے  کیونکہ مقرر کردہ عہدیداروں کو یہ تمام ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، جو کہ ناانصافی اور آئین پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے،‘‘حمایت مایار نے کہا۔

زبیر علی نے وفاقی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ذمہ داری قانون سازی کی فراہمی پر کام کرنا ہے جبکہ اس قانون پر عمل درآمد مقامی حکومت کرتی ہے۔ اگر وفاقی یا صوبائی اسمبلی قانون سازی کے کام کو ایک طرف چھوڑ کر مقامی حکومت کی ذمہ داری  اٹھا لے تو اس سے صوبے اور ملک کے عوام کو منفی پیغام جائے گا۔ مشرف دور میں بلدیاتی اداروں کے تحت 32 کے قریب محکمے تھے۔ پرویز خٹک نے بلدیاتی اداروں کا اختیار صرف 18 محکموں تک محدود کر دیا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ موجودہ نظام کے تحت لوکل گورنمنٹ صرف 12 محکموں کی ذمہ دار ہے،‘‘ زبیر علی نے اظہار کیا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بلدیاتی نمائندے عوامی ووٹوں کی بنیاد پر منتخب ہوئے۔ چونکہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت پارٹی کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کے حق میں نہیں تھی، اس لیے انہوں نے انتخابات سے قبل ترامیم کیں اور ان ترامیم کو قواعد و ضوابط کے طور پر پشاور ہائی کورٹ  میں پیش کیا۔ یہ ترامیم  ہائیکورٹ کے فیصلے کا حصہ بن گئیں۔ تاہم، کے پی حکومت نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی، جس نے  پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔” پشاور کے میئر زبیر علی نے  کہا۔

اسی طرح، حمایت مایار نے دلیل دی کہ غیر منطقی ترامیم کی وجہ اگلے عام انتخابات کا قریب آنا ہے۔ یہ عام انتخابات سے پہلے آخری سال ہے۔ پی ٹی آئی ترقیاتی بجٹ کے استعمال میں کسی کو  حصے دار نہیں بنانا چاہتی  کیونکہ اس کی اسمبلی میں اکثریت ہے اور قانون سازی کی اپنی اصل ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے حکمران جماعت کے اراکین صوبائی اسمبلی اسٹریٹ لائٹس اور ٹرانسفارمرز کی تنصیب  اور  سیوریج لائنوں کی تعمیر جیسے معمولی  کاموں کی نگرانی کر کے  ووٹروں کو ان کی خدمات کی فراہمی پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،” مایار نے افسوس کا اظہار کیا۔

Advertisement

مقامی حکومت ، صوبائی حکومت کا  تقریباً 90 فیصد بوجھ کم کرتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے نمائندے نچلی سطح پر  بہترین انتظام و انصرام  کرنے، سماجی بہبود کی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے اور مقامی ترقی اور جمہوریت کو فروغ دینے کے کام انجام دیتے ہیں۔  اگر صوبائی حکومت مقامی حکومت کو ان کا مناسب اختیار فراہم نہیں کرتی ہے، تو وہ نہ صرف منتخب اراکین بلکہ عام ووٹرز کا بھی اگلے انتخابات میں اعتماد کھو دیں گے۔‘‘ مایار نے کہا۔

اسی طرح، زبیر علی نے مزید کہا کہ “بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں طاقت کے ناقص مظاہرہ کے بعد، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو احساس ہوا کہ اپوزیشن اراکین اگلے چار سال تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے،تو حکومت نے رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں۔اچانک 2021ء کی ترامیم تبدیل کر دیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو دیے گئے تمام اختیارات ان سے چھین کر بیوروکریسی کو دے دیے گئے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کے بلدیاتی نمائندے صوبائی حکومت کے غیر یقینی فیصلوں پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی تحصیل چیئرمینوں اور کونسلرز نے ایم پی اے اور سرکاری افسران کے ذریعے ترقیاتی بجٹ خرچ کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ذریعے نےاس نمائندے  کو بتایا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کے بھائی اور مٹہ کے تحصیل چیئرمین عبداللہ خان جو ماضی میں تحصیل ناظم بھی رہے ہیں، نے حال ہی میں اپنے والد ڈاکٹر محمد خان کو بتایا کہ ان کے بیٹے اور وزیراعلیٰ کے پی نے وہ ’سائبان‘ چھین لیا ہے جو سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے  مقامی حکومت کو فراہم کیا تھا۔

تاہم بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عبداللہ خان نے کہا کہ ان سمیت پی ٹی آئی کے تمام عہدیداران پارٹی فیصلوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ “جو بھی پارٹی صوبے کے عوام کے لیے اچھا دیکھے گی، ہم اس کا احترام کریں گے۔ تاہم، ہم پر اپنے ووٹروں کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور ہماری پارٹی میں اظہار رائے کی آزادی ہمیں بلدیاتی نظام میں کسی بھی چیز کے بارے میں اپنے خدشات کو کھل کر اجاگر کرنے کا موقع دیتی ہے۔ ہم نے پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران  کو ان مسائل اور مشکلات کے بارے میں بتایا ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ یہ انتخابات کا سال ہے اور پارٹی کو مقامی حکومتوں کے نمائندوں کی ضرورت ہے جو عام لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں اس کے کاموں  میں مدد کریں،” عبداللہ خان نے کہا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مصطفیٰ کمال کی ملاقات ، وزارت صحت کے منصوبوں پر بریفنگ
جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم سانائے تاکائچی کون ہیں ؟
بلوچستان کو فتنتہ الہندوستان کی لعنت سے نجات دلانے کےلئے اقدامات کر رہے ہیں، فیلڈ مارشل سید عاصم منیز
پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت، امریکی جریدے فارن پالیسی کا اعتراف
پنڈی ٹیسٹ: جنوبی افریقہ نے 333 رنز کے تعاقب میں 4 وکٹوں پر 185 رنز بنا لیے
پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کا خدشہ عارضی طور پر ٹل گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر