Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

احتساب کی چھوٹ

Now Reading:

احتساب کی چھوٹ

نیب آرڈیننس میں ترامیم نے ملک کو طاقت ورلوگوں کی مزید لوٹ مار کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے

نیب آرڈیننس 1999ء میں ترمیم کرکے پارلیمنٹ نے ذاتی مفادات کے لیے اختیارات کے ناجائز استعمال کو قابل قبول اور ملزمان کی سزا کوتقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ تمام نظریں پاکستان سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ پر لگی ہوئی ہیں، جو ترمیم شدہ قانون کے خلاف ایک درخواست کی سماعت کر رہا ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا وہ اسے برقرار رکھتا ہے، یا اسے آئین کے خلاف قرار دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا تعین کرے گا کہ آیا ہم ایک فیصلے میں تصحیح دیکھیں گے، یا لوٹ مار کی اس راہ پر مزید نیچے جائیں گے۔

18 اکتوبر کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو ہدایت کی کہ ادارے کی جانب سے عدالتوں میں دائر تمام ریفرنسز کا ریکارڈ محفوظ کیا جائے، جسے انسداد بدعنوانی کے قانون میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔ ان دنوں سپریم کورٹ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ترمیم شدہ نیب قانون کو حکومتی اور سرکاری افسران اور اہل کاروں کے وائٹ کالر جرائم کے خلاف کارروائی کے لیے غیر موثر کر دے گا۔ تاہم، ممکنہ طور پر موجودہ حکومت کے اہم افراد کے خلاف ظاہر نہ کی گئی دولت، منی لانڈرنگ اور سرکاری اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق مقدمات کا ریکارڈ پہلے سے ہی چوری یا تبدیل ہوچکا ہو گا، کیونکہ عدالت نے اس قانون کی منظوری کے دو ماہ سے زائد عرصے کے بعد یہ حکم جاری کیا۔

وہ افراد جنہوں نے 1999ء میں بنائے گئے اس قانون کے ڈھانچے میں ترمیم کی، وہ اب تک اس سے اپنے مقاصد کر چکے ہیں۔ نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل ممتاز یوسف کے 12 اکتوبر کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ادارے نے ترمیم شدہ قانون کے نفاذ کے بعد اب تک بدعنوانی کے 219 ریفرنسز عدالتوں سے واپس لے لیے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جلد ہی واپس لیے گئے کیسز کی تعداد 280 تک پہنچنے کی امید ہے۔ عمران خان کی درخواست کی ایک سماعت پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے طنزیہ لہجے میں وکلا سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا بچا ہے جس نے ترمیم شدہ نیب قانون سے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔

اصل نیب آرڈیننس 1999ء کے مخالفین اکثر یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ احتساب کے اپنے بیان کردہ مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا، کیونکہ جن حکمرانوں نے اسے ترتیب دیا تھا، انہوں نے نیب کو ایک قابل اعتماد، غیرجانبدار انسداد بدعنوانی ادارہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ مخالفین کے خلاف استعمال کے لیے بنایا تھا۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بنائے گئے اس قانون کو جنرل پرویز مشرف نے متعارف کرایا اور کرپشن کے مقدمات کو پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے ان جماعتوں کے نئے دھڑے بنائے۔ تاہم، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے لیے بھی یہی بات درست ثابت ہوتی ہے کیونکہ دونوں نے، وزیر اعظم بننے کے بعد ایک دوسرے اور اپنی مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات قائم کیے تھے۔

Advertisement

حالیہ برسوں میں، جب سے موجودہ حکمراں جماعت، مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے اس قانون کو حقارت سے دیکھتے ہوئے احتساب اور بدعنوانی کو معمول کی پریکٹس کے طور پر جاری رکھا ہے۔ کئی مواقع پر، انہوں نے اپنی بدعنوانی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ملک کی معاشی ترقی کو روکنے کی بنیادی وجہ بدعنوانی نہیں تھی، انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ممالک بھی اتنی ہی کرپشن کے باوجود ترقی کرنے میں کامیاب رہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بارہا نیب کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ نیب کی موجودگی میں ملک معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔ آپ ایک ویڈیو کلپ بھی دیکھ سکتے ہیں جس میں وزیر اعظم شہباز شریف کے بڑے صاحبزادے حمزہ شہباز اسکول کے طلباء سے بات کر تے ہوئے انہیں لیکچر دے رہے ہیں کہ کس طرح کرپشن ایک معمول کی بات ہے، اور اس کی پرواہ نہ کی جائے۔

1999ء کے نیب آرڈیننس میں کی گئی 39 ترامیم نے پبلک آفس ہولڈرز (حکمرانوں )کو اپنا اختیار عوامی مفاد میں استعمال کرنے پر مجبور کرنے کی بہت کم گنجائش چھوڑی ہے نہ کہ ذاتی مفادات کے لیے۔ نئے قانون کے تحت، ملزم کو اب اپنی دولت کا حساب دینے اور مبینہ طور پر ناجائز طور پر حاصل کی گئی دولت کے لیے منی ٹریل فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نئے قانون کی بدولت 29 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی 2018ء میں ایون فیلڈ ریفرنس میں عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا۔ سماعت کے دوران جسٹس محسن اطہر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ مجھے اور دیگر ملزمان کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ انہیں مجرم ثابت کرنا نیب کا کام ہے۔

19 اکتوبر کو نیب نے 25 سال قبل شروع کیے گئے 4 کرپشن کیسز میں سابق صدر آصف زرداری کی بریت کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات واپس لینے کے لیے ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی۔ نیب نے استدعا کی کہ استغاثہ کے پاس آصف زرداری کے خلاف ثبوت کے طور پر اصل دستاویزات نہیں ہیں لیکن ان کی فوٹو کاپیاں ہیں۔ زرداری کے خلاف بدعنوانی کے بہت سے کیسز اتنے برسوں سے لمبے عرصے تک چلتے رہے کہ اس عمل میں یا تو اصل ثبوت ’گم‘ ہو گئے یا تفتیشی عملے کے ارکان پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے۔

انسداد بدعنوانی کی دفعات کو کم کرتے ہوئے، 2022ء کے ترمیم شدہ نیب قانون نے پبلک آفس ہولڈرز کی بدعنوانی کو تقریباً قانونی شکل دے دی ہے۔ اب یہ انسداد بدعنوانی کے اقدامات کے بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے۔ فوجداری قانون میں، استغاثہ کو ملزم کے خلاف مقدمہ کو اس کی سزا کے لیے معقول شک سے بالاتر ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، دیوانی قانون ‘امکانات کے توازن’ کی بنیاد پر کام کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کے خلاف 51 سے 49 کی حد تک شواہد سزا کے لیے کافی ہیں۔ وائٹ کالر جرائم کے مقدمات سول قانون کے زمرے میں آتے ہیں جہاں امکان کے توازن کا اصول لاگو ہوتا ہے۔ 2022ء کا نیب قانون اس بنیادی معیار کی نفی کرتا ہے۔

وائٹ کالر جرائم کے ماہر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ برطانوی راج کے متعارف کرائے گئے انسداد بدعنوانی کے قانون کے تحت بھی اپنے اثاثوں کو ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر تھی اور اس شق کو ختم کرنا قانون کے تقاضوں کے منافی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) برطانیہ کا غیر وضاحتی دولت کا قانون بھی ملزم پر یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ اس نے اپنے اثاثے آمدنی کے منصفانہ ذرائع سے حاصل کیے تھے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے بدعنوانی کے خلاف کنونشن کا دستخط کنندہ ہے۔ کنونشن کے آرٹیکل 20 میں لکھا ہے: “ہر ریاستی فریق ایسے قانون سازی اور دیگر اقدامات کو اپنانے پر غور کرے گا جو ایک مجرمانہ جرم کے طور پر قائم کرنے کے لیے ضروری ہو، جب جان بوجھ کر، غیر قانونی افزودگی، یعنی عوام کے اثاثوں میں نمایاں اضافہ ہو۔

مثال کے طور پر، نیب کی تحقیقات کے مطابق، سلیمان شہباز شریف کی ملکیت میں سے 95 فیصد سے زائد اثاثے مبینہ طور پر بیرون ملک سے تقریباً 200 ٹیلی گرافک ٹرانسفرز (TTs) کے ذریعے بنائے گئے، یہ طریقہ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر منتقلیاں برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے سلیمان شہباز اور ان کے ایک ملازم مشتاق چینی کے نام پرکی گئیں۔ اس وقت جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، ان کے بیٹے سلیمان کے اثاثوں میں 8ہزار فیصد کا اضافہ ہوا۔ وہ اپنی آمدنی کے ذرائع کی وضاحت نہیں کر سکے اور اس وقت پاکستان سے مفرور ہیں۔ تاہم، وہ اپنے والد وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ترکی میں حالیہ اعلیٰ سطحی سرکاری ملاقاتوں میں موجود تھے۔ 2015ء سے 2017ء کے درمیان جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو ان کے اثاثوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔ وہ بھی اپنی دولت میں اچانک اضافے کی وضاحت نہیں کر سکتے ، لیکن نئے قانون کے تحت بے قصور ہیں۔ جس دن احتساب عدالت ان پر منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد کرنے والی تھی اسی دن انہوں نے ملک کے چیف ایگزیکٹو ( وزیر اعظم ) کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

Advertisement

اتفاق سے جس دور میں شہباز شریف کے خاندان کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہوا، پنجاب میں چند مہنگے بجلی گھر بنائے گئے، ان میں ساہیوال کول پلانٹ درآمدی کوئلے سے چلتا ہے۔ این ٹی ڈی سی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ساہیوال کول پلانٹ 30 سے 32 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی پیدا کرتا ہے، جب کہ تھر کے مقامی کوئلے پر چلنے والا پلانٹ سے فی یونٹ بجلی کی پیداوار 4 روپے ہے۔ اس بات سے کوئی بھی اندازا لگا سکتا ہے کہ اس مہنگی اسکیم  سے کون مستفید ہوا؟ شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر 16 ارب روپے کی غیر وضاحتی دولت کا الزام ہے جو ان کے اکاؤنٹس میں جمع کرائی گئی اور اس میں سے کچھ رقم سے انہوں نے جائیدادیں خریدیں۔ اپنے دفاع میں دونوں کا یہی کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ اتنی خطیر رقم کس نے ان کے اکاؤنٹس میں جمع کرائی۔ لیکن منطقی طور پر تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اکاؤنٹس سے رقم کس نے نکالی، لیکن اس سوال کو نہ تو پراسیکیوٹر نے اٹھایا اور نہ ہی جج نے، اور دونوں باپ بیٹے کو فرد جرم عائد ہونے سے پہلے ہی بری کر دیا گیا۔ اسی طرح شہباز شریف کے داماد علی عمران جو گزشتہ 4 سال سے برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، اپنی شادی کے وقت ان کا تعلق ایک نچلے متوسط گھرانے سے تھا، اب وہ لاہور میں مہنگے کمرشل پلازہ اور جائیدادوں کے ارب پتی مالک ہیں۔ اور یہ اس وقت بنی جب شریف خاندان اقتدار میں تھا۔

نیب قانون میں ترامیم سے قبل ہی کچھ نادیدہ قوتوں نے انسداد بدعنوانی کے ادارے اور سیاستدانوں کے خلاف اس کے اقدامات کو عملی طور پر غیر موثر بنا دیا تھا۔ بعض سیاستدانوں کے ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات اور باضابطہ چارج شیٹ دائر کرنے کے حوالے سے نیب کو غیر موثر ہوتے ہوئے دیکھا گیا، جب کہ عدالتیں ملزمان کو ان کے مقدمات کو غیر ضروری طور پر التوا کی اجازت دے رہی تھیں۔ 2021ء میں جب بدعنوانی کے کئی کیسز میچور ہو گئے تو ان مقدمات کی سماعت کرنے والے احتساب ججوں کا تبادلہ اچانک دوسرے دور دراز اضلاع میں کر دیا گیا۔ ایک جج کو وائٹ کالر جرائم کی سنگینی کو سمجھنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ نتیجتاً گزشتہ کئی سالوں سے مقدمات پر کام کرنے والے ججوں کی ساری محنت رائیگاں گئیں اور بینچ میں نئے ججوں کے ساتھ مقدمات کی سماعت عملاً نئے سرے سے شروع ہوئی۔

سیاسی تسلط اور نادیدہ قوتوں کی مداخلت کے علاوہ، بدعنوانی کے مقدمات میں امیر، بااثر افراد کا صاف بچ نکلنا ایک عام سی بات ہے۔ وہ تفتیشی افسران اور استغاثہ کو رشوت دیتے ہیں تاکہ ان کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات میں قانونی کوتاہیاں پیدا کی جائیں اور ان کے بڑے بڑے وکیل عدالتوں میں ان قانونی خامیوں کا استحصال کرتے ہوئے ملزمان کو بچا لیتے ہیں۔ لہذا اس میں تعجب کی  کوئی بات نہیں، کہ پاکستان بدعنوانی کے لیے بین الاقوامی انڈیکس میں سب سے نیچے کیوں ہے۔ پاکستان امیر اور طاقت ور کے لیے ہر قسم کے جرائم سے استثنیٰ کی سرزمین بن چکا ہے۔ وہ قتل اور چوری کرکے فرارکے لیے آزاد ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ایجنسی، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، اسلام آباد میں ایک پوش ہاؤسنگ کالونی چلاتی ہے اور اس نے اپنی ملکیت میں موجود زمین سے زیادہ پلاٹ کاغذ پر فروخت کیے ہیں، لیکن کوئی اس کا احتساب نہیں کر سکتا۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے سٹی نے کراچی-حیدرآباد موٹر وے (M9) کے ساتھ سندھ حکومت کی ملکیتی 785 کنال اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ اور وفاقی حکومت نے ارکان قومی اسمبلی کو اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی اسکیموں کے نام پر 87 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ عام رواج یہ ہے کہ اراکین اسمبلی نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کی سفارش کرتے ہیں بلکہ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ ان کی تکمیل کے لیے ٹھیکہ ان کے منتخب کردہ امیدواروں کو دیا جائے، جو بدلے میں انہیں مختص کی گئی رقم کا تقریباً نصف کک بیکس ( رشوت ) کی شکل میں دیتے ہیں۔ یہ پریکٹس بغیر کسی جانچ کے پروان چڑھتی ہے، کیونکہ کوئی بھی رسید کے ساتھ رشوت وصول نہیں کرتا اور نہ ہی دیتا ہے۔ اسے عدالت میں ٹھوس شواہد کے ذریعے ثابت نہیں کیا جا سکتا جیسے کسی فوجداری مقدمے میں۔ بدعنوانی کو صرف ملزم پر ڈال کر ثابت کیا جاسکتا ہے کہ اس کے اثاثے قانونی ذرائع سے بنائے گئے ہیں۔

لاپرواہی، بے لگام کرپشن اور ریاستی وسائل کی لوٹ مار کا نتیجہ پاکستانی معیشت کو دیوالیہ پن ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا کر دیتا ہے۔ کئی دہائیوں سے پھیلی کرپشن نے ملک کو غریب تر کر دیا ہے۔ رواں مالی سال معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کو 40 ارب ڈالر کے نئے غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہے، جسے غیر ملکی سرمایہ کاری /امداد کہا جاتا ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے قرضوں کو ری شیڈول کروانے کے لیے ایک سے دوسرے عہدے پر بھاگ رہے ہیں۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ یقیناً یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا ایک بڑا حصہ (97 ارب ڈالر) کرپٹ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا گیا۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے، یکے بعد دیگرے حکومتیں روزمرہ استعمال کی اشیاء، بشمول خوردنی تیل اور پیٹرول، اور بجلی اور گیس جیسی بنیادی اشیاپر بھاری بالواسطہ ٹیکسوں کا سہارا لیتی ہیں۔ اور غریب حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار کی قیمت ادا کرتے رہتے ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
چین کے ساتھ ٹرمپ کا تجارتی تعلقات ختم کرنے پر غور
امریکا میں بھارتی نژاد سابق اعلیٰ عہدیدار حساس دفاعی معلومات رکھنے پر گرفتار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر