
وہی ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی اور معتمد، اسحاق ڈار، بہت ہی جوش کے ساتھ وطن واپس آ گئے ہیں ، وہ عدالت میں ایک اشتہاری اور مفرور کے معاملے میں اختیار کیے گئے تمام معمول کے قانونی طریقہ کار سے انکاری دکھائی دیتے ہیں ۔انہوں نے اپنے تمام ارادوں اور مقاصد کے لیے وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے حلف اٹھایا ہے، وہ عملی طور پر ایک نائب وزیر اعظم، نواز شریف کے پراکسی کی حیثیت اور اپنے مفادات کا خیال رکھنے والے انسان ہیں اور اگلے عام انتخابات سے قبل کچھ چہروں کی ساکھ اور وقار کو بچانے والے پاپولسٹ اقدامات ( براہ راست جمہوری اقدامات جیسے کہ ریفرنڈم اور رائے شماری کے استعمال کی حمایت)کو متعارف کرانے کے لیے اپنے حکم پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
پانچ سال قبل، 2017ء میں، موجودہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے، اسحاق ڈار احتساب کیس میں اپنے وسائل سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں تحقیقات اور مقدمے سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسحاق ڈار کو اپنے خصوصی طیارے میں اپنے ساتھ لے جانے کی سہولت فراہم کی تھی۔اور اب وہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مراعات یافتہ رکن کے طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کے خصوصی طیارے میں واپس آئے ہیں۔ان کی آمد سے قبل عدالت نے ان کے وارنٹ گرفتاری معطل کر دیئے تاکہ وہ سینیٹ کے رکن اور پھر وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے حلف اٹھا سکیں۔
تقریب کے فوراً بعد وہ اپنی عبوری ضمانت کی توثیق کے لیے عدالت روانہ ہوئے جہاں اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) نے انہیں سلامی دی۔اسحاق ڈار سیلف میڈ آدمی ہے جن کی دولت اور اثاثوں کی اپنی ایک طویل داستان ہے ۔وہ لاہور میں مقیم ایک غریب شخص کے بیٹے اور سائیکل کے مکینک ہیں جس نے وقت گذرنے کے ساتھ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی ڈگری حاصل کی ۔اسی دوران انہوں نے ‘درست ‘ سیاسی روابط بنائے جس نے ترقی کرنے میں ان کی مدد کی۔اپنے بچوں کی شادی کی بدولت ڈار اور شریف ایک دوسرے سے گہرے خاندانی تعلقات رکھے ہیں ۔ملک کے قانونی اور سیاسی کلچر کے پیش نظر اسحاق ڈار کی عدالت سے حالیہ فوری ضمانت قابل فہم ہے لیکن ان پر عائد الزامات بلاشبہ سنگین ہیں۔
اسحاق ڈار پر الزام ہے کہ انہوں نے وزیر خزانہ (1998-99 اور 2013-17) جیسے اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے کے دوران حکومت میں اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ظاہری ذرائع سے زیادہ دولت کمائی۔بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک ود سٹیفن سیکر میں جب میزبان نے ان سے ان کی اور ان کے خاندان کی جائیدادوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ لاہور میں ان کا صرف ایک گھر ہے۔میزبان نے جب دبئی میں ان کی جائیدادوں کے بارے میں پوچھا تو اسحاق ڈار نے توقف کیا اور ظاہری گھبراہٹ کے ساتھ اعتراف کیا کہ ان کا بیٹا دبئی میں ایک ولا کا مالک ہے، لیکن ساتھ ہی وضاحت بھی کی کہ ان کا بیٹا بالغ اور آزاد فرد کی حیثیت سے زندگی گذار رہا ہے ۔تاہم قومی احتساب بیورو (نیب) کی دستاویزات کے مطابق اسحاق ڈار کے پاس الفلاح ہاؤسنگ میں 3 گھر، اسلام آباد میں6 ایکڑ کا پلاٹ، اسلام آباد کے پارلیمانی انکلیو میں 2 کنال کا پلاٹاور سینیٹ کوآپریٹو ہاؤسنگ میں ایک پلاٹ ہے۔نیب کی رپورٹ کے مطابق اسحاق ڈار لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے قریب ایک اور ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک پلاٹ کے مالک ہیں ۔ اس کے علاوہ
دبئی میں ایک سے زیادہ شاپنگ مالز ان کے فرنٹ مین کی ملکیت ہیں ۔
ایک بار ، اپنی دولت کا جواز پیش کرنے کے لیے،اسحاق ڈار نے ایک امیر عرب شیخ کا خط پیش کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس نے اسحاق ڈار کو 2004ء سے 2005ء کے درمیان ایک سال کے لیے اپنی کنسلٹنسی خدمات کے لیے 830 ملین روپے ادا کیے تھے۔تاہم اسحاق ڈار نے اس ادائیگی کی تصدیق کے لیے کبھی بھی بینک ٹرانزیکشن ریکارڈ پیش نہیں کیا۔ ان کے خفیہ سودوں کے بارے میں شکایات کی فہرست لمبی ہے۔
صحافی جاوید چوہدری نے صحافیوں کو دی گئی ایک بریفنگ کے حوالے سے ایک کالم لکھا جس میں بعض اعلیٰ حکام نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں اٹلی کے سفیر، سٹیفانو پونٹیکاروو نے مبینہ طور پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رشوت طلب کے بارے میں شکایت کی تھی جس میں اسحاق ڈار نے پاکستان میں ویسپا اسکوٹرز کے 2 مینوفیکچرنگ پلانٹس لگانے کی اجازت جاری کرنے کے بدلے میں مانگی تھی۔
اسحاق ڈار ،ان کے سرپرستوں، اور شریف خاندان کے خلاف سب سے سنگین الزام حدیبیہ پیپر ملز کیس میں 1996-98 کے دوران ایک اعشاریہ 24ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا تھا۔بعد میں ایک جج نے یہ کہتے ہوئے کیس کو بغیر کسی تفتیش یا ٹرائل کے بند کر دیا کہ یہ کیس ٹائم بارڈ (اگر مدعی ایک مخصوص مدت کے اندر عدالت کے سامنے کارروائی لانے میں ناکام رہے )ہو گیا ہے۔تاہم اعتزاز احسن سمیت کئی قانونی ماہرین نے یہ کہا کہ فوجداری مقدمات کبھی بھی مخصوس مدت کے پابند نہیں ہوتے ۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے یہ کیس جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع کیا تھا۔ اسحاق ڈار کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے 45 صفحات پر مشتمل اعترافی بیان دیا جس پر ان کے دستخط موجود تھے، نہوں نے کہا کہ انہوں نے لندن میں اپنے دوستوں کے بینک اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کے خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کی۔وہ اس مقدمے میں منظور شدہ گواہ بنے اور اس طرح انہیں معافی مل گئی۔بعد میں، حکومت تبدیلی ہوئی تو انہوں نے اپنا اعتراف واپس لے لیا، اور کہا کہانہیں زبردستی نکالا گیا تھا۔
بلاشبہ اسحاق ڈارے ایک ایسے شخص ہیں ،جو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں ، اور جن کا رویہ ہر موقع پر ہمیشہ موزوں نظر آتا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی مخالفین پر احسان کرکے کس طرح ان پر فتح حاصل کنی ہے یا پھر ان سے کیسے نمٹنا ہے ؟ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت (2013-17) میں بطور وزیر خزانہ، اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک مقالہ لہرایا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی سیاستدانوں کے 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں ، انہوں کے یہ اعلان بھی کیا کہ حکومت سوئس حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے جا رہی ہے تاکہ اس بھاری رقم کو پاکستان واپس لایا جا سکے۔در اصل اسحاق ڈار کا مقصد تھا اس وقت کی مرکزی اپوزیشن پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) پر حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔پیپلز پارٹی جس کے رہنما سوئس بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے بدنام ہیں، لائن میں لگ گئے۔اسحاق ڈار نے سوئس حکام کے ساتھ کبھی کوئی معاہدہ نہیں کیااور آج امسلم لیگ ن اور پی پی پی قریبی اتحادی اور موجودہ مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔
ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے طور پر، اسحاق ڈار کو شماریات کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔2016ء اور 2017ء میں وزیر خزانہ کے طور پراسحاق ڈار نے جی ڈی پی کی شرح نمو5 اعشاریہ 6 فیصد ظاہر کی، جب کہ آزاد معاشی ماہرین اسے4 اعشاریہ 5 فیصد بتاتے ہیں۔لیکن ان کی ہیر پھیر بہت پہلے درج ہوچکی تھیں ۔
1997ء سےء 1999 کے درمیان وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر ان کے دور میں، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے وزارت خزانہ پر غلط اعدادوشمار پیش کرنے کا الزام عائد کیا اور اس کے بعد سزا کے طور پر پاکستان پر 5 اعشاریہ 5ملین ڈالر جرمانہ عائد کیا۔اسحاق ڈار نے بطور وزیر خزانہ اپنے پچھلے دور میں جن معاشی پالیسیوں پر عمل کیا انہیں تباہ کن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔انہوں نے پاکستانی روپے کی قدر کو زیادہ رکھنے کے لیے اوپن مارکیٹ میں 22 ارب ڈالر فروخت کیے، جس کی وجہ سے زرمبادلہ کا شدید بحران پیدا ہوا، جو آج تک جاری ہے۔
درآمدی محصولات کے ذریعے ٹیکس محصولات کو بڑھانے اور شرح نمو کو تیز کرنے کے لیے،اسحاق ڈار نے درآمدات کا ایک فلڈ گیٹ کھول دیا، جس سے تجارتی خسارہ 2017-18 میں 38 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ ا س عمل کے دوران ، ان پر گھریلو صنعت اور زراعت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد ہوچکا تھا۔
پاکستان کی برآمدات 2013ء میں 25 ارب ڈالر سے کم ہو کر 2017ء میں 20 ارب ڈالر رہ گئیں۔اسحاق ڈار نے خودمختار ضمانتوں کے خلاف مہنگے غیر ملکی قرضے لیے اور انہیں کئی سرکاری کمپنیوں کے درمیان لا کھڑا کیا، تاکہ وہ مجموعی قومی قرضوں میں ظاہر نہ ہوں، اس کی سازشوں کی فہرست وقت کے ساتھ سامنے آتی رہیں ۔ اور اب وہ ایک بار پھر روپیہ کو مصنوعی طور پر مہنگا رکھنا چاہتے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر، بین الاقوامی سرمایہ کاروں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور بلومبرگ نے رپورٹ کیا کہ پاکستان کے ڈالر بانڈ کی قدر میں کمی شروع ہو گئی ہے۔اسحاق ڈار معیشت کی بنیادوں کو کمزور کرتے ہوئے ترقی کا بھرم پیدا کرنے میں ماہر ہیں، جیسا کہ انہوں نے وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر اپنے گزشتہ دو ادوار میں کیا تھا۔اسحاق ڈار کی جگہ کراچی کے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا دیا گیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ حال ہی میں لیک ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں، ان کی بھتیجی اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو مفتاح اسماعیل سے کافی ناراض محسوس کیا گیا اور ان کےخلاف توہین آمیز زبان کا استعمال کرتے ہوئے مریم نواز نے اپنے چچا پر زور دیا کہ اسحاق ڈار کو لندن سے واپس لانے پر انہیں عہدے کا چارج دے دیا جائے ۔شریف خاندان کا اندرونی حلقہ کشمیری قبیلے سے تعلق رکھنے والے قابل اعتماد افراد پر مشتمل ہے، جیسے اسحاق ڈار کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے ۔ مفتاح اسماعیل کی حیثیت ایک ایسے شخص کی ہے جسے صرف ضرورت پڑنے پر ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔اسحاق ڈار کی نواز شریف کی نظر میں اہمیت کی کئی وجوہات ہیں ۔وہ شریفوں کے مالی معاملات (جیسے حدیبیہ وغیرہ) کو سنبھالنے میں کارآمد ثابت ہوئے ہیں اور وہ شہباز شریف کی قیادت میں گروپ کے خلاف مسلم لیگ( ن) کے اندر نواز دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اس کے بعد ، یہ تقریباً طے ہے کہ نواز شریف اپنے حامی اسحاق ڈار کے ذریعے حکومت کو طویل عرصے ے تک چلائیں گے، نواز شریف اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے بھائی شہباز شریف پارٹی کو ہائی جیک نہ کرلیں ، نواز شریف کی خود ساختہ جلاوطنی سے واپسی کے لیے قانونی راستہ طے کرنے کے لیے بھی انتظامات کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ 2023ء میں ہونے والے اگلے عام انتخابات میں پارٹی کی قیادت کر سکیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News