Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

صرف اور صرف شہادت

Now Reading:

صرف اور صرف شہادت

قیام پاکستان سے آج تک اس مٹی کے مسیحی بیٹوں نے مادروطن کےدفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ پاکستان کےدفاع کے عظیم مقصد کے لیے اپنا خون بہانے کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کےشانہ بشانہ ساتھ رہےہیں، چاہے وہ 1948ء کی کشمیر کی جنگ ہو یا 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگیں، 1999ء کی کارگل کی جنگ ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ۔ وطن عزیزکے لیے جب بھی فرض کی ادائیگی کا وقت آیا وہ ہمیشہ اگلی صفوں پرلڑے ہیں۔

پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز(جی ایچ کیو) شہدا سیل کے مطابق صرف پاک فوج کی جانب سے دوافسران سمیت91 مسیحیوں نے پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ یہ جاننا بھی حوصلہ افزا ہے کہ پاک فضائیہ کے 70 ستارہ جرات حاصل کرنے والوں میں سے سات مسیحی ہیں جن میں سے دو نے مادر وطن پر اپنی جانیں نچھاورکیں۔

عظیم جنگجوؤں کے اس کارواں کے سرخیل یونس ولد قیصرہیں،جنہوں نے 1948ء میں کشمیرکی جنگ کے دوران پانڈو ہلزپرقومی پرچم لہرایا تھا۔ دریں اثناء پائلٹ آفیسرنووان تھیوڈورفضل الٰہی نے اٹک میں جان کی قربانی پیش کی اورکوئٹہ میں ایف 6 طیارہ اڑاتے ہوئے فلائٹ لیفٹیننٹ ایڈون نے اپنی جان دی۔ سیاچن سیکٹرمیں گیاری کے 140 شہداء میں چارمسیحی آصف مسیح، امون گل،عادل مسیح اورنوید مسیح بھی تھے۔

اسکواڈرن لیڈر پیٹرکرسٹی ان پائلٹوں میں شامل تھے جنہوں نے 1965ء کی جنگ کے دوران بھرپورقوت سے بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کی۔ فلائٹ لیفٹیننٹ کے طور پر وہ بی-57 کینبرا ایئرکرافٹ کےنیویگیٹر تھےاورکئی کامیاب آپریشنل مشنزکا حصہ رہے۔ان کی بہادری اورپیشہ ورانہ مہارت کے اعزاز کےطورپرحکومت پاکستان نے انھیں تمغہ جرات سے نوازا،اورانھیں اسکواڈرن لیڈرکےعہدے پرترقی دی۔1971ء کی جنگ جب شروع ہوئی تووہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز(پی آئی اے) میں ڈیپوٹیشن پرتھے لیکن وطن عزیز کے دفاع کیلئےانہیں اپنے آبائی شعبے پی اے ایف میں واپس بلایا گیا۔ کراچی پرفضائی حملوں کی خبریں آرہی تھیں اورشہرکا ہرقیمت پردفاع کرنا تھا۔

ایک ’موت و زیست‘مشن(مارو یا مرجاؤ) کی منصوبہ بندی کی گئی۔ایک اورمسیحی ماڑی پوربیس کے بیس کمانڈرائیرکموڈورنذیرلطیف نےتفصیلی بریفنگ دی اورمشن کے لیےدو افراد اسکواڈرن لیڈرخسرو، جو پی اے ایف سے ریٹائرہو چکے تھے لیکن انہیں جنگ میں لڑںے کے لیے واپس طلب کرلیا گیا تھا، اوراسکواڈرن لیڈرپیٹرکرسٹی نےرضاکارانہ طورپراپنی خدمات پیش کردیں۔6دسمبر 1971ء کی صبح وہ بی-57 بمبار طیارے میں مشن پرروانہ ہوئے۔مشن سے واپسی کے دوران زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نے ان کے طیارے کو نشانہ بنایا اور دونوں نے جام شہادت نوش کیا۔ بھارتی فضائیہ(آئی اے ایف) نے اس واقعہ کی تصدیق نہیں کی اور انہیں کارروائی میں لاپتہ اور بعد میں شہید قرار دے دیا گیا۔

Advertisement

ونگ کمانڈرمارون لیسلی نے 1954ء میں کمیشن حاصل کیا۔1965ء کی جنگ کے دوران،اس وقت کےنوجوان فلائٹ لیفٹیننٹ مروین لیسلی مڈل کوٹ، جوکمانڈرلیسلی کے نام سے معروف تھے، پی اے ایف بیس مسرور کراچی میں تعینات تھے۔ جب دشمن نے شہرپرحملہ کیا تووہ ایف -86 طیارہ اڑانے والوں میں شامل تھے۔انہوں نے بھارتی فضائیہ ( آئی اے ایف) کے دوطیارے تباہ کیے،اوراپنی بہادری اورپیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے انہیں’کراچی کے محافظ‘ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔لاہورائیربیس پر انہیں نمبرنائن اسکواڈرن کا عہدہ دیا گیا، جہاں انہوں نے اگلی صفوں سے قیادت کے ذریعے اپنے فوجیوں کا حوصلہ بلند رکھا۔ انہوں نے17 باراڑان بھری اوردشمن کے اڈوں کی تصاویرلینےکے جاسوسی مشن پرحکومت کی جانب سے انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ اردن کے لیے اپنا پرکشش وفد چھوڑکر 1971ء کی جنگ شروع ہوتے ہی رضاکارانہ طورپرپاکستان لوٹ آئے۔

12دسمبر 1971ء کو جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کےہمراہ اپنا مشن مکمل کیا تو 47 اسکواڈرن کے ایک بھارتی مگ نے ان پرحملہ کیا۔ وہ نچلی پروازکرتے ہوئےاپنے طیارے کودومیزائلوں سے بچانے میں کامیاب رہے،لیکن جب وہ خلیجِ کے قریب پہنچے توایک اورمیزائل نے ان کے طیارے کو نشانہ بنایا۔ان کے طیارے کو نشانہ بنانے والے آئی اے ایف کے فلائٹ لیفٹیننٹ بھارت بھوشن سونی کے مطابق انہوں نے فلائٹ لیفٹیننٹ مروین لیسلی کوطیارے سے باہر نکلتےاورگہرے سمندرمیں گرتے دیکھا اورہیڈ کوارٹرسےامدادی ٹیم بھیجنے کو کہا۔امدادی ٹیم پہنچی توکمانڈرلیسلی کہیں نہیں ملے۔ انہیں اس کارروائی میں لاپتہ قراردے دیا گیا اوردوسری بارستارہ جرات سے نوازا گیا۔

اسی روز یعنی12 دسمبر1971ء کو ایک اور19 سالہ نوجوان اپنے خون سے بہادری کی داستان رقم کررہا تھا۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ ڈینیل اتریڈ نے انتہائی مشکل کام کے لیے رضاکارانہ طورپرکام کیا،جب وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے پاس آؤٹ ہو کر مشرقی پاکستان کے شہرسلہٹ میں تعینات یونٹ میں چلے گئے۔ 13 دسمبر 1971ء کی صبح،ان کی کمپنی رات بھرکے مشن سے واپس لوٹی تھی۔جب وہ اپنے بیٹ مین کے ساتھ ناشتہ کررہے تھے تو انہیں 31 پنجاب کی ایک پلاٹون پردشمن کے حملے کی اطلاع ملی جس میں بھاری نقصان اٹھانا پڑاتھا۔انہوں نےاپنےسپاہیوں کوتیارکیا اور فوراًمحاذ پرپہنچ گئے۔جہاں وہ ایک مقابلے کے دوران شدید زخمی ہو گئے اورسرجری کے دوران ان کے سینے سے تین گولیاں نکالی گئی تھیں۔انہوں نے سرجن سے درخواست کی کہ وہ گولیاں ان کی والدہ کو بطوریادگاردے دی جائیں۔ان کا نام ستارہ جرات کے لیے تجویزکیا گیا تھا۔

کیپٹن مائیکل ولسن 1971ء کی جنگ میں چھمب سیکٹرمیں دشمن سے لڑے اور 21 نومبر 1972ء کو ٹینک کے حادثے میں زخمی ہو ئے اوربعدازاں اپنے سفر آخرت پرروانہ ہوگئے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغازسے ہی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے فوجیوں نے دیگرپاکستانی فوجیوں کےہمراہ شانہ بشانہ حصہ لیا ہے۔ نوازکوٹ کے شہید میجرسرماس رؤف،تمغہ بسالت بھی انہی میں سے ایک ہیں،جنہوں نے مادروطن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ میجرسرماس رؤف نے 1987ء میں 44 ایف ایف میں کمیشن حاصل کیا اوراپنی 20 سالہ سروس میں سے 17 برس سیالکوٹ، کشمیر،سیاچن اوروزیرستان کے سرحدی علاقوں میں گزارے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنےذاتی سکون کو ملکی دفاع پرترجیح نہیں دی۔ میجرسرماس رؤف 1999ء کی کارگل جنگ کے دوران لائن آف کنٹرول پرخدمات سرانجام دے رہے تھے۔ وہ 3 جنوری 2006ء کو 44 ایف ایف سے فرنٹیئرکارپوریشن نارتھ ویسٹ فرنٹیئرصوبہ (بعد ازاں ایف سی خیبر پختونخوا) میں تعینات ہوئے۔ آپریشن المیزان کے آغاز سے ہی 3 ونگ باجوڑاسکاؤٹ نے اس میں حصہ لیا اورانتہا پسندوں کے کئی اہم ٹھکانے تباہ کردیئے۔ جب میجر سرماس رؤف کے ونگ نے نوازکوٹ کی ذمہ داری سنبھالی تو وہ شرپسندوں کے خلاف ایک مضبوط لیڈر ثابت ہوئے۔ ان کی شہادت سے چارروزقبل دہشت گردوں کا ایک اہم کمانڈر،اس کا بیٹا اورکئی ساتھی ایک آپریشن میں مارے گئے تھے۔ بدلہ لینے کے لیے دہشت گردوں نے نوازکوٹ پوسٹ کا محاصرہ کر لیا اورسپلائی روٹس بند کر دیے۔ ان کی کمان میں سپاہیوں نےزبردست مزاحمت کی، اور دشمن کو بڑا نقصان پہنچایا۔ اسی آپریشن کے دوران انہیں آر پی جی-7راؤنڈ کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ ابتدائی طورپرزخمی ہوئے لیکن زیادہ خون کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ بعد ازاں انہیں تمغہ بسالت سے نوازاگیا۔

شہداء کےعلاوہ بہت سے ایسےرضاکارجنگجو بھی ہیں جنہوں نے مادروطن کے لیے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔ایسے ہی سابق فوجیوں میں گروپ کیپٹن سیسل چوہدری بھی شامل ہیں جنہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا۔ان کی خدمات پرانہیں ستارہ جرات اورستارہ بسالت سے نوازا گیا۔سیسل چوہدری 13 اپریل 2012ء کو لاہورمیں انتقال کر گئے۔

Advertisement

 مسیحی شہداء کی ان قربانیوں اورمسیحی غازیوں کے کارناموں کو دستاویزی شکل دیتے وقت مجھےکامل یقین اوراعتماد ہے کہ اس مٹی کے مسیحی بیٹوں نے جب بھی مادرِ وطن کو ضرورت پڑی، اپنی قدروقیمت ثابت کی ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
نیپرا کا بڑا ایکشن اضافی بلنگ اور لوڈشیڈنگ پر گیپکو اور سیپکو پر جرمانہ
مستونگ میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن؛ بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے 4 دہشت گرد ہلاک
کراچی، ای بی ایم کاز وے کے دونوں ٹریک ٹریفک کے لیے کھول دیے گئے
کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ نے آرٹس ریگولر گروپ کے نتائج کا اعلان کردیا
سندھ میں نجی اسکولوں کے لیے بڑی تبدیلی، اسکول مالکان کے لیے اہم ہدایت
صدر آصف زرداری چین کے سرکاری دورے پر چنگدو پہنچ گئے
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر