Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

افغان طالبان کے سیاحوں سے بدلتے رویے

Now Reading:

افغان طالبان کے سیاحوں سے بدلتے رویے

طالبان ملک میں یا کم از کم دارالحکومت سے ملحقہ صوبوں میں قابل اعتماد امن و استحکام لائے ہیں

 موسم سرما کی آمد ایک بار پھر افغانستان کے حکم رانوں کے لیے ایک اور مشکل موسم لے کر آئی ہے کیونکہ امارات اسلامیہ افغانستان کی حکومت نومبر سے مارچ تک سخت مہینوں کے دوران لاکھوں ضرورت مندوں کے لیے خوراک اور توانائی کی فراہمی پر اپنی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔

طورخم سے کابل کا سفر ننگرہار اور لغمان صوبوں سے ہوتا ہوا، یا کابل کے پڑوسی صوبوں لوگر، پروان، میدان وردک یا بامیان جانا؛ ایک چیز واضح طور پر نظر آتی ہے کہ طالبان ملک میں یا کم از کم دارالحکومت سے ملحقہ صوبوں میں قابل اعتماد امن و استحکام لائے ہیں۔

 یہاں تک کہ خوبصورت پہاڑی خطوں میں پہلی بار نئی منزلوں پر جانے والے مسافروں کے لیے بھی، یہ سفر محفوظ ہے اور جب انہیں سڑک کے کنارے چوکیوں کی حفاظت کرنے والے شائستہ طالبان فوجیوں کی جانب سے خوش آمدید کہا جاتا ہے تو وہ کافی محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ فوجیوں کے لیے سیاحوں کا مطلب نہ صرف کمیونٹی یا مقامی مارکیٹ میں کچھ غیر ملکی نقدی کی آمد ہے بلکہ ملک بھر میں امن برقرار رکھنے میں ان کی کامیابی کا اعتراف بھی ہے جس نے 42 سال کی بیرونی اور اندرونی جنگوں کا سامنا کیا۔

Advertisement

 بامیان جاتے ہوئے اسٹیئرنگ وہیل سنبھالے ہمارے افغان ساتھی عبدالرحمٰن نے بتایا، ’’قصبوں، شہروں اور صوبوں کے درمیان سڑکوں پر نقل و حرکت میں آسانی آئی ہے۔ ماضی کے برعکس، چوکیوں پر سپاہیوں کا رویہ نرم ہے اور وہ لوگوں کو غیر ضروری سوالات سے پریشان نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے سفر میں تاخیر کا باعث بنتے ہیں۔‘‘ میرے لیے، یہ ایک سال میں ایک قابل ذکر تبدیلی تھی کیونکہ مجھے یاد آیا کہ اگست 2021ء میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے چند دنوں کے بعد جب میں نے پہلی بار یہاں کا سفر کیا تھا تو عبدالرحمٰن کو طالبان پر تنقید کرتے ہوئے پایا تھا۔

 کسی بھی جنگ زدہ ملک کی طرح، بچے اور بیوہ اکثر سڑکوں کے کنارے، گلیوں اور بازاروں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ اور جب کہ کوئی حسب توفیق مدد کرنا چاہتا ہے، تو کسی بھی مستحق کو کھلے عام صدقہ دینا مصیبت کو دعوت دینے کے برابر ہوجاتا ہے کیونکہ چند ہی لمحوں میں ایسے درجنوں افراد نہ جانے کہاں سے نمودار ہو جاتے ہیں اور آپ کو گھیر لیتے ہیں۔

 سات افغان صوبوں کے حالیہ سفر میں، ہم سے صرف تین مواقع پر سفری دستاویزات مانگی گئیں۔ ایک بار پاک افغان طورخم بارڈر کے ذریعے ملک میں داخل ہونے اور باہر جانے پر۔ اپنی سفری دستاویزات کو نکالنے کا ایک وقت وہ تھا جب ہم صوبہ بامیان کے راستے میں تھے اوربامیان صوبے کے داخلی راستے پر قائم چیک پوائنٹ پر طالبان سپاہیوں نے پاسپورٹ مانگے کیونکہ میں اور میرے صحافی ساتھی نے انہیں بتایا کہ ہم پاکستانی شہری ہیں جو بند امیر نیشنل پارک اور ڈیم کے راستے میں بدھا کے مجسمے دیکھنے جا رہے ہیں۔ سپاہی نے پاسپورٹ چیک کیے اور ہمیں بامیان صوبے میں داخلے کی اجازت دینے سے پہلے سبز چائے پیش کی۔

 ہمارے افغان شریکِ سفر فاروق احمد زئی نے بتایا، ’’اس نے فوراً آپ کو آپ کی شکل اور آپ کی پشتو بولی سے پہچان لیا۔ زیادہ تر وقت، چوکیوں پر موجود لوگ شائستہ ہوتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں سے اچھے انداز میں بات کرتے ہیں، چاہے انہیں کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھنے والے پر شبہ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

 افغان بہت سے حوالوں سے حیرت انگیز لوگ ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ نے کھانے یا کم از کم سبز چائے کے لیے ان کی پیشکش کو قبول کر لیا تو سب سے غریب لوگ بھی ممنون محسوس کریں گے۔ بامیان میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی غیر معمولی طور پر خوش اخلاق اور نرم گو ہے اور اپنی غربت اور وسائل تک رسائی کی کمی کے باوجود بامیان کے لوگ اپنے ماحول اور وسائل کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ سڑک کا ایک نشان بھی خراب یا غائب نہیں ہوا۔ زاہد نے بتایا، ’’یہ جاننے کی سب سے آسان نشانیاں ہیں کہ آپ بامیان صوبے میں ہیں، صاف اور مکمل طور پر محفوظ سڑکیں اور سڑکوں کے دونوں طرف سائن بورڈز۔ بہت سی دوسری جگہوں کے برعکس، لوگ اپنی سڑکوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور اپنی گلیوں اور بازاروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں۔‘‘

 70 ہزار سے زیادہ آبادی کے ساتھ، بامیان ہزارہ جات کا سب سے بڑا شہر ہے جو سطح سمندر سے تقریباً 8 ہزار 366 فٹ کی بلندی پر ہے۔ ہندوکش پہاڑی سلسلے کو کوہ بابا کے پہاڑوں سے الگ کرنے والی وادی کابل کے شمال مشرق میں تقریباً 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور پروان اور میدان وردک صوبوں کے ذریعے سڑکوں کے ذریعے دارالحکومت سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ ہزارہ نسل خاص طور پر افغانستان کے دیزنگی ہزارہ افرادکا ثقافتی مرکز ہے۔

Advertisement

 زیادہ تر آبادی بامیان شہر میں رہتی ہے جو قدیم شاہراہ ریشم پر واقع ہے اور کبھی مشرق اور مغرب کے سنگم پر تھا جب چین اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تمام تجارت اسی سے ہوا کرتی تھی۔

بامیان شہر میں سیاحوں کے لیے بہت سے پرکشش مقامات ہیں، جن میں بامیان کے بدھا بھی شامل ہیں، جو چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں بامیان شہر کے شمال کی جانب چٹانوں میں تراشے گئے تھے، جو کہ ہیفتھلائیٹ کے دور کے ہیں۔ صوبے کا تقریباً 90 فیصد حصہ پہاڑوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ سردیاں چھ ماہ تک طویل اور برفانی ہو سکتی ہیں کیونکہ درجہ حرارت بعض اوقات منفی 20 ڈگری سیلسیس تک گر جاتا ہے۔

بامیان شہر کے مغرب میں مزید ایک گھنٹے کی مسافت پر افغانستان کا پہلا اور سب سے شاندار بند امیر نیشنل پارک واقع ہے۔ اپریل 2009ء میں قائم کیا گیا، وسطی افغانستان کے نیشنل پارک میں ایک قدرتی ڈیم ہے جو معدنیات سے مالا مال پانی کے لیے بنا ہے جو ہندوکش کی پہاڑی ریگستانی زمین کی اونچائی میں دراڑوں اور شگافوں سے نکلتا ہے۔ چھ نیلی جھیلوں کا ایک سلسلہ، جس میں بند ذوالفقار تقریباً ساڑھے چھ کلومیٹر قطر کے ساتھ سب سے بڑا ہے اور سخت معدنیات کی تہوں کی ٹراورٹائن دیواروں پر مشتمل ہے۔

سخت مالی حالات اور سرد موسم کے اثرات کو نظرانداز کرنا مشکل تھا کیونکہ اکتوبر کے آخر میں درجہ حرارت 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرنے کے بعد صرف چند باہمت سیاحوں نے ایک تیز ہوا دار دوپہر کو بند امیر تک پہنچنے کے لیے سخت سردی کا مقابلہ کیا۔ دو درجن سے زائد ہوٹلوں کا عملہ غیرمتوقع سیاحوں کی آمد کا انتظار کرتا رہا۔

مہمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے، بند امیر میں چوکی پر موجود طالبان کے ہزارہ برادری کے سپاہی نے مسافروں کو خبردار کیا کہ وہ گوشت کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ باسی ہے۔ یہاں تک کہ جو ’نان‘ ہم بیکری سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے وہ بھی دو دن پرانا تھا کیونکہ نان بائیوں نے مہمانوں کی غیر موجودگی میں تازہ نان پکانا بند کر دیا تھا۔

 افغانستان کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک ہونے کے باوجود بامیان ملک کے محفوظ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس مصنف نے کابل واپسی کے راستے پر زمینی صورتحال کی ایک حقیقی مثال دیکھی جب ایک نوجوان خاتون رات 10 بجے سے چند منٹ پہلے کافی فاصلے پر موجود مکانات کے جھرمٹ کی طرف اکیلی جاتی ہوئی نظر آئی۔

Advertisement

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مصطفیٰ کمال کی ملاقات ، وزارت صحت کے منصوبوں پر بریفنگ
جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم سانائے تاکائچی کون ہیں ؟
بلوچستان کو فتنتہ الہندوستان کی لعنت سے نجات دلانے کےلئے اقدامات کر رہے ہیں، فیلڈ مارشل سید عاصم منیز
پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت، امریکی جریدے فارن پالیسی کا اعتراف
پنڈی ٹیسٹ: جنوبی افریقہ نے 333 رنز کے تعاقب میں 4 وکٹوں پر 185 رنز بنا لیے
پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کا خدشہ عارضی طور پر ٹل گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر