
سڑکوں کی مرمت، پارکوں کی دیکھ بھال، فنڈزاکٹھا کرنے اوردیگرمتعلقہ مسائل کے حوالے سے کے ایم سی کے میڈیا ڈائریکٹر نے کارپوریشن کی پیچیدہ صورتحال کا انکشاف کیا
سندھ حکومت نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو شہر میں مون سون کی بارشوں کے دوران تباہ ہونے والی سڑکوں کی مرمت اور تعمیر کے لیے 1اعشاریہ5 ارب روپے فراہم کیے ہیں اورکارپوریشن کا دعویٰ ہے کہ شہر کی زیادہ ترسڑکوں کی مرمت کردی گئی ہے۔
کے ایم سی کے میڈیا مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹرعلی حسن ساجد کے مطابق شہر میں 17 مختلف ادارے کام کررہے ہیں، جن میں چھ کنٹونمنٹ بورڈز،ملیرڈویلپمنٹ اتھارٹی (MDA)،ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (DHA)، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی (LDA)،کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (KDA)،سی اے اے( CAA)، کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT)،ریلوے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) اور مختلف سوسائٹیوں کے علاوہ سات ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنزشامل ہیں۔
ڈائریکٹر نے کہا کہ کے ایم سی شہر کی صرف 106 بڑی سڑکوں کی ذمہ دار ہے اور ہم نے شارع لیاقت، صفورا گوٹھ سے یونیورسٹی روڈ، شارع نورجہاں، اورحبیب رحمت اللہ روڈ کی مرمت کی ہے، اور بارش سے تباہ ہونے والی باقی سڑکوں پر کام جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک پی ای سی ایچ میں سڑکوں کا تعلق ہے،کے ایم سی صرف شارع فیصل اورشاہراہ قائدین کی ذمہ دار ہے؛ اس کا سوسائٹی کی دیگر سڑکوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، جب کہ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن (ڈی ایم سی) ایسٹ ان سڑکوں کی مرمت کا ذمہ دار ہے، آپ شہر کی ہر خراب سڑک کے لیے کے ایم سی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا ڈی ایم سیز کے ایم سی کے ماتحت نہیں ہیں، توعلی حسن ساجد نے جواب دیا کہ ڈی ایم سیز خود مختارادارے ہیں جن کا اپنا بجٹ ہے۔
ایک اورسوال کہ ڈی ایم سیز کے ایم سی کی کمان میں کیوں کام نہیں کررہی، انہوں نے جواب میں کہا کہ اس سلسلے میں جلد ہی کچھ ترامیم لائی جائیں گی، تاہم فی الحال ڈی ایم سیز آزادانہ طور پر کام کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر نے مکمل شدہ سڑکوں کے معائنے کے لیے ایک خودمختار کمیٹی تشکیل دی ہے، اگرکمیٹی ممبران مطمئن ہوئے تو کام مکمل سمجھا جائے گا۔
پارکس
اسی طرح انہوں نے نشاندہی کی کہ کے ایم سی شہر کے 46 بڑے پارکوں کی انچارج ہے۔ ایک ایکڑ سے چھوٹے پارک کارپوریشن کے دائرہ اختیارمیں نہیں ہیں۔ اگرکوئی پارک ایک ایکڑ سے کم سائزکا ہے تو اس کی ذمہ داری ڈی ایم سی پرعائد ہوتی ہے۔ باغ ابن قاسم، پولو گراؤنڈ، گلشن جناح، سرسید پارک، تعلیمی باغ، عزیز بھٹی پارک، پہاڑی پارک، اور کڈنی ہل ان بڑے پارکوں میں سے ہیں، جوہمارے زیرانتظام ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ شہر کے تمام پارکس کے ایم سی کے ہیں، جو ان کی دیکھ بھال کا ذمہ دارہے۔ یہ درست نہیں ہے، مثال کے طورپر نثار شہید پارک ڈی ایچ اے کی ذمہ داری ہے، کے ایم سی کی نہیں؛ ہم صرف 46 پارکس اور 106 بڑی سڑکوں کے ساتھ گرین بیلٹ کی دیکھ بھال کرتے ہیں جو کے ایم سی کی ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارک میں داخلے کی فیس 5 سے 20 روپے تک ہے لیکن اتنی کم رقم سے پارکوں کی دیکھ بھال نہیں ہو سکتی۔ علی حسن ساجد کے مطابق فنڈز کی کمی نے ان پارکوں کی دیکھ بھال کے عمل پرمنفی اثرڈالا کیونکہ اگران کی دیکھ بھال نہ کی گئی تو درخت اور پودے مرجائیں گے۔
قبرستان
کے ایم سی کے ڈائریکٹرمیڈیا مینجمنٹ کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں 200 سے زائد قبرستان ہیں،جن میں سے کے ایم سی کے پاس صرف 38 ہیں۔ باقی قبرستانوں کی دیکھ بھال کمیونٹیز یا سوسائٹیز کرتی ہیں۔ 38 میں سے چھ قبرستانوں کو بند قراردے دیا گیا ہے، اور دو نئے، ایک ناردرن بائی پاس کے قریب اور ایک سرجانی ٹاؤن میں، ابھی تدفین کے لیے کھلنا باقی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کے ایم سی کے پاس شہر میں 30 قبرستان ہیں،جو فعال ہیں اورجہاں تدفین کا عمل جاری ہے۔ تدفین کی فیس 9ہزار روپے تھی، اور کے ایم سی نے حال ہی میں 14ہزار300 روپے کی نئی مجوزہ شرح پر فیس وصول کرنا شروع کی ہے۔ ان 30 مقامات پرروزانہ 50 سے 60 افراد کی تدفین کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ گورکن زیادہ تریومیہ اجرت پرکام کرنے والے ہوتے ہیں، اورکے ایم سی انہیں ان کے وقت کے لیے ادائیگی کرتی ہے۔ اسے اس طرح دیکھیں تو قبرکھودنے کے معاوضے، قبرکھودنے والوں کی مزدوری، کنکریٹ کے سلیب کے لیے چارجز اورموت کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی فیس، سبھی 9ہزار روپے میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اخراجات پورے ہونے کے بعد کے ایم سی کو 9ہزار روپے میں سے 300 روپے ملتے ہیں، اور اتنے کم فنڈز سے قبرستانوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ درحقیقت کے ایم سی پیسے کمانے کی بجائے ایک سروس فراہم کر رہی ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا قبر کھودنے والوں نے تدفین کی فیس 25ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے سے زائد مانگی ہے، تو انہوں نے کہا کہ جب خاندان کا کوئی فرد مرجاتا ہے تو لوگ حساس ہوجاتے ہیں، اوراگران کی والدہ، والد یا کوئی رشتہ دار قبرستان میں دفن ہوتا ہے، تو وہ ان کے بارے میں سوچتے ہیں۔اور مطالبہ کرتے ہیں کہ پرانی قبر کے ساتھ ایک نئی قبر تعمیر کی جائے۔ اگر قبر کھودنے والا انکارکرتا ہے توخاندان انہیں فراخدلانہ پیشکش کرتا ہے۔
فنڈز
ڈائریکٹر نے وضاحت کی کہ کے ایم سی کا مالی سال 2022ء-2023ء کا کل بجٹ 22 ارب روپے سے زائد تھا۔ سندھ حکومت کے ایم سی کو فنڈزفراہم کرتی ہے، اورکارپوریشن اپنی بہت کم آمدنی پیدا کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کے ایم سی میں 14ہزار ملازمین ہیں، اور کارپوریشن کوماہانہ تنخواہوں کی تقسیم کے بعد 40 ملین روپے ماہانہ خسارے کا سامنا ہے۔
علی حسن ساجد نے مزید کہا کہ کے ایم سی اکثرصوبائی حکومت سے یوٹیلیٹی بلوں، دفتر کی دیکھ بھال کے اخراجات وغیرہ کی ادائیگی کے لیے فنڈزکی درخواست کرتی ہے۔
محصولات جمع کرنا
ایک نجی یوٹیلیٹی ادارے کے ذریعے ٹیکس وصولی کے حوالے سے جسے سندھ ہائی کورٹ (SHC) نے روک دیا تھا، انہوں نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹرمرتضیٰ وہاب نے ٹیکس کو زیادہ سے زیادہ 7000 روپے سے کم کر کے 50 سے 300 روپے تک کردیا۔ یہ کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے اور کے ایم سی اس کے ذریعے سالانہ 3اعشاریہ5 ارب روپے اکٹھا کر سکتی ہے، جو کہ شہر میں پارکوں کی دیکھ بھال، سڑکوں کی مرمت اور نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے ایک اچھی رقم ہوگی۔
جب ان سے ٹیکس وصولی نجی ادارے کو سونپنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے سوال کیا کہ پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) بجلی کے بلوں اوریہاں تک کہ مساجد اور دیگرمذہبی اداروں سے بھی ٹیکس کیوں وصول کر رہا ہے،جہاں ٹیلی ویژن نہیں ہوتا۔ پی ٹی وی بھی ایک سرکاری ادارہ تھا، جس نے ٹیکس وصولی ایک نجی ادارے کو سونپ دی تھی۔
پینشن
کے ایم سی کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ ہمیں پنشنرز کے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے فنڈزکی شدید کمی کا سامنا ہے کیونکہ کے ایم سی نے 2016ء سے گریڈ 1 سے 20 تک کے پنشنرز کے بقایا جات ادا نہیں کیے، جو کہ اب سات ارب روپے تک جمع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایڈمنسٹریٹر نے سندھ حکومت سے بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی ہے، جس کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور اس کی مالیت تقریباً 3اعشاریہ5 ارب روپے ہے۔ بقایا جات میں ریٹائرڈ ملازمین کی گریجویٹی، لیو ان کیشمنٹ، اورپراویڈنٹ فنڈزشامل ہیں، جب کہ کے ایم سی ان کی ماہانہ پنشن کی ادائیگی کررہی ہے۔
علی حسن ساجد نے کہا کہ کے ایم سی 2016ء اور 2020ء کے درمیان ریٹائر ہونے والے پنشنرز کے بقایا جات ادا کرنے کے قابل ہوجائے گی، اگراسے صوبائی حکومت سے بیل آؤٹ پیکج مل گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سینکڑوں ملازمین ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کے بعد ریٹائرہورہے ہیں، کیونکہ ان کی تقرری میئرعبدالستار افغانی کے دور میں اوربعد میں میئرڈاکٹرفاروق ستار کے دورمیں ہوئی تھی۔ ان کے دورمیں بڑے پیمانے پرتقرریاں کی گئی تھیں، اور وہ ملازمین اب ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچ رہے ہیں۔
کے ایم سی کے ڈائریکٹرمیڈیا مینجمنٹ کے مطابق چونکہ ریٹائرہونے والے اہلکاروں کی جگہ نئی تقرریاں نہیں کی جا رہی ہیں، کارپوریشن کے مختلف محکموں میں سیٹیں خالی ہیں۔ موجودہ عملے کی کمی کے نتیجے میں کارپوریشن کی کارکردگی متاثرہورہی ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News