Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سفید مسجد کا تنازع

Now Reading:

سفید مسجد کا تنازع

پشاور انتظامیہ عوامی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اسپن جماعت کی تعمیر نو کا ارادہ رکھتی ہے، تاہم کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس سے ایک عہد کا ڈھانچہ ختم ہو جائے گا

پشاور کے سماجی و سیاسی حلقے ضلعی انتظامیہ کے شہر کی مشہور اسپن جماعت (سفید مسجد) کو منہدم کرنے اور نئی شکل دینے کے منصوبے کی مزاحمت کے لیے متحد ہو رہے ہیں، جو پشاور کو طورخم اور آگے افغانستان سے ملانے والی سڑک پر واقع ہے۔

یہ مسجد 1950ء کی دہائی میں اس علاقے میں مقیم مقامی قبائل کی طرف سے عطیہ کردہ اراضی پر تعمیر کی گئی تھی۔ 1960 ءکی دہائی کے دوران  محکمہ اوقاف اور مذہبی امور کے زیر انتظام چلانے کے لیے اس کا سرکاری املاک کے طور پر اعلان کیا گیا تھا۔

پشاور کی ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مسجد کے ڈھانچے کے کچھ حصے تجاوز شدہ اراضی پر قائم ہیں، جنہیں ہٹانے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آس پاس کی صحت اور رہائشی سہولتوں تک آسانی سے رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔تاہم، اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مسجد کے موجودہ ڈھانچے کو 1985ء میں حتمی شکل دی گئی تھی، جب یہ محکمہ اوقاف کی ملکیت تھی۔

Advertisement

اسپن جماعت مسجدکو نئی شکل دینے کے حکومتی منصوبوں کے پس پردہ وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان نے حال ہی میں میڈیا کو بتایا کہ پہلی نظر میں یہ مسجد تجاوزات والی اراضی پر قائم نظر نہیں آتی۔ لیکن حال ہی میں پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (PDA)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA)، پختونخواہ ہائی وے اتھارٹی (PkHA) اور صوبائی محکمہ محصولات کے حکام کی جانب سے مشترکہ طور پر کرائے گئے سروے میں اس کے برعکس معاملہ سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ مسجد کے سامنے (مرکزی طورخم/ یونیورسٹی روڈ کے ساتھ) 41 فٹ سیدھی لائن میں تجاوزات ہیں، اور مغرب کی سڑک پر 30 فٹ تجاوزات ہیں، جو مسجد اورخیبر ٹیچنگ اسپتال کے درمیان سے گزرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ٹریفک جام اور مسافروں کے ساتھ ساتھ علاقہ مکینوں کے لیے تکلیف کا سبب بن رہا ہے۔

محکمہ اوقاف کے منصوبوں کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ ڈھانچے کو منہدم کر کے  دوبارہ ایک تین منزلہ مسجد تعمیر کی جائے گی، جس میں زیر زمین پارکنگ کی خصوصی سہولت موجود ہوگی۔ جس سے قریب موجود خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ساتھ ساتھ مشرق میں قریبی بازاروں کے لیے سڑک پر رش کو کم کرنے میں مدد کرے گی۔ اسی طرح سامنے والی مسجد کی اپنی دکانوں کو نئی اچھی ڈیزائن  کردہ دکانوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

اسپن جماعت  1950 ءکی دہائی کے اوائل میں ایک کنال (5ہزار 445 مربع فٹ) اراضی پر تعمیر کی گئی تھی، جسے نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے رہنما اور خیبر پختونخواہ (KP) کے سابق گورنر ارباب سکندر خان خلیل کے والد نے عطیہ کیا تھا۔کے پی اس وقت شمال مغربی سرحدی صوبہ (NWFP) کہلاتا تھا۔ خلیل قبیلے کے کئی معززین کے ساتھ ساتھ کچھ تاجروں،  فارمیسی مالکان اور خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ڈاکٹروں کے عطیات سے مسجد 1985ء تک توسیع اور تعمیر نو کے کئی مراحل سے گزری ۔

پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے رہنما ارباب خضر حیات، جن کے دادا مسجد کے لیے اراضی دینے والوں میں شامل تھے، نے بول نیوز کو بتایا کہ مسجد خلیل قبیلے کی ملکیتی اراضی کے مرکز میں واقع ہے۔ اس طرح قبائلی اسے اپنی شناخت کے ساتھ ساتھ پشاور کی شناخت کے طور پر دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب حکومت اس تاریخی مسجد کو گرا کر اسے تہہ خانے میں کار پارک اور گراؤنڈ فلور پر ایک شاپنگ مال کے ساتھ دوبارہ تعمیر کرنا چاہتی ہے، جب کہ خود مسجد کو پہلی اور دوسری منزل پر منتقل کیا جائے گا اور تیسری منزل پر ایک مدرسہ ہوگا۔

Advertisement

اس طرح ان کا خیال ہے کہ اس پورے منصوبے کے پس پردہ اصل مقصد مسجد کی جائیداد کو استعمال کرتے ہوئے پیسہ کمانا ہے، کیونکہ شاپنگ مال سے کروڑوں روپے کا کاروبار ہو گا، جس میں سے محض دو فیصد مسجد کو ،باقی سب بدعنوان اہلکاروں کی جیبوں میں جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے خلیل قبیلے اور کچھ مذہبی عمائدین نے مل کر اسپن جماعت  کے تحفظ کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی۔حکومتی نمائندوں سے بات چیت کرنے کے علاوہ کمیٹی عوامی حمایت کو بھی متحرک کرے گی کیونکہ ہمارا مقصد صرف ایک برادری تک محدود نہیں ہے۔

مجلس علمائے خلیل کی طرف سے بلائے گئے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ارباب عالمگیر خان، جمعیت علمائے اسلام (ف)  کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر مولانا امان اللہ حقانی، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ارباب طاہر خان اور دیگر سمیت مختلف رہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس میں جمعہ 18 نومبر کو مسجد میں اجتماع منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جے یو آئی (ف) کے امان اللہ حقانی نے بول نیوز کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کے ساتھ بات چیت میں انہوں، نے انہیں بتایا کہ موجودہ عمارت محکمہ اوقاف کے منظور کردہ نقشے پر اس وقت تعمیر کی گئی تھی، جب جنرل (ر) فضل حق صوبے کے گورنر تھے، اور مرحوم گورنر نے پشاور سے ایک ایک انچ تجاوزات ہٹا دی تھیں۔

 انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈپٹی کمشنر کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم کسی کو مسجد کی ایک اینٹ بھی تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ پشاور کی دیگر تاریخی مساجد کو نشانہ بنانے کی حکومت کے لیے ایک مثال قائم کرے گا۔

ڈپٹی کمشنر شفیع اللہ خان نے اس قسم کے تحفظات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں نے دکانوں اور پارکنگ کی تعمیر کو خلاف شریعت قرار دے کر اس پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ہم نے مذہبی علماء سے مشورہ کیا ہے اور انہیں یہاں کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ ہم نے ابھی تک اپنے منصوبوں کو حتمی شکل نہیں دی ہے، لیکن میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسجد کے ساتھ پہلے سے ہی دکانیں منسلک ہیں اور وہ اس کی جائیداد کا حصہ ہیں۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ مسجد اوقاف کے نوٹیفکیشن کے تحت حکومت کو منتقل کی گئی، یہ عطیہ شدہ اراضی ہے اور اس طرح اب اس پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔ مسجد کا امام (نماز پیش کرنے والا) محکمہ اوقاف کی طرف سے مقرر کیا جاتا ہے اور محکمہ سے تنخواہ لیتا ہے، جو بجلی، پانی اور گیس کے بل بھی ادا کرتا ہے۔ اگر شریعت کے مطابق کوئی مسئلہ ہے تو ہم کسی کے ساتھ بھی بیٹھ کر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مصطفیٰ کمال کی ملاقات ، وزارت صحت کے منصوبوں پر بریفنگ
جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم سانائے تاکائچی کون ہیں ؟
بلوچستان کو فتنتہ الہندوستان کی لعنت سے نجات دلانے کےلئے اقدامات کر رہے ہیں، فیلڈ مارشل سید عاصم منیز
پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت، امریکی جریدے فارن پالیسی کا اعتراف
پنڈی ٹیسٹ: جنوبی افریقہ نے 333 رنز کے تعاقب میں 4 وکٹوں پر 185 رنز بنا لیے
پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کا خدشہ عارضی طور پر ٹل گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر