
سندھ کے حکمران بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کرتے رہتے ہیں، مخالفین ان وجوہات سے اتفاق نہیں کرتے جو وہ بتاتے ہیں
ذرایع کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ کے حکمران اتحاد میں شریک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے کراچی کے نئے میئر کے انتخاب کے لیے بلدیاتی انتخابات کے بجائے مستقبل قریب میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کا نیا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
باخبر اندرونی ذرائع نے بول نیوز کو بتایا کہ اتحادی تقریباً اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ فی الحال وہ کراچی کے معاملات کو ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے چلانا چاہیں گے، جو ایم کیو ایم پاکستان سے ہوگا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کی جگہ لیں گے۔
اس دوران، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (SLGA) 2013 میں ترمیم کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں تاکہ میئر کے منتخب ہونے کے بعد ان کے اختیارات میں اضافہ کیا جا سکے۔ سندھ کابینہ نے حالیہ اجلاس میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قانون میں ترمیم کی سمری کی منظوری دی ہے۔ سمری کے مطابق، اگلے میئر کو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (KWSB)، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA) اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (SWMB) سمیت بڑے شہری اداروں کے چیئرمین کے طور پر کام کرنے کے اضافی اختیارات حاصل ہوں گے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما اور سابق میئر وسیم اختر نے سپریم کورٹ کی ہدایت کا حوالہ دیتے ہوئے بول نیوز کو بتایا کہ ان کی جماعت ایک ایسا میئر چاہتی ہے جس کے پاس ’’حقیقی اختیار‘‘ ہو اور اس کے لیے وہ اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی سے بات چیت کر رہے تھے۔
اس پس منظر میں سندھ حکومت نے ایک بار پھر کراچی، حیدرآباد اور ٹھٹھہ ڈویژنز میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مزید تین ماہ کے لیے کرانے سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کو بھیجے گئے ایک خط میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سیکورٹی فورسز کی مصروفیت کی وجہ سے ناکافی سیکورٹی کو جواز بنایا گیا۔
سندھ حکومت نے خط میں مزید کہا ہے کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس نے رابطہ کرکے حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ کراچی میں انتخابات کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی کافی نفری موجود نہیں، دیگر اضلاع میں پولیس تاحال فلڈ ڈیوٹیوں اور علاقے میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ مزید برآں، اسلام آباد میں امن و امان کی ابھرتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے سندھ پولیس کے 5 ہزار اہلکار وفاقی حکومت کے اختیار میں دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، 15 نومبر کو کراچی میں شروع ہونے والی آئندہ بین الاقوامی دفاعی نمائش (IDEAS-2022) کے لیے پولیس سیکیورٹی درکار ہوگی۔
بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ پہلے ہی تین بار ملتوی کیا جا چکا ہے، جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے ناراضگی کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ نے اس حوالے سے کہا کہ حکومت پولیس نفری میں کمی کو الیکشن سے بچنے کا بہانہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اسلام آباد پولیس بھیجنے کا اقدام انتخابات کے انعقاد میں قانونی ذمہ داری کی صریح خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو اپنے کیے پر شرم آنی چاہیے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں الیکشن کمیشن پاکستان کو بلدیاتی انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی ہے تاکہ شہری اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے اپنا آئینی حق استعمال کر سکیں۔
جب ان کی رائے جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ ’’سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بارشوں کا بہانہ بنا کر، پھر سیلاب سے متاثرہ افراد کے بہانے اور اب پولیس اہلکاروں کی کمی کا بہانہ بنا کر انتخابات کرانے سے گریز کیا۔‘‘
انہوں نے حکومت کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے سات دن کی مہلت دی ہے، جس میں حکومتی ناکامی کی صورت میں جماعت اسلامی ’’ملک بھر کے علاوہ سندھ اسمبلی کی عمارت کے باہر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دے گی۔‘‘
پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے صدر سید مصطفی کمال نے نمائندہ بول نیوز کو بتایا کہ سیلابی صورتحال نے ثابت کردیا ہے کہ ملک کو موثر بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نظام موجود ہوتا تو بغیر کسی اور انتظامی رکاوٹ کےامداد سیلاب زدگان کی دہلیز پر پہنچائی جاتی۔
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ایک رہنما، سردار عبدالرحیم بول نیوز سے گفت گو میں پی پی پی کے چیئرمین رہنما آصف زرداری پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’زرداری لیگ کو اپنی شکست تسلیم کرلینی چاہیے۔ یہ انتخابات سے بھاگ رہےہیں، لیکن جمہوریت کی حامی قوتیں انہیں اور ان کی جماعت کو ان ہتھکنڈوں سے بھاگنے نہیں دیں گی۔‘‘
صوبائی وزیر سعید غنی نے جب ان ریمارکس کا سامنا کیا تو کہا کہ ’’پی پی پی انتخابات سے بھاگنے والی نہیں۔ جب بھی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا تو ہم کراچی میں کامیابی کے بعد اپنا میئر بناکر انہیں سرپرائز دیں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر سیاسی نہیں انتظامی مسئلہ ہے۔ سندھ حکومت نے پہلے ہی الیکشن کمیشن پاکستان کو اس کی وجوہات بتاتے ہوئے خط بھیجا تھا۔
سندھ میں حکمراں جماعت کی اتحادی پارٹی ایم کیو ایم پاکستان انتخابات سے قبل مخصوص حلقوں کی حد بندی پر زور دے رہی ہے، اور موقف پیش کررہی ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات کا انعقاد بے معنی ہوگا۔ ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ ہائی کورٹ میں 6 درخواستیں دائر کی ہیں، جس میں مختلف یونین کونسلوں کے وارڈز کی سابقہ حد بندیوں کو چیلنج کیا گیا ہے جو اس کے بقول بدنیتی کے ساتھ کی گئی تھیں۔
درخواستوں کی سماعت 15 نومبر کو ہوگی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News