بول میڈیا گروپ کی انتظامیہ کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے متعدد ہتھکنڈے آزما کر نشانہ بنانے کی مہم جاری ہے۔ 2015ء کے کریک ڈاؤن کی طرح، حکومت ایک بار پھر اس کی بنیادی کمپنی ایگزیکٹ کو نشانہ بنا رہی ہے، جو کہ 2014-15ء تک پاکستان کی سب سے بڑی انفارمیشن ٹیکنالوجی خدمات کی برآمد کنندہ تھی۔
2015ء میں، اپنے اتحادی میڈیا اور غیر ملکی شراکت داروں کی ایما پر، مسلم لیگ (ن) نے ایگزیکٹ کے خلاف جعلی ڈگریوں کا کاروبار چلانے کے جھوٹے مقدمات درج کرائے تھے۔ اسی طرح کی دو ایف آئی آر بھی ایگزیکٹ کے خلاف درج کی گئی تھیں، جس میں سے ایک کراچی میں 27 مئی 2015ء کو، اور دوسری اسلام آباد میں نو دن بعد درج کی گئی۔ دونوں ایف آئی آرز ایک جیسی تھیں، ایک شخص پر ایک ہی جُرم میں دو مختلف مقامات پر ایک جیسی ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اور اس حقیقت کو کراچی اور اسلام آباد میں تفتیشی افسران نے تسلیم کیا۔
قانونی طور پر ایک ہی جرم کی دو مختلف ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتیں۔ اس قانون کا اطلاق پاکستان سمیت دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ ان کے ذریعے پاکستان کی سب سے بڑی آئی ٹی کمپنی کو محض ایک غیر ملکی خبر میں لگائے گئے الزامات کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ اور مصدقہ شواہد کی عدم موجودگی کے باوجود اسے اپنا کام بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔
کیس مہینوں تک چلتا رہا اور آخر کار سندھ ہائی کورٹ نے تمام ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا۔ لیکن فیصلہ سنانے کے تین گھنٹے بعد، جج نے لکھا کہ کیس کو ’’میرے سامنے نہیں لایا جانا چاہیے تھا۔‘‘ اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران نو بار ایسا ہی ہوا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی مقدمے میں نامزد تمام ملزمان کو بری کر دیا تھا تاہم، حکام نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ یہ اپیل فیصلے کے منظور ہونے کے 102 دن بعد دائر کی گئی، جب کہ قانونی طور پر فیصلے کے خلاف اپیل 30 سے 60 دن کے اندر دائر کی جانی چاہیے۔
اپیل میں حکام نے دعویٰ کیا کہ اس مقدمے سے منسلک ایک جج اور ایک آرمی بریگیڈیئر کو رشوت دی گئی تاکہ فیصلہ ایگزیکٹ اور بول گروپ کی انتظامیہ کے حق میں ہو۔ اس بہانے مقدمے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیج دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب یہ تازہ الزامات کی بنیاد پر کیا گیا تب کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی، جو کہ قانون کے تحت لازم ہے۔ اسی سلسلے میں، جب کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹس میں زیر التوا مقدمات میں سوموٹو ایکشن نہیں لے سکتی، پھر بھی ایک سوموٹو لیا گیا، جس کا مطلب ہے کہ اس مقدمے کی نچلی عدالت میں نمائندگی نہیں کی گئی۔ یہ ملزم کے آئینی حقوق سے انکار کے مترادف ہے کیونکہ اسے اپیل کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
تفتیشی افسر، جو اس مقدمے میں شکایت کنندہ بھی تھا، نے خود عدالت کے سامنے گواہی دی کہ ایگزیکٹ کا کاروبار قانونی تھا اور اس کے کام کرنے کے لیے تمام مطلوبہ لائسنس موجود تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ زیر بحث تمام رقم قانونی بینکنگ چینلز کے ذریعے ایگزیکٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل کی گئی۔ اس گواہی کو فرانزک برانچ کے سربراہ کی بھی حمایت حاصل تھی۔
ایسے شواہد کے پیش نظر، ایگزیکٹ کے خلاف مقدمے کو ختم کر دیا جانا چاہیے تھا، لیکن بظاہر سیاسی وجوہات کی بنا پر اور بول میڈیا گروپ کی آزاد آواز کو دبانے کی خاطر اسے دباؤ میں رکھنے کے لیے کیس کو چلایا جاتا رہا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News