
دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور قبائلی روابط کی وجہ سے افغانیوں کے ساتھ باوقار سلوک کو برقرار رکھنا ضروری ہے
پاکستان کے مختلف حصوں میں غیر قانونی یا غیر دستاویزی طور پر رہنے والے افغانیوں کے ساتھ حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں مبینہ بدسلوکی سے متعلق کچھ واقعات نے افغانستان میں منفی ردعمل کو جنم دیا ہے۔ اس تناظر میں، سندھ پولیس کی جانب سے گرفتار افغان باشندوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے بارے میں میڈیا میں پریشان کُن تصاویر پر انسانی حقوق کے گروپس کے ہنگامے نے افغانستان کی وزارت خارجہ کو اس طرح کے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کرنے پر مجبور کیا۔
بیان میں پاکستان سے افغانیوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ اب تک یہ الگ تھلگ واقعات ہیں اور کسی منظم مہم کا حصہ نہیں ہیں تاہم یہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی اور تشویش کے اہم مسائل کو حل کرنے کے طریقوں کے حوالے سے بڑھتی ہوئی خلیج کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ بات اجاگر کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی طرف سے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کو دونوں ممالک اپنے درمیان قریبی تعلق کی علامت سمجھتے ہیں۔
1970ء کی دہائی کے آخر میں افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے بعد افغان مہاجرین نے بڑی تعداد میں پاکستان آنا شروع کردیا۔ 1980ء کی دہائی کے دوران، جب افغان اپنے ملک کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ’جہاد‘ میں مصروف تھے، تب پاکستان تقریباً 50 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا تھا۔
گزشتہ چار دہائیوں کے دوران، پاکستان کی طرف سے افغانیوں کی مہمان نوازی مثالی رہی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے اور پروان چڑھنے والے افغان مہاجر کیمپوں تک محدود نہیں تھے بلکہ وہ پاکستانی قصبوں اور دیہاتوں میں رہتے تھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ان افغان مہاجرین نے پاکستانی اداروں میں تعلیم حاصل کی، پاکستانی اسپتالوں میں علاج کروایا اور اس وطن کے بیٹوں اور بیٹیوں کی طرح کاروبار اور روزگار کے مواقع سے فیض یاب ہوئے۔ عالمی برادری نے پاکستان کی فراخ دلانہ مہمان نوازی کو تسلیم کیا۔ افغان عوام اور تمام افغان حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں نے مہاجرین کے ساتھ باوقار سلوک پر سرکاری اجلاسوں کے علاوہ عوامی سطح پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس باوقار سلوک کی وجہ سے، افغانستان سے باہر افغانیوں کی سب سے زیادہ پسندیدہ منزل اب چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پاکستان ہے۔
بیشتر ممالک کے مقابلے میں، جو1951ء کے بین الاقوامی مہاجرین کنوینشن کے فریق ہیں لیکن افغان مہاجرین کو اپنی سرزمین پر لینے سے گریزاں ہیں، پاکستان نے کئی دہائیوں تک مہاجرین کے طور پر لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کی، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ 1951ء کے بین الاقوامی مہاجرین کنونشن کا فریق نہیں ہے۔یہاں یہ بات بھی اجاگر کرنا ضروری ہے کہ جہاں یو این ایچ سی آر اور بین الاقوامی ڈونر کمیونٹی نے پاکستان کو کچھ مالی امداد فراہم کی ہے وہیں افغان مہاجرین کے اخراجات کا بڑا حصہ ریاست کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام نے بھی برداشت کیا ہے۔
لیکن افغان تنازع کو جس طرح گھسیٹتا گیا، اس کی پیچیدگیاں اور مضمرات نہ صرف افغانیوں بلکہ اس کے قریبی پڑوسیوں بالخصوص پاکستان کے لیے بھی شدت اختیار کر گئے۔ مہاجرین کا بحران اُسی پیکج کا ایک حصہ ہے۔ سوویت یونین کے قبضے کے بعد سے دنیا کے دیگر حصوں میں رہنے والے افغانی توقع کررہے تھے کہ 2001ء میں افغانستان میں امریکی اور نیٹو کی مداخلت، جو قلیل مدتی ثابت ہوئی، کے بعد اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔افغانستان واپس جانے والے مہاجرین کا ایک حصہ بھی اپنے ملک میں دیرپا عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کی طرف نقل و حرکت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان پر سلامتی اور آبادیاتی دباؤ میں اضافہ ہوا، جسے خود ہی شدید معاشی مسائل کا سامنا تھا۔
طالبان کے 15 اگست کو افغانستان پر بر سر اقتدار آنے کے نتیجے میں جنگ زدہ ملک سے بڑے پیمانے پر انخلاء ہوا۔ یہ ابتدائی طور پر صورت حال کی غیر یقینی کی وجہ سے ہوا تھا۔ تاہم، یہ بے جا مداخلت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے افغان معیشت اور بینک کاری شعبے پر مکمل پابندیوں کے ذریعے کی گئی، جس کو بعد میں ان کے سیاسی مطالبات سے جوڑ دیا گیا، جس کے نتیجے میں عام افغانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔ افغان تارکین وطن کی نئی لہر کو ایڈجسٹ کرنے کے معاملے میں، امریکہ اور مغربی ممالک نے انتخاب کا طریقہ اپنایا، جس میں بنیادی طور پر ان افغانیوں کو نشانہ بنایا گیا جو گزشتہ دو دہائیوں سے اُن کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں کو امیگریشن کے طویل اور بوجھل عمل کا نشانہ بنایا گیا ہے جس میں تیسرے ممالک کے ذریعے مشکل ٹرانزٹ بھی شامل ہے۔
اس صورتحال میں بھی پاکستان اور ایران نے سب سے زیادہ افغان تارکین وطن کو قبول کیا۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں افغانیوں کے لیے آزادانہ ویزا پالیسی وضع کی۔ ایک حقیقت پسندانہ اندازے کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں تقریباً دس لاکھ سے زیادہ افغان شہری یا تو ویزا نظام یا سرحد پار کرکے غیر قانونی نقل و حرکت کے ذریعے پاکستان آئے ہیں۔ یہ افغانی، جن میں بیشتر غیر دستاویزی ہیں، پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں اور سندھ پولیس کے اقدامات اُن کی بڑھتی ہوئی تعداد کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
دونوں ممالک کے عوام سے عوام کے تعلقات کی تاریخ اور کئی دہائیوں سے لاکھوں افغانیوں کی میزبانی میں پاکستان کے نمایاں کردار کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے پیش نظر اُن مہاجرین کے قیام سے متعلق معاملات کو حل کیا جائے۔ حالات سے زیادہ مفاہمت کے ساتھ نمٹا جاتا ہے۔ افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی عملاً اُس وقت ہو گی جب وہاں پائیدار امن اور استحکام حاصل ہوگا۔ اس دوران، حکومت کو متعلقہ حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور طویل المدتی طریقہ کار وضع کرنا چاہیے۔ مندرجہ ذیل پیراگراف میں ہمارے متعلقہ اداروں پر غور کرنے کے لیے کچھ وسیع تجاویز ہیں۔
1) پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین اور دیگر افغانیوں سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے دو طرفہ سطح پر ریاستی بات چیت کی ضرور ہے۔افغان مہاجرین کے بارے میں دو طرفہ مذاکرات ترجیحی بنیادوں پر وزارتی سطح پر افغان مہاجرین کے چیف کمشنریٹ اور دیگر متعلقہ اداروں کے تعاون سے ہونے چاہئیں۔ اگر بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے افغان وزیر کو مدعو کرنا مشکل ہے تو پاکستان کے متعلقہ وزیر کے کابل کا دورہ کرنے اور مہاجرین کے مسائل پر گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
2) اگرچہ رجسٹرڈ مہاجرین کے پاس UNHCR کے تعاون سے جاری کردہ رہائشی کے تصدیقی ( پی آر سی ) کارڈز ہیں تاہم، یہ ضروری ہے کہ غیر رجسٹرڈ افغانیوں کا ڈیٹا بیس تیار کیا جائے۔ حالیہ برسوں میں غیر دستاویزی افغانوں کی رجسٹریشن کے لیے کچھ کام پہلے ہی کیا جا چکا ہے لیکن ڈیٹا بیس کو نادرا کی سرپرستی میں اپ ڈیٹ کرنا پڑے گا تاکہ پچھلے سال سے نئے افغانیوں کے داخلے کو پورا کیا جا سکے۔ پاکستان میں مقیم افغانیوں کی دستاویزی آبادی ان کے قیام کی شرائط کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر وطن واپسی کے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔ بات چیت کا فقدان ہمارے ناقدین بالخصوص بھارت کو ان خلاؤں سے فائدہ اٹھانے اور پاکستان افغانستان تعلقات کو نقصان پہنچانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
3) دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور قبائلی روابط کی وجہ سے افغانیوں کے ساتھ باوقار سلوک کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ افغان قوم مشکل وقت سے گزر رہی ہے، جو اُمید ہے کہ مستقبل میں نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں امن، استحکام اور ترقی پر منتج ہوگا۔ عوام سے عوام کے تعلقات اور مشترکہ جغرافیہ دونوں ممالک کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند انداز میں وسطی ایشیائی اور یوریشین خطوں کے ساتھ علاقائی روابط کی بنیادیں فراہم کرے گا۔ اس طرح کے مسائل پر ایک دوسرے کے بارے میں منفی خیالات مشترکہ اقتصادی خوشحالی کے امکانات کو نقصان پہنچائیں گے۔
4) پاکستان چار دہائیوں سے افغان مہاجرین اور غیر رجسٹرڈ افغانیوں کا سب سے بڑا وصول کنندہ رہا ہے، اسلام آباد نے ابھی تک مختلف شعبوں میں افغانیوں کی سرمایہ کاری کے لیے کوئی فریم ورک نہیں بنایا ہے۔ افغانستان سے کافی دور بہت سے ممالک، جیسے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکیہ نے افغانیوں کی طرف سے خاص طور پر ریئل اسٹیٹ اور معیشت کے کئی دیگر شعبوں میں کافی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان خوشحال افغانیوں کی سرمایہ کاری کے لیے ایک عملی پالیسی بنائے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو اس فریم ورک کا حصہ ہونا چاہیے۔
آخر میں، مہاجرین کا مسئلہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات کی ایک اہم جہت ہے۔ پاکستان میں افغانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے الگ تھلگ واقعات پر توجہ دینے یا ان سے نمٹنے کے لیے جامع اور طویل المدتی پالیسی بنانے میں لاپرواہی ہمارے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ایسے معاملات پر دو طرفہ تعلقات کی نگرانی کرنے والے متعلقہ حکام کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News