Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

بول نیوز اپنی اُصولی اور اخلاقی صحافت کے باعث پھر عتاب کا شکار

Now Reading:

بول نیوز اپنی اُصولی اور اخلاقی صحافت کے باعث پھر عتاب کا شکار

پاکستان کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل، بول نیوز اپنی اُصولی اور اخلاقی صحافت کے لیے حکومتی عتاب کی زد میں ہے اور اپنے کچھ سرکردہ اینکر پرسنز کو برطرف کرنے سے انکار کر رہا ہے جو مُتنازع شہباز شریف حکومت کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی مہم کو منصفانہ کوریج دے رہے ہیں۔

عمران خان کی جانب سے بے نقاب ہونے والی گھناؤنی سازش کی رپورٹنگ سے لے کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اُجاگر کرنے اور کچھ سرکردہ سیاست دانوں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے تک، بول نیوز پاکستانی ناظرین کو ملک میں جاری سیاسی بحران کی بروقت، حقائق پر مبنی اور معروضی کوریج فراہم کرنے میں سب سے آگے رہا ہے۔

نتیجتاً پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کی قیادت میں حکومت نے ایک طرف بول نیوز کے خلاف پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) کو میدان میں اُتار دیا ہے، اور دوسری جانب اس کی انتظامیہ پر عملے کے کچھ ارکان کو برطرف کرنے کے لیے خفیہ دباؤ ڈالا ہے۔

حکومت کا واضح مقصد چینل کو نہ صرف اپوزیشن کو کم کوریج دینے پر مجبور کرنا ہے بلکہ اسے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کی قیادت کے خلاف اپنی لغو پراپیگنڈہ مہم کا حصہ بنانا بھی ہے۔ ادارے پر معروف اینکر پرسن اور اس کے منیجنگ ڈائریکٹر سمیع ابراہیم اور اینکر پرسن جمیل فاروقی کو برطرف کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

جب کہ ان دونوں اینکرز کے خلاف مقدمات درج کیے گئے، اینکر جمیل فاروقی کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور انہیں برہنہ کر کے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن بول نیوز نے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا ہے اور اپنی ٹیم کے ارکان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس نے ایک عوامی بیان جاری کیا ہے کہ انتظامیہ بیرونی دباؤ پر اپنی ٹیم کے کسی رکن کو کبھی نہیں چھوڑے گی۔

Advertisement

پیمرا نے پاکستان بھر میں متعدد بار کیبل پر بول نیوز کی نشریات کو غیر قانونی طور پر بند کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ اکثر اوقات چینل کو پورے ملک میں مکمل طور پر بند کر دیا گیا اور دیگر اوقات میں یہ جزوی طور پر بند ہوتا تھا۔ پیمرا نے اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کیبل آپریٹرز کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے بول نیوز کو بند کرنے پر مجبور کیا۔ پھر پیمرا بالکل ہی آپے سے باہر ہو گیا اور بول نیوز اور بول انٹرٹینمنٹ دونوں چینلز کے لائسنس غیر قانونی طور پر منسوخ کر دیے۔ تاہم پاکستان کی آزاد عدلیہ کی بدولت وہ بول نیوز کی نشریات کو زیادہ دیر تک معطل رکھنے میں ناکام رہا۔

اِس پُرتشدد مہم نے بول نیوز کو متعدد طرح سے نقصان پہنچایا جس میں اس کے سینکڑوں ملازمین میں غیر یقینی اور خوف کا احساس پیدا کرنا بھی شامل ہے، جن میں پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے چند بہترین افراد شامل ہیں۔

پیمرا کے علاوہ سرکاری حکام نے بھی دباؤ کے ڈھکے چھُپے حربے استعمال کیے۔ متعدد مواقع پر چینل کے اینکرز کو دھمکیاں دی گئیں جب کہ کراچی اور اسلام آباد میں بول نیوز کے دفاتر کے باہر نامعلوم افراد کے ساتھ پُراسرار گاڑیاں بار بار دکھائی دیں۔

بول نیوز پر دباؤ بڑھتا گیا کیونکہ دیگر ذرائع ابلاغ نے حکومتی دباؤ کے پیشِ نظر اُس کی پراپیگنڈہ لائن پر عمل کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے جھُکنا شروع کر دیا۔ تاہم، بول نیوز نے اپنے کردار اور اُصولی صحافت سے وابستگی کا مظاہرہ کیا اور ان دھمکیوں اور دباؤ کے سامنے جھُکنے سے انکار کر دیا۔

بول میڈیا گروپ اس تمام بحران میں صحافی برادری اور اختلافی آوازوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ مثال کے طور پر جب معروف اینکر پرسن عمران ریاض خان کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو بول نیوز نے اُن کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس چینل کے لیے وہ کام کر رہے تھے اُس کے دروازے اُن پر بند کر دیے گئے لیکن بول نیوز نے تمام تر تنبیہات اور دباؤ کے باوجود آگے بڑھ کر انہیں بول فیملی کا حصہ بنایا۔

اسی طرح جب ایک متحرّک اور ممتاز نوجوان صحافی صدیق جان کو بول نیوز کا حصہ بنایا جا رہا تھا تو مطالبہ کیا گیا کہ انتظامیہ ایسا کرنے سے باز رہے لیکن بول نیوز انتظامیہ صحافی کے ساتھ کھڑی رہی۔

Advertisement

اس کی سب سے بڑی مثال ارشد شریف کیس ہے۔ پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافی ارشد شریف ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سنگین دھمکیاں ملنے کے بعد ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اس آزمائش کی گھڑی میں بول میڈیا گروپ آگے آیا اور اُنہیں ملازمت کی پیشکش کی جسے اُنہوں نے قبول کر لیا۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ارشد شریف کا منصوبہ تھا کہ وہ حالات بہتر ہونے اور پاکستان واپس آنے کے بعد بول نیوز کی اسکرین پر نمودار ہوں گے۔ تاہم اُنہیں کینیا کے ایک دور اُفتادہ علاقے میں پراسرار حالات میں شہید کر دیا گیا۔ ایک بار پھر بول نیوز نے اس بہیمانہ قتل اور اس کے بعد کے واقعات کو لمحہ بہ لمحہ کوریج دی اور اس انتہائی تکلیف دہ وقت میں مقتول کے خاندان کے ساتھ کھڑا رہا۔

اور صرف یہی نہیں، کچھ اور صحافیوں کو جنہیں حکومتی دباؤ کے باعث ٹیلی ویژن اسکرینوں پر پابندی کا سامنا تھا، بول نیوز نے انہیں اسکرین ٹائم فراہم کیا۔ ممتاز صحافی صابر شاکر بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں۔ دھمکیاں ملنے کے بعد انہیں پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا لیکن بول نیوز نے تمام دباؤ کو مُسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے پرائم ٹائم شوز میں متعدد مواقع پر اسکرین ٹائم دیا۔

بول نیوز کو اس تمام دباؤ اور مہم کا سامنا محض اس لیے کرنا پڑا کہ اس نے پاکستان اور اس کے عوام کے لیے ایک مؤقف اختیار کیا۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے حکومتی دباؤ کے سامنے جھُکنے سے انکار کر دیا اور عمران خان، ان کے جلسوں کے سلسلے، ان کے ’’حقیقی آزادی مارچ‘‘ نیز سائفر اسکینڈل کو بھرپور کوریج دی۔ بول نیوز اُن میڈیا ہاؤسز میں بھی شامل نہیں ہوا جنہوں نے عمران خان کے خلاف منظم پراپیگنڈہ مہم چلائی۔ ان میڈیا ہاؤسز میں جنگ – جیو گروپ جیسے چند جانے پہچانے نام شامل تھے، جن کی پاک فوج اور دیگر حساس اداروں کے خلاف غلیظ مہم چلانے کی تاریخ موجود ہے۔

پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت لمحہ بہ لمحہ عمران خان کی سرگرمیوں کی خبریں دیکھنا چاہتی تھی۔ اور بول نیوز نے انہیں اپنے چینل اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے سب سے پہلے خبریں پہنچا کر سب سے زیادہ باخبر رہنے کا موقع فراہم کیا۔ عمران خان پر قاتلانہ حملہ ایک ایسا ہی اہم واقعہ تھا جسے بول نیوز نے اس طرح کور کیا جس طرح اسے کور کرنا چاہیے تھا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی پاکستانی تارکینِ وطن موجود ہیں، بول نیوز پاکستانی میڈیا کا نمبر ایک برانڈ بن گیا، جس پر ناظرین نے بھروسہ کیا اور اسے پسند کیا۔

جب شہباز حکومت نے بعض سرکردہ سیاستدانوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا تو بول نیوز نے ایک بار پھر تفصیلی کوریج کے ساتھ اپنی پہچان بنائی۔ سینیٹر اعظم سواتی اور شہباز گل کے کیس اس کوریج کی نمایاں مثال ہیں۔ جہاں دیگر تمام چینلز نے ان سیاستدانوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور تشدد کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی، وہیں بول نیوز نے ان کے معاملے کو سب سے پہلے رکھا۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بول میڈیا گروپ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے تحت عتاب کی زد میں ہے۔ 2015ء میں بول نیوز کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے میڈیا کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس کی انتظامیہ کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے دوست میڈیا اور غیرملکی شراکت داروں کو بول میڈیا گروپ کو دبانے کے لیے مجبور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود یہ اپنے چینلز اور پرنٹ میڈیا کو شروع کرنے میں کامیاب رہا۔ جیسا کہ بول گروپ مضبوط سے مضبوط تر کی جانب بڑھ رہا ہے، مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر اس پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ جب بھی اقتدار میں آتی ہے آزاد میڈیا اور اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتی ہے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان تمام مواقع پر مسلم لیگ (ن) تنقیدی میڈیا کو مٹانے کے اپنے منصوبوں میں ناکام رہی۔

Advertisement

بول نیوز اپنی بیان کردہ پالیسی کے مطابق پاکستان کی آزاد میڈیا آواز کے طور پر جاری رہے گا اور اپنے ناظرین کو بروقت، مُنصفانہ اور معروضی خبریں اور اطلاعات فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ یہ بول نیوز کا خود سے، اپنی ٹیم کے اراکین سے، تمام پاکستانیوں سے اور اِس ملک سے عہد ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
27 ویں آئینی ترمیم پیر کو پارلیمنٹ میں پیش کی جا رہی ہے ، کامران مرتضیٰ
بھارت پینترے بازی سے باز نہ آیا ، افغانستان کو دریا پر ڈیم کی تعمیر کا نیا جھانسہ
جنسی اسکینڈل پر کارروائی ، برطانوی شہرادہ اینڈریو شاہی لقب سے محروم ، محل چھوڑنے کا حکم
ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرینز جمع کرانے کی مہم میں تاریخی اضافہ
سود کی شرح اور ایکسچینج ریٹ کی تبدیلی سے قرض کا بوجھ بڑھنے کا خدشہ، رپورٹ
آذربائیجان ٹورازم بورڈ کا کامیاب روڈ شو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوگیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر