
عمران خان کا لانگ مارچ ’شاید‘، ’کیا کرنا چاہیے‘، اور ’اگر ایسا ہو‘ جیسے الفاظ میں الجھا ہوا ہے اور اس صورتحال پر حکومتی ردعمل بھی کچھ خاص مختلف نہیں
گزشتہ چھ ماہ کے دوران، 71 سال عمر ہونے کے باوجود، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قابل رشک توانائی کا مظاہرہ کیا اور ملک بھر میں 60 سے زائد عوامی اجتماعات کیے۔ اس کے علاوہ ٹیلی ویژن چینلز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو درجنوں انٹرویوز دیے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بیانیے کو نچلی سطح تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ عمران خان کی اپنے حامیوں کو متحرک رکھنے کی حکمت عملی ان کے لیے متعدد فوائد کی حامل ہے۔ ٹیلی ویژن چینلز پر ان کے براہ راست خطابات نشر کرنے پر پابندی کے باوجود، وہ سوشل میڈیا کی بدولت توجہ کا مرکز رہتے ہیں جس کا اثر تصور سے کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں انہوں نے اپوزیشن کی مشترکہ جماعتوں کے امیدواروں کے مقابلے میں آٹھ میں سے سات قومی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اگرچہ ان کے ووٹر اس حقیقت سے پوری طرح واقف تھے کہ ان کامیابیوں کے باوجود عمران خان پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہوں گے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے موجودہ حکومت اور پورے انتظامی سیٹ اپ کے خلاف اپنا احتجاج رکارڈ کرایا اور حکومت کی تبدیلی کی مشق کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان کے بیانیے پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔
27 اکتوبر کو شروع ہونے والے لانگ مارچ میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے لاہور سے راولپنڈی جانے کے لیے جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار کیا ہے، جو اب تک مسلم لیگ (ن) کا گڑھ رہا ہے۔ راستے میں آنے والے ہر شہر میں عمران خان کا استقبال کرنے اور خوش آمدید کہنے کے لیے آنے والے ہجوم کو دیکھ کر یہ واضح ہے کہ انہوں نے شریفوں کے حلقے کے دل میں، خاص طور پر نوجوانوں پر مشتمل ایک بڑی تعداد کو اکٹھا کر لیا ہے۔ اپریل میں میاں محمد شہباز شریف کے بطور وزیر اعظم پاکستان عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وسطی پنجاب کے صنعتی علاقوں میں قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے اور فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے بہت سے روایتی حامی اپنی سابقہ جماعت سے بیزار ہیں۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے خود ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعتراف کیا کہ عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کاروبار بند ہونے پر حکومت سے ناراض ہیں۔ عمران خان کی اسلام آباد کی جانب پیش قدمی اور مسلم لیگ (ن) کی کم ہوتی ہوئی عوامی مقبولیت کو محسوس کرتے ہوئے، وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں کچھ فوری عوامی بہبود کے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا، ان میں کسانوں کے لیے کئی مالی فوائد کا اعلان، جس میں چار سو ارب روپے کے اضافی قرضے اور ٹیوب ویل اور کھاد کے لیے بجلی کی قیمت میں کچھ ریلیف شامل ہیں۔
عمران خان کا اپنے لانگ مارچ کو شروع کرنے کا بیان کردہ مقصد حکومت کو فوری انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ تاہم، مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اسے ایک نیا موڑ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کا مقصد ’انقلاب‘ نہیں بلکہ اپنے ہی نامزد کردہ شخص کو اگلا آرمی چیف مقرر کرنا ہے۔ گزشتہ ہفتے مریم نواز نے بھی اسی خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان دراصل آرمی چیف کی تقرری کے عمل میں خلل اور تاخیر چاہتے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے اپنے حامیوں کو متحرک کرنے سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوا ہے جس میں 30 نومبر کو عہدہ سنبھالنے والے چیف آف آرمی اسٹاف ممکنہ طور پر اپنے پیش رو سے وراثت میں ملنے والے موجودہ حالات میں تبدیلی لا کر ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانا چاہیں گے۔ اور ضروری نہیں کہ ایسا کرنے کے لیے وہ کس قسم کی طاقت کا استعمال کریں، امکان یہی ہے کہ وہ دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے اور ملک کو مسلسل عدم استحکام سے نکالنے کا راستہ تیار کرنے کے لیے کوئی ذریعہ تلاش کرنا پسند کریں گے۔
کینیا میں صحافی ارشد شریف کے قتل نے مقتدرہ کے لیے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس نے بعض اداروں کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ماورائے آئین ذرائع استعمال کرنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ امریکی انتظامیہ (جس کے پاکستان کے اندرونی معاملات میں اثر و رسوخ سے انکار ممکن نہیں) امریکی صدر جو بائیڈن کی قواعد پر مبنی آرڈر کی پالیسی کے پیش نظر ایسے اقدامات کی حمایت کرے گی۔ لیکن ایک بڑھتا ہوا احساس یہ بھی ہے کہ عمران خان کی نظر آنے والی مقبولیت نے بیرونی دنیا کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ عمران خان وہ شخص ہے جو اس ملک کے لوگوں کی صحیح معنوں میں نمائندگی کرتا ہے اور اسے مصروف رکھے جانے کی ضرورت ہے۔
جیسے جیسے پی ٹی آئی کا احتجاجی کارواں آگے بڑھ رہا ہے عمران خان کا لہجہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اہم عہدوں پر فائز دو افسران کا نام لے کر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے، ان پر تشدد کرنے اور انہیں دھمکیاں دینے میں ملوث ہیں۔ تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بیک وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات بھی پس منظر میں جاری ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ عمران خان نے اپنے احتجاجی مارچ کی رفتار کو کم کر دیا ہے اور اس کی اسلام آباد آمد میں ایک ہفتے کی تاخیر کر دی ہے تاکہ مارچ کرنے والوں کے وفاقی دارالحکومت پہنچنے سے پہلے متعلقہ ثالث اتفاق رائے حاصل کر سکیں۔ یہ بات مسلم لیگ (ن) کو بے چین کر رہی ہے، مسلم لیگ (ن) کے حامی اب کھل کر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ عمران خان کا حمایتی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کی مشترکہ نیوز کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے، پی ایم ایل این کے حامی تجزیہ کار نجم سیٹھی نے کہا کہ اس نیوز کانفرنس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کے حامیوں کو اعلی قیادت کی نیت کے حوالے سے واضح پیغام دینا تھا۔ سینئر صحافی محمد مالک نے اس نقطہ نظر کی تصدیق کی اور ایک انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے کہا، ’’ایک فوجی افسر نے مجھے بتایا کہ پریسر کا مقصد اعلی قیادت کی پالیسی کے بارے میں ہر قسم کے ابہام کو ختم کرنا تھا۔‘‘ دریں اثنا، مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قبل از وقت عام انتخابات کے لیے عمران خان کے مطالبے کو تسلیم نہ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے انہیں ایک پیغام بھیجا جس میں دو معاملات پر بات چیت کا کہا گیا، (الف) ان کی مشاورت سے نئے آرمی چیف کی تقرری۔ (ب) قبل از وقت انتخابات کی تاریخ۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ انہوں نے آرمی چیف کی تقرری پر مشاورت کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے لیکن وہ انتخابات کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
چند روز قبل حکمران مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے چند وفاقی وزراء جن میں رانا ثناء اللہ اور تنویر حسین شامل ہیں، نے عوامی بیانات دیتے ہوئے عمران خان کو حکومت سے مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ اس کے بعد یہ بات ہوئی کہ فریقین کے نمائندوں نے خفیہ طور پر ملاقاتیں کیں اور بات چیت کی لیکن یہ مذاکرات ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد دونوں فریقوں نے اپنی پوزیشنیں سخت کر دیں۔ اب پوری دنیا میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اگر حکومت جھکتی ہے تو اس سے کمزوری کا تاثر پیدا ہو گا اور اگر عمران خان حکومت سے بات کرتے نظر آئیں گے تو ان کے حامیوں کا جوش اور ولولہ کم ہو جائے گا جس سے ان کے احتجاجی منصوبوں کو نقصان پہنچے گا۔
تاہم، نواز شریف نے عمران خان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ایک حالیہ بیان میں نواز شریف نے اپنے بھائی وزیر اعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ عمران خان کا کوئی بھی مطالبہ نہ مانیں۔ انہوں نے اپنے بھائی سے کہا ہے کہ وہ عمران خان کو اپنا لانگ مارچ ختم کرنے کا کوئی موقع بھی نہ دیں۔ نواز شریف کا سخت موقف محض ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ ایک طرف این کی جانب سے ایسی سخت ہدایات جاری ہوئیں اور دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی تا کہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔ تاہم عمران خان نے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ صرف ان کے ’ہینڈلرز‘ سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے خوش آئند ہے۔
اسلام آباد میں ایک بار پی ٹی آئی سربراہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔ اگر دونوں فریق ایک میز پر بیٹھتے ہیں تو دونوں کو اپنے اپنے موقف میں لچک دکھانا ہوگی۔ عام انتخابات اگلے سال مارچ یا نومبر میں ہونے سے عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ووٹر اپنی وفاداریاں اتنی جلدی نہیں بدل لیتے۔ وہ موجودہ موقع کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کو انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے استعمال کے اپنے دیرینہ مطالبے پر راضی کر سکتے ہیں اور سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
حکومتی اتحاد نے موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے کہ ان کا اقتدار اگلے سال اگست تک جاری رہے گا۔ کچھ اتحادی رہنما جیسے کہ مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کہ حکومت آئین کی ہنگامی شق کو استعمال کرتے ہوئے مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کرے۔ حکومتی جماعتوں کا خیال ہے کہ وہ عمران خان کو ’سنبھال‘ سکتے ہیں اور ان کے حق میں موجودہ مقبولیت کی لہر کو دبا سکتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے بااثر مقامی نامور لوگوں کو عمران خان کی انتخابی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگلے وفاقی بجٹ میں حکمران اتحاد کے پاس سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کی گئی پاپولسٹ اسکیموں پر بے دریغ خرچ کرنے کی گنجائش ہوگی، اس طرح انہیں عوامی حمایت حاصل ہوجائے گی۔ ریاستی اداروں میں عمران خان کی ساکھ کو داغدار کرنے کے لیے پہلے ہی ایک پروپیگنڈہ مہم چلائی جا چکی ہے اور عمران خان کو ایک انتشار پسند کہا جا رہا ہے جو ریاست بالخصوص پاک فوج کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان کے لانگ مارچ کا نتیجہ بڑی حد تک اسلام آباد یا اس کے ارد گرد جمع ہونے والے ہجوم کی طاقت اور دھرنے کی مدت پر منحصر ہے۔ حکومت نے مظاہرین کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے مختلف سکیورٹی فورسز کی ایک مضبوط نفری تعینات کر دی ہے، لیکن مظاہرین داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر سکتے ہیں اور دارالحکومت کا محاصرہ کر سکتے ہیں جس سے عام زندگی مفلوج ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ دھرنا جڑواں شہر راولپنڈی میں دیا جائے جہاں فوجی ہیڈ کوارٹر واقع ہے۔ تاہم، اگر مظاہرین کی تعداد بہت زیادہ کم، مثلاً چند ہزار کے لگ بھگ رہتی ہے تو وفاقی حکومت کو کوئی فکر نہیں ہوگی اور اتنی کم تعداد کو آسانی سے منتشر کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں عمران خان صاحب شاید چند دنوں کے دھرنے کے بعد احتجاج ختم کر دیں گے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News