
جماعت اسلامی کی جانب سے دائر کردہ ریفرنس کے جواب میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے الیکشن کمیشن کے سامنے مشترکہ مؤقف پیش
کراچی
سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور اس کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) کی جانب سے دائر ریفرنس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سامنے مشترکہ موقف پیش کرنے کی توقع ہے۔ریفرنس میں جماعت اسلامی (جے آئی) نے بلدیاتی انتخابات بلاتاخیر کرانے کی درخواست کی ہے۔
سماعت 9 نومبر کو ہونی تھی، تاہم،وفاقی حکومت نے یوم اقبال پر عام تعطیل کا اعلان کردیا، لہٰذا اب سماعت 15 نومبر کو کراچی میں ای سی پی کے صوبائی ہیڈ کوارٹر میں مقرر کی گئی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے تشویش کا اظہار کیا کہ بلدیاتی انتخابات مستقبل قریب میں نہیں ہوں گے کیونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پی اپنی ممکنہ شکست کے خوف سے ان کے انعقاد سے گریز کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹر کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہونا چاہیے۔ غیر قانونی طور پر تعینات کیے گئے ایڈمنسٹریٹر نے شہر کی سڑکوں کے پیچ ورک کے لیے 15 ارب روپے مختص کرنے کا دعویٰ کیا، لیکن لگتا ہے کہ اس رقم کا صرف ایک حصہ ہی خرچ ہو گا۔ بدعنوان حکومت اب جتنی لوٹ مار کر سکتی ہے، کررہی ہے، کیونکہ اسے نظر آرہا ہے کہ اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔
ایم کیو ایم پی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے حال ہی میں ایک تقریب میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلدیاتی انتخابات جلد از جلد کرانے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن انہیں مردم شماری کے نئے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ اگر حلقہ بندیوں کا عمل نہ کیا گیا تو انتخابات بے معنی ہو ں گے۔
ایم کیو ایم پی کے رہنما وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سینئر سید امین الحق نے کہا کہ وزارت نے سروے ڈیپارٹمنٹ کو 1لاکھ 20 ہزار ٹیبلٹس درآمد کر کے فراہم کیے ہیں تاکہ مردم شماری وقت پر مکمل کی جاسکے، اور اب اسے مکمل ہونے میں تقریباً چار ماہ لگیں گے۔
دریں اثنا، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جماعت اسلامی کے ریفرنس کی سماعت سے قبل پی پی پی اور ایم کیو ایم-پی کے رہنماؤں نے ایک حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ملاقات کی، جیساکہ دونوں جماعتیں صوبے میں قریبی ورکنگ ریلیشن شپ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے وفد کی قیادت وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کی جب کہ ایم کیو ایم پاکستان کے وفد کی قیادت خالد مقبول صدیقی نے کی۔ اجلاس میں ایم کیو ایم پاکستان کی نمائندگی گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کی۔
ایم کیو ایم پی کے ڈپٹی کنوینر اور ترجمان خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم نے اصولی طور پر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایم کیو ایم پی کی سفارشات پر کراچی میں بہت جلد نئے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کیا جائے گا۔
بعد ازاں صوبائی وزیر سعید غنی نے اظہار الحسن کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین نے تمام زیر التوا معاملات کو حل کر لیا ہے۔جب ایم کیو ایم پی پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے والی تھی ،اس وقت دستخط کیے گئے ایک معاہدے چارٹر آف رائٹس کا حوالہ دیتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ پی پی پی اپنے وعدوں پر قائم رہے گی کیونکہ دونوں جماعتیں مثبت نوٹ پر آگے بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے متعدد سیشنز ہوئے اور ایم کیو ایم پی نے ہمیشہ اپنے مطالبات پر زور دیا، جن کا معاہدے میں ذکر کیا گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پی پی پی کے اتحادی شراکت دار کے طور پر سندھ حکومت میں شامل ہونے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں نئے ایڈمنسٹریٹر کی تقرری کے ساتھ ساتھ دیگر مطالبات کی تکمیل سے ایم کیو ایم(پی)، پی پی پی کے اتحادی کے طور پر سندھ حکومت میں شامل ہونے اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے پیش کردہ قلمدان قبول کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق میئر کو مزید اختیارات دینے کے لیے صوبائی لوکل گورنمنٹ قانون میں کی جانے والی تبدیلیوں پر بھی غور کیا گیا۔ دونوں جماعتوں نے کہا کہ مذاکرات جاری ہیں اور وہ کئی نکات پر متفق ہو چکے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ سندھ کابینہ نے حال ہی میں اپنے اجلاس میں سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ (SLGA 2013) میں ترمیم کے لیے ایک آرڈیننس کے ذریعے کراچی کے آئندہ میئر کو مزید اختیارات دینے کی سمری کی منظوری دی تھی۔ سمری کے مطابق آئندہ میئر واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (KWSB)، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (KDA) اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (SWMB) جیسے بڑے شہری اداروں کے چیئرمین ہوں گے۔ یہ ایم کیو ایم (پی) کے اہم ترین مطالبات میں سے ایک تھا، جسے حکومت نے پورا کیا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ دونوں جماعتوں نے حلقہ بندیوں کے معاملے پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں حد بندی کے لیے ایک فارمولے پر اتفاق کیا گیا ہے جہاں تمام یونین کونسلوں کو آبادی کی بنیاد پر یکساں طور پر تقسیم کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر ملیر کی ایک یونین کونسل کی آبادی 10ہزار افراد پر مشتمل ہے جب کہ ناظم آباد کی ایک اور یوسی کی آبادی 55ہزارہے۔ اس طرح یہ فرق ختم ہو جائے گا۔
مزید برآں، شہری علاقوں میں تمام یونین کونسلوں کی آبادی تقریباً مساوی ہوگی، اس لیے کسی بھی یوسی کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک نہیں کیا جائے گا۔آئندہ بلدیاتی انتخابات نئی حد بندی کے تحت ہوں گے اور دونوں جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بھی کہا جائے گا کہ وہ نئی حد بندی کے تحت بلدیاتی انتخابات کرائیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News