
پنجاب کے بعد سندھ نے بھی پانی پر آمدن کی موثر وصولی کے لیے ای بلنگ متعارف کرانے کے منصوبے شروع کردیے
سندھ پنجاب کے بعد ای-آبیانہ کا تصور متعارف کرانے والا دوسرا صوبہ بن گیا ہے جس نے زراعت کے پانی کے استعمال کے اعداد و شمار کو ڈیجیٹلائز کرکے الیکٹرانک بلنگ کے ذریعے کسانوں سے آب پاشی کی آمدنی کی وصولی کی۔
سندھ ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (سیڈا) کے چیئرمین عبدالباسط سومرو نے بول نیوز کو بتایا کہ صوبہ سندھ کے 14 میں سے چار نہری نظاموں کے ڈیٹا کی ڈیجیٹائزیشن کا کام اگلے چھ ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔
سسٹم سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے عبدالباسط سومرو کا کہنا تھا کہ ایک بار ڈیجیٹائزیشن ہوجانے کے بعد سیڈا کے اہلکار سیٹلائٹ امیجز کے ذریعے کھیتی والی زمینوں کا جائزہ لیں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کن زمینوں پر کون سی فصل کاشت کی گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں اُنہیں مختلف کسانوں کے لیے پانی کے چارجز کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔
ہر فصل کے پانی کے چارجز مختلف ہوتے ہیں اور اس کا تعین اس بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ مختلف فصلوں کو کتنے پانی کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر گنے کی فصل کے لیے موجودہ چارجز 181روپے 87 پیسے فی ایکڑ مقرر کیے گئے ہیں جب کہ کپاس کے لیے فی ایکڑ چارجز 93ا روپے 9 پیسے، اسی طرح چاول کے لیے 88روپے 78 پیسے اور گندم اور چارے کے لیے 53 روپے 3 پیسے مقرر کیے گئے ہیں۔
عبدالباسط سومرو نے کہا کہ ایک بار ڈیٹا بیس کے ڈیجیٹل ہونے کے بعد کسانوں کو ای بلنگ شروع ہو جائے گی۔ کاشتکاروں کے ساتھ بلز کا اشتراک ایس ایم ایس کے ذریعے ہوگا اور ایزی پیسہ سروس یا بینک برانچ کے ذریعے سیڈا اکاؤنٹ میں ادائیگیاں بھی قابل قبول ہوں گی۔
ای بلنگ کا نظام آبپاشی کی آمدنی کی مکمل وصولی کو یقینی بنائے گا، جو اس وقت نصف ہے اور اس کے نتیجے میں متضاد دعووں سے پیدا ہونے والے تنازعات کا بھی خاتمہ ہو جائے گا کہ زمین کے کس مخصوص ٹکڑے پر فصل کاشت کی گئی تھی یا نہیں اور یہ کون سی فصل تھی۔
موجودہ نظام کے تحت درپیش مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے سیڈا کے ایک اور سینئر حکام حزب اللہ منگریو نے بول نیوز کو بتایا کہ کم درجے کے محصولات جمع کرنے والے، جنہیں مقامی طور پر آب دار کہا جاتا ہے، ایک غیر رسمی پرچی (کاغذی پرچی) کے نظام کے ذریعے زمینداروں سے واٹر چارجز وصول کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، “آب دار اپنی حدود میں آنے والی زمینوں کا فزیکل دورہ کر کے ریکارڈ جمع کرتے ہیں۔ محصولات اکٹھا کرنا ایک مشکل کام ہے کیوں کہ زمیندار اپنے پانی کے بل مکمل بل ادا کرنے میں ہچکچاتے ہیں اور کئی عذر پیش کرتے ہیں، جیسے کہ انہیں فصل کی خرابی کی وجہ سے نقصان ہوا یا یہ کہ آب دار کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فصل کم اراضی پر بوئی گئی تھی۔
سندھ میں فصلوں کے دو موسم خریف اور ربی ہوتے ہیں جب کہ دونوں فریقین کے متضاد دعوؤں سے پیدا ہونے والے اختلافات اور الجھنوں کی وجہ سے اکثر محصولات اہداف سے بہت کم رہ جاتے ہیں جو سرکاری بدعنوانی کو جنم دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ای بلنگ سسٹم لاگو کیا جاتا ہے تو اس سے سرکاری طریقوں کو فائدہ پہنچے گا اور پورے زرعی نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
سیڈا کے چیئرمین عبدالباسط سومرو نے کہا کہ فروری 2021ء میں پنجاب میں واٹر چارجز کی ای بلنگ شروع ہوئی۔ جس کے بعد سیڈا کی ایک ٹیم نے معلومات حاصل کرنے اور نظام کو سمجھنے کے لیے پنجاب کے محکمہ آب پاشی سے رابطہ کیا ہے جس میں انہوں نے ہماری رہنمائی اور مدد کرنے میں بہت تعاون کیا۔
صوبہ پنجاب نے پہلے مرحلے میں انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم (آئی بی آئی ایس) کے تحت اپنے 22 کینال ڈویژنوں میں سے چار یعنی خانیوال، لیہ، شیخوپورہ اور قصور کا ریکارڈ ڈیجیٹائز کیا۔
اسی طرح سندھ میں بھی سیڈا نے بھی انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم (آئی بی آئی ایس) کے تحت اپنے 14 کینال ڈویژنوں میں سے 4 کی ڈیجیٹائزیشن کے ساتھ آغاز کیا۔ جو تین واٹر بورڈز چلائے جارہے ہیں ان میں گھوٹکی فیڈر کینال ایریا واٹر بورڈ، نارا کینال ایریا واٹر بورڈ اور لیفٹ بینک کینال ایریا واٹر بورڈ شامل ہیں۔ یہ تینوں بورڈز مل کر 50 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے 1998ء میں انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم کے تحت تمام 45 نہری نظاموں کے انتظام کے لیے ایک صوبائی ایریگیشن اینڈ ڈرینج اتھارٹی (PIDA) قائم کی تھی۔ اس کے بعد 2002ء میں صوبہ سندھ میں سندھ واٹر مینجمنٹ آرڈیننس (SWMO) کے تحت سیڈا کو بنایا گیا۔
ابتدائی طور پر صوبے کے 14 میں سے 4 نہری نظام سیڈا کے حوالے کیے گئے جب کہ باقی 10 نہروں کو جون 2005ء تک اس کے دائرہ کار میں لایا جانا تھا لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا اور وہ نہریں اب بھی محکمہ آبپاشی سندھ کے زیر انتظام ہیں۔
عبدالباسط سومرو نے کہا کہ جب وہ ڈیجیٹلائزیشن کے جاری عمل کے ساتھ سیڈا کو خود کفیل بنانے کے قابل ہو جائیں گے تو وہ باقی ماندہ نہری نظاموں کو اس کے دائرہ کار میں لانے پر کام شروع کر دیں گے۔ اس دوران محکمہ آبپاشی سندھ، سیڈا کے تجرباتی ماڈل کا استعمال کر سکتا ہے تاکہ آب پاشی کے محصولات کی وصولی میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا، ” صوبائی حکومت پر اپنا مالی انحصار ختم کرکے ہمیں سیڈا کو خود کفیل بنانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ وگرنہ ہم موجود تمام خامیوں کو دور نہیں کرسکتے کر سکتے ہیں اور سیڈا کے دائرہ اختیار میں آنے والے علاقوں میں زرعی زمینوں کی حیثیت کے بارے میں جھوٹی معلومات کو ختم کرنا ہوگا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News