
عمران خان پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، دوسری جانب خیال احمد کاسترو
کو صوبائی وزیر بنانے کے وزیراعلیٰ کے اقدام نے پی ٹی آئی کو دنگ کردیا ہے
جہاں پی ٹی آئی کی قیادت دسمبر کے آخری ہفتے میں پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے بے چین ہے، وہیں وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اس موڈ میں نظر نہیں آرہے کہ وہ اسمبلی تحلیل ہونے دیں۔
بظاہر تو چوپدری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الہی مسلسل ایک ہی منتر کو دہرا رہے ہیں کہ صوبائی اسمبلی سابق وزیر اعظم عمران خان کی ہے اور وہ ان کی کال پر اسے تحلیل کر دیں گے، لیکن عملی طور پر وہ اس کے برعکس کر رہے ہیں۔
پنجاب حکومت کے کام کا سرسری جائزہ لینے سے اس بات کی عکاسی نہیں ہوتی کہ وہاں اس حوالے سے کسی عجلت کا کوئی احساس پایا جارہا ہے۔ صوبائی حکومت کے کام کے ساتھ ساتھ مختلف حلقوں میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام معمول کی رفتار سے جاری ہے۔
اسی طرح، اسمبلی میں قانون سازی کا عمل بھی جاری ہے کیونکہ اسمبلی نے دوسرے روز پانچ بل منظور کیے، جن میں سے ایک قانون سازوں اور سابق وزیراعلیٰ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق ہے۔
مقبولیت کی بلندیوں پر ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے سامنے پنجاب اسمبلی کی تحلیل ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے۔
مسرت جمشید چیمہ نے صوبائی حکومت کے سرکاری ترجمان کے طور پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا “عمران خان چاہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی 20 دسمبر تک صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر دیں۔”
عمران خان نے وفاقی حکومت کو قبل از وقت انتخابات کی تاریخ پر بات چیت کے لیے مذاکرات کی مشروط پیشکش کی تھی جسے پی ڈی ایم کی قیادت نے مسترد کر دیا تھا۔ اب وہ دسمبر کے تیسرے ہفتے میں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے وفاقی حکومت پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے کیونکہ انہوں نے تمام اقدامات کیے۔ مختلف ذرائع سے پیغامات بھیجے اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ذریعے براہ راست بات چیت بھی کی۔ عارف علوی نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ تمام کوششیں بے سود رہیں۔
دریں اثناء پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے میڈیا سے الگ بات چیت میں اعلان کیا کہ اگر پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد رکھنا ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو صوبائی اسمبلی کو تحلیل کرنا پڑے گا۔
اس سوال کے جواب میں کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اسمبلی تحلیل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے، فواد چودہری نے واضح کیا کہ مسلم لیگ (ق) کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد جاری رکھنا چاہتی ہے یا اگلے الیکشن میں اکیلے جانا چاہتی ہے۔
دریں اثنا، اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پرویز الٰہی اپنے قریبی حلقوں میں یہ کہتے رہے ہیں کہ پنجاب اسمبلی اپریل تک یعنی رمضان کے بعد کام کرتی رہے گی۔
مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی جانب سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی خیال احمد کاسترو کو ایک اور صوبائی وزیر بنانے کے اقدام نے پی ٹی آئی کی صفوں میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔اس پر مسزاد یہ کہ، پی ٹی آئی کے اندر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کو صوبائی کابینہ میں توسیع کا علم نہیں تھا اور وہ اس سے خوش نہیں ہیں۔
انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی جنہوں نے وزارت اعلی کا منصب سنبھالنے کے بعد تاحال گورنر ہاؤس کا دورہ نہیں کیا، حیران کن طور پر خیال کاسترو کی تقریب حلف برداری میں موجود تھے۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے اس پیشرفت پر اعتراض اٹھایا۔ پارٹی لیڈر نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے اس یشرفت پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ کابینہ میں توسیع نہیں ہونی چاہیے تھی۔
عمران خان نے اپنی پارٹی کے رکن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کاسترو کے وزیر بننے کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے نئے وزیر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سوچا کہ آپ کو کسی محکمے کا سربراہ مقرر کیا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ نے خیال احمد کاسترو کو بتایا کہ ان کے وزیر بننے سے پارٹی کے بیانیے کو نقصان پہنچا ہے ۔ یہ اقدام پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنوں کے لیے حیران کن تھا، جو عمران خان کے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔
مزید برآں، وزیراعلیٰ پنجاب نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے خلاف اور اپنے حلقوں کے لیے منافع بخش ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے ذریعے پی ٹی آئی کے اراکین کو راغب کرنے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دی ہیں۔
پرویز الٰہی کے کیمپ میں موجود افراد سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیکیورٹی کا مسئلہ بھی اٹھا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی کے ان حصوں میں محفوظ ہیں جہاں ان کی پارٹی کی حکومت ہے ، اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انہیں جو سیکیورٹی فراہم کی گئی ہے وہ واپس بھی لی جاسکتی ہے۔
دریں اثنا، عمران خان نے اپنے خلاف درج مختلف مقدمات میں گرفتاری کے خوف سے اپنی نقل و حرکت اسلام آباد، سندھ اور بلوچستان تک محدود کردی ہے، مسلم لیگ (ق) کے ایک رکن اسمبلی نےاس نمائندے کو بتایا کہ پرویز الٰہی عمران خان کی سیکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے۔
کافی دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) جس نے صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا راستہ روکنے کے مقصد سے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو تقریباً حتمی شکل دے دی تھی، اس نے اس کوشش کو ادھورا چھوڑ دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن اسمبلی نے اس نمائندے کو بتایا کہ انہیں وفاقی حکومت نے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے عمل میں تاخیر کرنے کے لیے کہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی صفیں اس بات پر کافی مطمئن نظر آتی ہیں کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی صوبائی اسمبلی نہیں توڑیں گے، لہٰذا ان کی صفوں میں مزید ک کوئی گھبراہٹ نہیں ہے۔ بلکہ، مسلم لیگ (ن) کے رہنما صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے پنجاب میں پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے جمعہ کو پریس بریفنگ کے دوران دعویٰ کیا کہ پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں وہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑنے کو تیار ہیں۔
رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو آنے والے انتخابات کے لیے موزوں امیدواروں کا انتخاب کرے گی۔ وفاقی وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا کہ عام انتخابات اکتوبر میں ہوں گے لیکن کے پی اور پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں ان دونوں صوبوں میں انتخابات 90 روز میں کرائے جائیں گے۔
تاہم اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ (ن) عمران خان کی بے انتہا مقبولیت کے پیش نظر یقینی طور پر قبل از وقت انتخابات سے محتاط ہے۔ لیکن وہ یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتی کہ وہ قبل از وقت انتخابات سے بھاگ رہی ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News