Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ناقص ترقی

Now Reading:

ناقص ترقی

سندھ کے 5 ترقیاتی  اداروں  کے کھاتوں میں بڑی بے ضابطگیوں کا انکشاف

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے گزشتہ دو مالی سالوں2020ء۔2019ء اور 2021ء۔ 2020ء کے دوران صوبہ سندھ کے پانچ اہم ترقیاتی اداروں میں 15 اعشاریہ 8  ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا  انکشاف کیا ہے۔

پانچوں اتھارٹیز اپنے متعلقہ جغرافیائی دائرہ اختیار میں عوامی ہاؤسنگ اسکیموں، کم لاگت والی ہاؤسنگ اسکیموں، شہری علاقوں کی خوبصورتی اور اراضی کے ریکارڈ کے انتظام کی منصوبہ بندی اور رابطہ کاری کے لیے ذمہ دار ہیں۔

ذیل میں ان بے ضابطگیوں کی نوعیت اور حجم  کو   مختصر طور  پر   بیان  کیا جارہا ہے ،جن کی نشاندہی آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ہر اتھارٹی کے لیے اپنی آڈٹ رپورٹ میں کی ہے۔

حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی:

Advertisement

رپورٹ میں 1585اعشاریہ 768 ملین روپے کی مختلف ٹرانزیکشنز (لین دین)پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اتھارٹی کے اہلکاروں کو 64 اعشاریہ 484 ملین روپے کے مختلف الاؤنسز ان کے استحقاق سے زائد ادا کیے گئے جب کہ ملازمین کو ایڈوانس تنخواہ کے طور پر ادا کیے گئے 5 اعشاریہ 166 ملین روپے کی وصولی ابھی باقی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایک کنسلٹنٹ فرم مس ریئل مارکیٹنگ کو 72 اعشاریہ 928 ملین روپے کی ادائیگی میں بھی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں، جس نے حیدرآباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں گلستان سرمست ہاؤسنگ اسکیم کی مارکیٹنگ کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ادائیگیاں اصل رسیدوں کی مصالحت کے بغیر کی گئیں، بعض صورتوں میں خدمات کے لیے جن کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔

رپورٹ کے مطابق ایچ ڈی اے کا اسٹیٹ آفس اپنی 1,357 ایکڑ اراضی سے تجاوزات ہٹانے میں ناکام رہا۔اس  کی واٹر اینڈ سیوریج ایجنسی گھریلو، کمرشل اور بلک صارفین کے خلاف واجب الادا 283اعشاریہ174 ملین روپے کے واٹر چارجز کی وصولی میں ناکام ثابت ہوئی جبکہ  اس کا  پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کنٹرول آفس نجی ہاؤسنگ سکیموں کے مالکان سے 512اعشاریہ 387 ملین روپے کے اضافی ترقیاتی چارجز وصول کرنے میں ناکام رہا۔

کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی:

رپورٹ میں 5204اعشاریہ463 ملین روپے کے اعتراضات اٹھائے گئے، جن میں مختلف ٹیکسوں کی مد میں 146اعشاریہ394 ملین روپے بھی شامل ہیں جن کی وصولی کے ڈی اے ناکام رہی۔اس نے  الاؤنسز اور یوٹیلیٹی سروسز کے نام پر اپنے ملازمین کو 146اعشاریہ394 ملین روپے کی ’ غیر منصفانہ‘ادائیگیاں بھی کیں۔

اس کے علاوہ، اس کا اکاؤنٹس اینڈ ریکوری ڈیپارٹمنٹ نیلامی اور کرایہ کی رسیدیں پیش کرنے میں ناکام رہنے کے علاوہ پلاٹوں پر بولی اور قبضے کے سرچارجز کی مد میں 2594اعشاریہ813 ملین روپے کی وصولی میں ناکام رہا۔

Advertisement

آڈٹ سے پتا چلا ہے کہ 166اعشاریہ109 ملین روپے کے اخراجات کام کی تکمیل کے لیے دی گئی رقم سے زائد رقم پر خرچ کیے گئے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 1952اعشاریہ615 ملین روپے لاگت کے کام متعلقہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2012ء کے کمپوزٹ شیڈول ریٹ کے بجائے مارکیٹ بیسڈ ریٹ پر ٹھیکیداروں کو دیئے گئے۔

اس کے علاوہ کے ڈی اے کے مختلف اسکولوں کے تدریسی اور غیر تدریسی عملے کو 157اعشاریہ863 ملین روپے کی رقم گورننگ باڈی کی منظوری کے بغیر ویلفیئر فنڈ سے ادا کی گئی اور 14 اعشاریہ 397 ملین روپے پانی کے اخراج کی مرمت اور ان علاقوں میں سیوریج لائنوں کی صفائی پر خرچ کیے گئے جو کے ڈی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔

ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی:

رپورٹ میں 212اعشاریہ815 ملین روپے کے لین دین پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں جن میں زیادہ تر ایم ڈی اے ملازمین کو کی گئی ادائیگیوں، پروکیورمنٹس، اکاؤنٹس کے انتظام اور سروس ڈیلیوری فیس سے متعلق ہے۔

ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے  تین رہائشی سوسائٹیوں سے قبضے اور یوٹیلیٹی چارجز کی مد میں 195اعشاریہ43 ملین روپے کے کل قابل وصولی واجبات ظاہر کیے تھےلیکن کاغذی وصولی صرف 17اعشاریہ999 ملین روپے تھی۔جب کہ ملیر  ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قابل وصولی واجبات کی رقم 122اعشاریہ467 ملین روپے ہے اور  اس کا ریکارڈ اس کی قابل وصولی کے طور پر  صرف 55اعشاریہ550 روپے  بنتا ہے۔

ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 37ہزار782 ایکڑ اراضی پر شاہ لطیف ٹاؤن، نیو ملیر ہاؤسنگ پروجیکٹ، تیسر ٹاؤن اور ایم ڈی اے ماسٹر پروگرام اسکیم کے ناموں  سے اعلان کیا ۔لیکن اس میں سے 24ہزار518 ایکڑ اراضی پر مختلف عناصر نے قبضہ کرلیا اور اس زمین کو خالی کرنے کی  کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

Advertisement

ڈویلپمنٹ اتھارٹی حکام کو 27اعشاریہ217 ملین روپے کی رقم ان کے استحقاق سے زیادہ مختلف الاؤنسز کی مد میں ادا کی گئی۔

اس کے ساتھ ہی تیسر ٹاؤن اسکیم-45 میں قابل اجازت حد سے زیادہ کام کے غیر قانونی ایوارڈ کی وجہ سے اتھارٹی کو 26اعشاریہ162 ملین روپے کا نقصان ، پروکیورمنٹ رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  19 اعشاریہ 96 ملین روپے کا نقصان  جبکہ مختلف منصوبوں پر کام چھوڑنے کی وجہ سے 17 ملین روپے کا نقصان ہوا۔

سہون ڈیویلپمنٹ اتھارٹی:

رپورٹ میں 108اعشاریہ900 ملین روپے کے لین دین پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ان کا تعلق سہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کمرشل بینکوں میں اکاؤنٹس کے انتظام میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں، سروس ڈیلیوری چارجز اور اتھارٹی کے ملازمین کو کی گئی بعض ادائیگیوں سے ہے۔رپورٹ  سے یہ بھی  معلوم ہوا ہے کہ اتھارٹی کے اہم دفاتر پر غیر مجاز افراد کا قبضہ ہے۔

ذوالفقار آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی:

رپورٹ میں 8761اعشاریہ708 ملین روپے کے لین دین پر اعتراضات درج کیے گئے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر مالی سال 20-2019ء سے متعلق ہیں۔

Advertisement

آڈٹ کے دوران آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو پتہ  چلا کہ  8757اعشاریہ540 ملین روپے کے ترقیاتی کام جو فوج کی ملکیت والی فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو دیئے گئے تھے ان پر عمل نہیں کیا گیا۔ ایسا اس حقیقت کے باوجود  ہواکہ  ایف ڈبلیو او کو 10 فیصد کی موبلائزیشن ایڈوانس  رقم ادا کی  جاچکی تھی ۔یہ رقم بھی تاحال وصول نہیں کی گئی ، جو کہ 14 اعشاریہ 2  فیصد کے سود سے بہت کم ہے  اور   فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن  اس رقم کو  معاہدے کی شرائط کے تحت ادا  کرنے کا پابند ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاک افغان مذاکرات ناکام؛ پاکستان کا دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کا اعلان
دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور پھر سر فہرست
بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی 2 مختلف کارروائیاں؛ 18 دہشتگرد ہلاک
کرم میں سیکیورٹی فورسز کا انٹیلی جنس آپریشن، 7 بھارتی سرپرست خوارج ہلاک، کیپٹن سمیت 6 جوان شہید
ضرورت پڑی تو افغانستان کے اندر جا کر بھرپور جواب دیں گے، خواجہ آصف
تافتان بارڈر پر بلٹ پروف گلاس کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی گئی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر