
حکومتی بے عملی کے باعث سندھ میں اب بھی ہزاروں افراد داد رسی اور بحالی کے منتظر
پکی اینٹوں سے بنے گھر میں پانی پمپ کرنے والی مشین کو بند کرتے ہوئے، سندھ کے ضلع خیرپور کے گاؤں مٹھو خان چانگ کے رہائشی اور کاشت کار بلال حسین چانگ، سخت سردی کی وجہ سے اپنی پریشانیوں اور اذیتوں کا اظہار کر رہے تھے جو خوفناک سیلاب کے بعد متاثرین کو پریشان کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’میں اپنے گھر سے سیلابی پانی نکال رہا ہوں اور پانی کو دوبارہ گھر میں داخلے سے روکنے کے لیے دروازے پر ریت کے تھیلوں کی منڈیر بنا رہا ہوں۔ میری درخواست ہے کہ سندھ حکومت گرم ملبوسات فراہم کرے اور وہ دیہات جہاں زرعی زمینیں اور مکانات اب بھی سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں وہاں ہمارے گھروں کی تعمیر نو کے بندوبست کو یقینی بنائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’سیکڑ وں دیہاتی پھنسے ہوئے ہیں اور بلند علاقوں، پکی سڑکوں اور نہر کے پشتوں پر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ درحقیقت، حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں نے شروع میں خیمے اور راشن کے تھیلے فراہم کیے تھے، لیکن اب کوئی امداد دستیاب نہیں ہے۔ چند غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) ہمارے گاؤں اور آس پاس کے 100 سے زیادہ دیہات کا دورہ کر رہی ہیں، جاگیرداروں کو تقسیم کرنے کے لیے گرم کپڑے دے رہی ہیں، لیکن وہ متاثرین تک نہیں پہنچ رہے۔ متاثرین التجا کر رہے ہیں کہ جیسے جیسے ٹھنڈ اور سرد موسم قریب آ رہا ہے ان کی زندگیاں مزید مشکل بنتی جا رہی ہیں۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس مشکل وقت میں بچ جانے والی گائے، بکریاں، بھیڑیں اور یہاں تک کہ بھینسیں بھی بھوک سے مرنے کے لیے چھوڑ دی گئی ہیں، جب کہ زیادہ تر مویشی پہلے ہی بھوک سے مر چکے ہیں۔ انہوں نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب نے مویشیوں اور زرعی زمینوں کو تباہ کر دیا ہے۔ کسان ابھی تک گندم کی بوائی کرنے سے قاصر ہیں جب کہ گندم کی بوائی کا سیزن ختم ہونے کو ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ دیہاتیوں کو ایسے مکانات کی شکل میں محفوظ پناہ گاہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گھروں میں کھڑا پانی بنیادوں کو کمزور کر دیتا ہے اور بہت سے مکانات شکستہ ہوچکے ہیں جن میں رہنے سے لوگ سے ڈرتے ہیں۔ جب حکومت اعلان کر چکی ہے کہ وہ تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو کے لیے ایک قابل ذکر رقم فراہم کرے گی تو اب وقت ضائع نہ کرے۔ لوگوں کو آئندہ تین ماہ کے سردیوں کے موسم سے بچانے کے لیے اسے فوری طور پر فنڈز جاری کرنے چاہئیں۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین اور بچوں سمیت بہت سے گاؤں والے ملیریا، اسہال، پیچش، نمونیا، اسینے اور گلے کے انفیکشن سے بیمار ہیں۔ انہیں موبائل اسپتالوں کی مدد سے کسی حد تک علاج معالجہ فراہم کیا جا رہا ہے لیکن یہ ان کی بیماریوں کا حل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ’’موبائل اسپتال ایک دن میں جتنے زیادہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں، اگلے دن اتنے ہی نئے مریض آتے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر جمع شدہ پانی کی نکاسی، مناسب پناہ گاہ، پینے کا صاف پانی اور راشن مہیا کرنا چاہیے۔‘‘
سندھ ایگریکلچرل فاریسٹری ورکرز اینڈ کوآرڈینیٹنگ آرگنائزیشن کے بانی اور سی ای او سلیمان جی ابڑو نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں اب بھی سیکڑوں لوگوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ سیلابی پانی کے ساتھ ساتھ، بہت سے لوگ عارضی پناہ گاہوں یا خیموں میں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت اب بھی تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور انہیں فوری طور پر لکڑی، سردیوں کے کپڑے، خوراک اور ادویات فراہم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی ہاؤسنگ اسکیم کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت ہم ضلع سانگھڑ میں 60 ہزار بچوں اور حاملہ خواتین کو خوراک اور ادویات فراہم کر رہے ہیں اور یہ منصوبہ ایک ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ یونیسیف کے پروگرام کے تحت ہم نے دو ہزار خاندانوں میں 18 ہزار روپے مالیت کے راشن بیگ بھی تقسیم کیے ہیں۔ اور مزید دو ہزار گھرانوں کو 18 ہزار پانچ سو روپے نقد بھی دیے ہیں۔ خیرپور اور نوشہرو فیروز میں، ہم پانی کے ٹینکر کے ذریعے پینے کا پانی فراہم کرتے ہیں، ساتھ ہی برتن دھونے کا سامان اور ٹوائلٹ پیپر بھی فراہم کرتے ہیں۔‘‘
سیفکو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے مطابق دادو، نوشہرو فیروز، خیرپور، سانگھڑ، میرپورخاص، عمرکوٹ، مٹیاری، ٹھٹھہ اور سجاول کے کئی علاقے زیر آب ہیں۔
جئے سندھ محاذ (ر) کے چیئرمین ریاض چانڈیو نے کہا، ’’حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ گندم کی بوائی پر پانچ ہزار روپے فی ایکڑ کاشتکاروں کو ادا کرے گی، لیکن یہ ناکافی ہے اور ادائیگی ابھی تک باقی ہے۔ کسان یوریا اور ڈی اے پی جیسی مہنگی کھادوں کے ساتھ ساتھ گندم کے بیج جیسے ’ٹی ڈی‘، ’سحر‘، ’انقلاب‘ اور ’اکبر‘ کے لیے بھی ادائیگی کر رہے ہیں۔ غریب کسان پہلے ہی سخت سردی اور متعدد مالی نقصانات کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ وہ اونچی زمین جیسے کہ پکی سڑک اور نہروں کے پشتوں پر رہائش پذیر ہیں۔‘‘
حکومت نے داد رسی مراکز کو تقریباً بند کر دیا ہے اور آئی ڈی پیز کو اپنے گھروں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں وہ سردیوں کے موسم میں انتہائی ناموافق حالات میں رہ رہے تھے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس شدید مہنگائی کے دوران معمولی زندگی گزارنے کے لیے صرف چند کسان ہی اپنے جاننے والوں سے گندم کی بوائی کے لیے قرض حاصل کر پاتے ہیں، جب کہ گندم کی بوائی کے اس موسم میں زیادہ تر کاشت کار بیکار رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’میں سندھ ہائی کورٹ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ متاثرین کی بحالی اور امدادی کاموں کے بارے میں اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔‘‘
سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے صدر اور سندھ بحالی تحریک کے سربراہ سید زین شاہ نے سیلاب سے تباہ شدہ سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے، اسکولوں، کالجوں اور اسپتالوں کی مرمت کا مطالبہ کیا ہے۔ جن میں تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو، سیلابی پانی کی تیزی سے نکاسی، اور جن علاقوں میں زرعی زمینیں خشک ہیں وہاں کاشت کاروں کو ٹیوب ویل کے لیے استعمال ہونے والی بجلی پر 10 روپے کی سبسڈی کی فراہمی شامل ہیں۔ بصورت دیگر آنے والے دنوں میں ایک اور انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت دیہی سندھ کی بے گھر آبادی کو ریلیف فراہم کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ کھیتی باڑی کرنے والے بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور یہاں تک کہ انہیں مناسب لباس اور سامان جیسے چارپائیاں، چادریں، کمبل، اور دیگر ضروری اشیا بھی دستیاب نہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’جب سیلاب متاثرہ علاقوں سے نکل جاتے ہیں تو اپنے پیچھے تباہی، بھوک، جانوروں کا نقصان، ویرانی اور دیگر اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ حکومت امداد فراہم کرنے میں بہت زیادہ وقت لے رہی ہے۔‘‘
سیکرٹری بحالی محمد علی کھوسو نے بیان کیا اور اعتراف کیا کہ ان کی ٹیم نے آئی ڈی پیز میں 2 اعشاریہ 2 ملین راشن بیگ، 3 اعشاریہ 7 ملین مچھر دانیاں، 1 اعشاریہ 2 ملین کمبل، اور 5 لاکھ 28 ہزار ترپالیں تقسیم کیں۔
انہوں نے کہا کہ 16 موبائل ہسپتال قائم کیے گئے ہیں جن کے ہر یونٹ میں دو گاڑیاں ہیں جن میں ایک مرد اور ایک خواتین مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبی خدمات میں چھوٹے آپریٹنگ رومز، میٹرنٹی اور لیبر رومز، تشخیصی لیبارٹریز، میڈیکل اسٹورز اور دیگر ٹیسٹنگ مشینیں شامل ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ یونٹ دور دراز علاقوں میں خدمات کے بارے میں روزانہ رپورٹ پیش کرتے ہیں۔
محمد علی کھوسو نے مزید کہا، ’’عالمی بینک جلد ہی آئی ڈی پی ایس کے لیے ایک پراجیکٹ شروع کرے گا تاکہ ان لوگوں کو مالی امداد کی شکل میں سماجی تحفظ فراہم کیا جا سکے جو قدرتی آفات کی وجہ سے ایک باوقار زندگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ سیلاب کا پانی قدرتی طور پر سیلاب زدہ علاقوں میں کم ہو جاتا ہے؛ اسے نکالا نہیں جا سکتا، لیکن حکومت آبپاشی اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ جیسے محکمے پانی کی نکاسی میں کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ تقریباً 25 لاکھ لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں، اور حیدرآباد ڈویژن کے صرف نو اضلاع میں 10 لاکھ آئی ڈی پیز ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تقریباً 35 ہزار آئی ڈی پیز ضلع دادو کے قریبی دیہات میہڑ اور خیرپور ناتھن شاہ کے قریب پشتوں پر پھنسے ہوئے ہیں، سیلابی پانی کی وجہ سے واپس نہیں آ سکتے، اور یہ کہ سیہون، جامشورو ضلع اور مٹیاری ضلع کے سعید آباد کی چار یو سیز زیر آب ہیں۔
حیدرآباد کے ڈویژنل کمشنر نے مزید کہا کہ انہوں نے ڈویژن میں آئی ڈی پیز میں 1 اعشاریہ 5 ملین مچھر دانیاں، 8 لاکھ راشن بیگ اور 2 لاکھ 20 ہزار خیمے تقسیم کیے تاکہ وہ آنے والے سردیوں کے موسم کا سامنا کر سکیں اور خود کو سخت موسمی حالات سے بچا سکیں جو ان کی موجودہ شکایات کو بڑھا سکتے ہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News