محکمہ تعلیم سندھ کی غیرفعالیت کے باعث دیہی علاقوں میں ہزاروں اسکول بند ہونے سے صوبے کے حالات مزید خرابی کی جانب گامزن ہیں
سندھ حکومت ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتی آرہی ہے کہ وہ صوبے میں تعلیم کی بہتری اور سرکاری اسکولوں میں طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے 13 نومبر 2021ء کو سندھ بھر میں 5 ہزار سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کا اعلان کیا جب کہ محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے بھی 31 دسمبر 2021ء کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے صوبے بھر کے 4 ہزار 901 سرکاری اسکولوں کو بند کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا گیا۔
محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے بند کئے جانے والے اسکولوں کی اکثریت کو غیرفعال قرار دیا گیا ہے جب کہ ہزاروں اسکولوں کی حالت زار بہت خراب بتائی گئی ہے۔
باوجود اس کے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر اسکولوں کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔ تاہم، سندھ حکومت اور صوبائی محکمہ تعلیم نے اس کے بالکل برعکس اقدام اٹھاتے ہوئے اسکولوں کو بند کرنے کا اعلان کردیا۔
سندھ حکومت کی جانب سے اسکولوں کی بندش کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دیہی علاقوں میں تعینات اساتذہ کی بڑی تعداد اپنے فرائض سر انجام نہیں دیتے۔ زیادہ تر طلباء اسکولوں میں موجود ہوتے ہیں لیکن اساتذہ غیر حاضر ، جب کہ سرکاری ریکارڈ پر یہ اساتذہ اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔
بول نیوز کی ٹیم نے ضلع سکھر کے دیہی علاقوں کا سروے کیا، جہاں سرکاری اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم اور ان اسکولوں میں فراہم کی جانے والی سرکاری سہولیات کا مکمل جائزہ لیا گیا۔
ضلع سکھر کی تحصیل صالح پٹ میں 20 کے قریب سرکاری اسکول بند ہیں اور کھلے ہوئے پرائمری اسکولوں میں سے کئی کی حالت خراب ہے جب کہ گوٹھ سبو مہر میں گورنمنٹ پرائمری اسکول کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے جس سے طلباء اسکول کے صحن میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
اسکول میں فرنیچر نہ ہونے کی وجہ سے سبو مہر گاؤں کے درجنوں بچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ اسکول کا واش روم خستہ حال ہے اور طلباء کے لیے پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔
گوٹھ چڈکو مہر میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے جہاں اس وقت پرائمری اسکول کی کوئی عمارت نہیں ہے۔ یہ اسکول 1988ء میں کھلا لیکن چند سال بعد ہی محکمہ تعلیم کی عدم توجہی کے باعث عمارت منہدم ہو گئی۔ اس اسکول کے تمام نشانات رفتہ رفتہ مٹ گئے اور اب اس گاؤں کے بچے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جس سے عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔
اس علاقے کے رہائشی نظام الدین مہر کے مطابق محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام کو بھی آگاہ کیا گیا لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔ آج گاؤں میں اس جگہ اسکول کی کوئی عمارت نہیں ہے اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق یہ ایک پرائمری اسکول ہے۔
نظام الدین نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ یہاں نہ اساتذہ ہیں اور نہ ہی اسکول کی عمارتیں، اب ہمارے بچے تعلیم کیسے حاصل کریں گے؟ دنیا جدید تعلیم کی طرف بڑھ رہی ہے اور یہ سندھ ہے جہاں ہمارے بچوں کے پاس نہ تو اسکول کی عمارت ہے اور نہ ہی بچوں کے بیٹھنے کے لیے کوئی ڈیسک یا کرسی موجود ہے۔‘‘
بول نیوز کی ٹیم نے گوٹھ مٹھو مہر میں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھی، جہاں بابِ فاطمہ نامی طالبات کا ایک اسکول تقریباً 16 سال سے بند ہے۔ اس اسکول نے ابتدائی طور پر تعلیمی عمل کا آغاز کیا لیکن دو سال کے بعد بظاہر کسی وجہ کے بغیر اسے بند کر دیا گیا۔
اسکول کی عمارت وقت کے ساتھ ساتھ خستہ حال ہوگئی ہے، چھتوں سے پلاسٹر گر چکا ہے، اسکول کے کلاس رومز میں لوہے کی سلاخیں دیکھی جا سکتی ہیں اور اسکول کی چھت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔
بول نیوز سے بات کرتے ہوئے تحصیل صالح پٹ کے ایجوکیشن آفیسر عطاء اللہ مہتم نے بتایا کہ علاقے میں 20 اسکول بند پڑے ہیں اور کئی اسکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں جب کہ محکمہ تعلیم کی کوشش ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں کی مرمت کرکے اسکولوں کو دوبارہ کھولا جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس حوالے سے کاغذی کارروائی مکمل کی جاچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس علاقے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید احمد شاہ اور رکن صوبائی اسمبلی سید اویس قادر شاہ بھی اس سلسلے میں بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
عطا اللہ کے مطابق تحصیل صالح پٹ میں اساتذہ کی بھی کمی ہے جس کی وجہ سے کچھ سرکاری اسکول بند پڑے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ’’حال ہی میں اساتذہ کی بھرتی کی گئی ہے اور ان اساتذہ کو دیہی علاقوں کے اسکولوں میں تعینات کیا جائے گا اور اگر اسکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری ہوجاتی ہے تو بند اسکولوں کو دوبارہ کھولا جاسکتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ صالح پٹ ایک ریگستانی علاقہ ہے، دور دراز علاقوں میں کئی اسکول قائم ہیں، اور محکمہ تعلیم کی کوشش ہے کہ یہاں تعینات اساتذہ کو اپنی ذمے داریاں ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کا پابند کیا جائے۔
حالانکہ صالح پٹ کے ایجوکیشن آفیسر کی بات درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدیدار اس صورتحال سے بے خبر ہیں۔ بالائی سندھ کے کئی اضلاع میں اسکولوں کی بندش کا سامنا ہے اور دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولوں کی صورتحال مسلسل ابتر ہوتی جارہی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ محکمہ تعلیم کے افسران کو اس بات کا ادراک ہے کہ سندھ میں تعلیم کا معیار کس طرف جارہا ہے اور اسے کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے لیکن وہ اپنی تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے وقت ان مسائل پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔
کئی اسکولوں کی عمارتیں اس قدر خستہ حال ہیں کہ کسی بھی وقت بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی ایسا حادثہ پیش آیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اگر اسکولوں میں بیٹھنے کے لیے فرنیچر نہیں ہے تو سندھ کی نئی نسل تعلیم کے حصول یا سیکھنے کی طرف مائل کیسے ہوگی؟
یہ سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کے لیے ایک سوال ہے کہ تعلیمی نظام کو کب بہتر کیا جائے گا تاکہ آنے والی نسل تعلیم میں دلچسپی لے اور صوبے اور مجموعی طور پر قوم کی بہتری کے لیے کام کر سکے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News