
بول نیوز نے باخبر حلقوں سے بات کی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ اس وقت نئے صوبوں کا قیام کس حد تک ممکن ہے؟
نئے صوبے بنانے اور مطلوبہ آئینی ترامیم لانے کی تجاویز پر غور کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی 7 رکنی خصوصی کمیٹی کی تشکیل نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ بہت سے سیاست دان اور تجزیہ کار اس کے فوائد اور نقصانات پر بحث کر رہے ہیں۔تاہم، صوبہ سندھ کے سیاسی رہنما قدرے محتاط نظر آتے ہیں، کینوکہ اگر اس بحث کو بہت آگے لے جایا گیا تو سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان نسلی تشدد کے دوبارہ شروع ہونے کا خدشہ ہے۔
بول نیوز نے متعدد لوگوں سے ان کے ردعمل جاننے کے لیے بات کی ہے جس کی تفصیل قارئین کےلیے پیش کی جارہی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان:
ایم کیو ایم رہنماؤں نے بول نیوز سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے صوبوں یا انتظامی اکائیوں کی تشکیل کے لیے یہ بلاشبہ ایک صحت مند بحث ہے کیونکہ سندھ اور پنجاب جیسے صوبوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اور اس طرح کے انتظامات کے لیے مقامی سطح پر مطالبات سامنے آرہے ہیں ۔ نئے صوبے یقینی طور پر مقامی آبادی کے مسائل کو زیادہ موثر انداز میں حل کرنے میں مدد کریں گے۔
ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب اس طرح کے بل نہ صرف سندھ میں ایم کیو ایم پی کی طرف سے پیش کیے گئے بلکہ جنوبی پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے ہزارہ علاقے کے رہنماؤں کی جانب سے بھی پیش کیے گئے ۔ ان بلوں کو ضروری ترامیم کے لیے پارلیمنٹ کی لاء اینڈ جسٹس کمیٹی کو بھیجا گیا تھا، لیکن کمیٹی نے انہیں خصوصی کمیٹی بنانے کی سفارش کے ساتھ اسپیکر کے پاس واپس بھیج دیا جسے حال ہی میں تشکیل دیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان اس کمیٹی کا رکن بننے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی کیونکہ دیگر اراکین میں سے کوئی بھی سندھ میں نئے صوبے پر غور کرنے کا خواہاں نظر نہیں آتا، جیسا کہ سندھی قوم پرستوں اور دیگر کے سوشل میڈیا پر ردعمل سے ظاہر ہے۔
چیئرمین سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی، سابق سینیٹر، پی پی ڈاکٹر کریم خواجہ:
آئین کے تحت صوبائی پارلیمنٹ میں صرف دو تہائی اکثریت ہی اس کی حدود میں دوسرے صوبے کے قیام کی اجازت دے سکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس اجازت کو قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ سینیٹ سے بھی توثیق کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اگر قومی اسمبلی اکیلے اس طرح کا بل پاس کرتی ہے تو یہ قابل عمل نہیں ہو گا اور نہ ختم ہونے والی قانونی چارہ جوئی کا باعث بنے گا۔
ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کے 22 کروڑ عوام کو اپنے معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لیے مزید صوبوں کی ضرورت ہے، لیکن اس عمل میں انہیں آن بورڈ لیا جانا چاہیے اور ان کی توقعات کی واضح نشاندہی کی جانی چاہیے۔
سینیٹر، مسلم لیگ ن ، افنان اللہ خان:
110 ملین سے زائد آبادی والے پنجاب کو دو انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں واضح ہونا چاہیے کہ اگر ملتان اور بہاولپور کو نئے صوبے میں شامل کیا جائے تو وہ کسی اور دنیا میں نہیں جائیں گے بلکہ وہ اسی مقام پر رہیں گے۔
اس طرح کی تقسیم سے ملکی معیشت پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ شروع میں کچھ اضافی اخراجات ہوسکتے ہیں، لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہوگا، اور اسے آہستہ آہستہ منصوبہ بندی کرکے منظم کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر انتظامی محکموں کا انفراسٹرکچر صوبوں کے تمام بڑے زونز میں پہلے سے موجود ہے۔ انہیں صرف وزیر اعلیٰ، گورنر اور نئی صوبائی پارلیمنٹ کے لیے احاطے بنانے کی ضرورت ہوگی۔
لیکن اس طرح کے اقدامات کرنے کے لیے ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے، اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز اس معیار پر پہنچنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ آزاد کشمیر میں حالیہ بلدیاتی انتخابات نے پاکستان تحریک انصاف کے مقبولیت کے لیے مشکل صورتھال پیداکردی ہے ۔
مسلم لیگ (ن) دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہے، اور پنجاب میں آنے والے انتخابات میں کلین سوئپ کرنے کے ساتھ ساتھ کے پی میں بھی نمایاں نمائندگی حاصل کر سکتی ہے۔
صدر پی ٹی آئی سندھ، سابق وفاقی وزیرعلی زیدی:
پارلیمنٹ کی تشکیل کردہ خصوصی کمیٹی مقامی آبادیوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے محض ایک لالی پاپ ہے۔ پیپلز پارٹی کی زیرقیادت سندھ حکومت نے صوبے کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ اگلے انتخابات میں پی ٹی آئی سندھ میں حکومت بنانے جا رہی ہے، اور وہ اس وقت تک سندھ کی تقسیم کی حمایت نہیں کرے گی جب تک کہ تمام صوبائی آبادی کو مساوی حقوق نہیں مل جاتے۔
حالیہ گفتگو کے پیش نظر جماعت اسلامی کراچی میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے، یہ سب صرف سوشل میڈیا پر ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کی مہم کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے لیکن وہ اگلے انتخابات میں اربن سندھ میں پی ٹی آئی کے عروج کو نہیں روک سکتے۔
جہاں تک مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے کا تعلق ہے، پی ٹی آئی کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے پہلے ہی اس کے لیے ابتدائی کام مکمل کر لیا ہے، اور پنجاب کے لوگ اس طرح کی تقسیم کے حامی نظر آتے ہیں۔
اسد اللہ بھٹو، نائب صدر جماعت اسلامی:
مرکز میں موجودہ مخلوط حکومت ایک عبوری حکومت ہے اور اسے یہ معاملہ اگلی منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت یہ اقدام سندھ میں فرقہ وارانہ بدامنی کو ہوا دے گا۔ اس کے علاوہ پنجاب میں بھی سرائیکی صوبہ بنانے کے حوالے سے بہت سے تحفظات ہیں۔
دراصل اس معاملے کو سامنے لا کر حکومت کراچی والوں کی توجہ آئندہ بلدیاتی انتخابات سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں اور اس طرح جماعت اسلامی کو کراچی میں اپنی مقبولیت ثابت کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
مرکزی دھارے کی تین سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن، پی پی پی اور پی ٹی آئی میں سے کوئی بھی نئے صوبے بنانے میں سنجیدہ نہیں ۔ وہ اسے صرف اگلے عام انتخابات میں زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی چال کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
سینئر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر جعفر احمد:
اس معاملے کے آئینی اور سیاسی پہلو ہیں۔ آئین کچھ شرائط و ضوابط کے تحت نیا صوبہ بنانے کی اجازت دیتا ہے۔
سیاسی طور پر جب بھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نئے صوبے کی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب صرف پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانا ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی سندھ یا کے پی کو تقسیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ پی ٹی آئی بھی اسی لیگ میں ہے۔ اس نے اپنی 2018 ء کی انتخابی مہم کے دوران پنجاب میں سرائیکی صوبے کے لیے نعرے لگائے، یہ سب کچھ اس وقت کیا جب اس نے سرائیکی پٹی سے پنجاب کا وزیر اعلیٰ (عثمان بزدار) مقرر کرنا تھا۔
پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے سے کئی تنازعات اور دشمنی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ صرف ایک نعرہ ہے جسے مختلف پارٹیاں انتخابی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ میرے خیال میں اس پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی سرائیکی پٹی میں اپنی کھوئی ہوئی جگہ دوبارہ حاصل کرنے کی حکمت عملی ہوسکتی ہے۔
جہاں تک سندھ کا تعلق ہے، ایم کیو ایم پاکستان کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی، جنوبی سندھ کے اردواکثریتی علاقے میں ایک نیا صوبہ بنانے کے خواہشمند ہیں۔
کنوینر ویمن ایکشن فورم، سیاسی تجزیہ کار امر سندھو:
آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد نئے صوبے بنانا قومی اسمبلی کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ یہ متعلقہ صوبائی پارلیمنٹ کا کام ہے۔
مرکزی دھارے کی تینوں سیاسی جماعتیں، پی پی پی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں، اور مقامی لوگ بھی اس خیال کی حمایت کرتے ہیں۔ اس خطے کا ایک مضبوط تاریخی ورثہ ہے اور یہاں کوئی نسلی سیاسی دراڑ موجود نہیں ہے۔
اسی دوران ایم کیو ایم پاکستان سندھ کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتی ہے اور بلوچستان کی پختون آبادی بھی اپنا الگ صوبہ چاہتی ہے۔ یہ پیچیدہ مسائل ہیں، اور ان پر کھیلنے سے پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی کا امکان نہیں ہے۔
ایم این اے ، سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل، رمیش کمار وانکوانی:
یہ کمیٹی آئین میں ترمیم کے بل کی پیروی کے طور پر تشکیل دی گئی ہے جسے میں نے 2018 ء میں پیش کیا تھا، لیکن میں ملک میں نئے صوبے بنانے کے لیے ترمیم نہیں کر رہا تھا۔ میرا مقصد خواتین کی یونیورسٹیاں قائم کرنا اور اقلیتوں سے متعلق کچھ دیگر مسائل کو حل کرنا تھا۔
چونکہ پی ٹی آئی حکومت نے ایک ہی وقت میں پنجاب میں سرائیکی صوبہ بنانے کا بل پیش کیا تھا، اس لیے دونوں بلوں کا موضوع آپس میں الجھ گیا اور تازہ ترین نوٹیفکیشن میں ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News