کسٹم حکام نے مبینہ طور پر تاجر کے گھر پر غیر قانونی چھاپہ مار کر 74 شاہین برآمد کیے تھے
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بازوں کے ایک مبینہ تاجر کی جانب سے ان کے خلاف لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات سے تین کسٹم افسران کو بری کر دیا۔تاجرنے الزام لگایا تھا کہ ملزمان نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں واقع اس کے گھرپرچھاپہ مارکرقانونی طورپررکھے ہوئے 25باز، طلائی زیورات، نقدی اورموبائل فون سمیت متعدد قیمتی سامان لوٹ لیا۔
تفصیلات کے مطابق یہ چھاپہ اکتوبر2020ء میں مارا گیا تھا،جس میں شکایت کنندہ کے گھر سے 74 باز بازیاب ہوئے۔ جس کی بین الاقوامی میڈیا میں خبریں شائع ہوئیں، جن میں اسے مشرق وسطیٰ میں شاہینوں کی اسمگلنگ کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی کارروائی قراردیا گیا، جہاں انہیں تلور کے شکارکی تربیت دی جانی تھی۔
چھاپہ مارٹیم نے گھر کے مالک بشیراحمد اوردیگر ملزمان کے خلاف اسمگلنگ کا مقدمہ درج کرلیا۔ لیکن انہیں کسٹم کورٹ کراچی نے بری کر دیا۔ ان کی بریت کے بعد بشیر احمد نے کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) میں ایک نجی شکایت دائر کی، جس میں چھاپہ مار اہلکاروں پرڈکیتی کا الزام لگایا گیا۔
شکایت میں انہوں نے کہا کہ وہ باز کی تجارت کا کاروبارکرتے ہیں اور اس کے لیے انہیں قانونی لائسنس حاصل ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مہلک ہتھیاروں سے مسلح کسٹم حکام، یعنی سمیع اللہ خان نیازی (ڈپٹی کلکٹر کسٹمز)، رانا عظیم سروراورملک افتخار کے ساتھ چارنامعلوم افراد 14اور15 اکتوبر 2020ء کی درمیانی شب ان کے گھرمیں زبردستی داخل ہوئے۔
شکایت کنندہ کے مطابق ملزمان، جو دیواروں پرچڑھ کران کے گھرمیں داخل ہوئے، نے ان کے اوران کے اہلخانہ کے ساتھ بدتمیزی کی۔ انہوں نے خود کوسرکاری اداروں کے اہلکارظاہرکیا، ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں اور ان سے طلائی زیورات، پانچ موبائل فون، 5لاکھ روپے اور25 بازوں سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔
انہوں نے اپنی شکایت میں کہا کہ انہوں نے چھاپہ ماروں کو پرندوں کو رکھنے کا لائسنس دکھانے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے اسے پھاڑ دیا، اور باز کی خرید و فروخت کا کاروبارجاری رکھنے کے لیے ان سے 1 کروڑ روپے رشوت طلب کی۔
شکایت کنندہ نے کہا کہ انہوں نے اپنے بازوں کو واپس حاصل کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن چھاپہ مار ٹیم نے غیر قانونی طور پر بازوں کی تجارت کرنے پران کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ تاہم، ایف آئی آر کو بعد میں ایک عدالت نے دائرہ اختیار سے باہر قراردیا، اورشکایت کنندہ کی’نجی شکایت‘ کو بھتہ خوری کے خصوصی کیس میں تبدیل کردیا گیا، جس کا اے ٹی سی نے ٹرائل کیا اورسزائے موت دی گئی۔
تاہم، شکایت کنندہ اوران کے گواہوں کی جرح، ملزم کے بیانات اوردونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اے ٹی سی کے ٹرائل جج نے شکایت کنندہ کی کہانی کو مشکوک پایا۔
اپنے فیصلے میں جج نے قراردیا کہ نہ ہی شکایت کنندہ اورنہ ہی اس کے گواہوں نے اپنے بیانات میں گھرسے چوری ہونے والے زیورات اورکتنی مالیت کے کرنسی نوٹوں کی وضاحت کی ہے۔ وہ پانچ لوٹے گئے موبائل فونزاوران میں موجود سموں کی تفصیلات بتانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے یہ نہیں بتایا ہے کہ آیا وہ موبائل فون اوران کے سم کارڈزان کی متعلقہ کمپنیوں نے بلاک کیے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ کے پرندوں کو رکھنے کے لائسنس کی درستگی کے حوالے سے کیس سندھ ہائی کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے۔
عدالت نے کہا کہ جہاں تک ملزمان کا تعلق ہے، جو کہ سرکاری ملازم ہیں، کو انہوں نے کسٹمز ایکٹ 1969ء کی دفعہ 163 کے تحت شکایت کنندہ کو نوٹس دیا گیا تھا، اوراسے شکایت کنندہ کے ایک بھتیجے سانول نے وصول کیا تھا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ سیف اللہ نیازی، جنہوں نے نوٹس جاری کیا تھا، گھر کے دروازے سے واپس مڑ گئے، جہاں ان کی کسٹم ٹیم اس علاقے میں چھاپے کی نگرانی کررہی تھی۔
عدالت نے کہا کہ ان کے خلاف شکایت کنندہ بغیرکسی معقول ثبوت کے یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ ملزمان سیف اللہ نیازی اوررانا عظیم واقعی اس کے گھرمیں زبردستی داخل ہوئے تھے ۔
عدالت نے مزید کہا کہ شکایت کنندہ نے جان بوجھ کر کسٹم نوٹس وصول کرنے والے سانول کو اپنے گواہوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا، جس نے شکایت کنندہ کے کیس کو مشکوک بنا دیا ہے۔
اعلیٰ عدالتوں کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے، جج نے کہا کہ ثبوت کا بوجھ ہمیشہ استغاثہ پرہوتا ہے، اوریہ کہ دفاع پراسیکیوشن کے کیس کوغلط ثابت کرنے کا پابند نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، قانون کے قائم کردہ اصول کے مطابق شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News