
معاشی بدحالی، بڑھتی ہوئی مہنگائی اورعوامی سطح پرمایوسی کے باوجود مخلوط حکومت کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے، ’’کونٹین خان‘‘
پاکستان کی معیشت شدید زوال کا شکار ہے۔خیبرپختونخوا اوربلوچستان میں دہشت گردی عروج پر ہے۔تاہم، مرکزی حکومت کی توجہ سابق وزیراعظم عمران خان کی ’فکسنگ‘ پر مرکوز ہے۔ ہم 1970ء کی دہائی کے اواخر کا ایکشن ری پلے دیکھ رہے ہیں جب ملک کی سیاسی اشرافیہ جسے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف صف آراء ہوئی اور بالآخر انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اگرچہ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ وہ جان لیوا حملے سے بال بال بچ گئے، اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کا خان کو روکنے کا منصوبہ زور و شور سے جاری ہے۔ پنجاب میں سیاسی و آئینی بحران اس بات کا اشارہ ہے کہ عمران خان مخالف قوتیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کس حد تک جائیں گی۔
اگرحالیہ ہفتوں میں کیے گئے عوامی رائے عامہ کے متعدد سرویز کا جائزہ لیں تو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان (کم از کم 20 پوائنٹس کے وسیع فرق سے)اپنے مخالفین کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقبول ہیں،اور وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں ان کی پارٹی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں میں 70 فیصد سے زیادہ پر کامیابی حاصل کی۔ آزاد کشمیر میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی نے مقابلے میں دوسری بڑی جماعتوں سے زیادہ نشستیں حاصل کیں، باوجود اس کے کہ اس علاقے میں سیاست شروع کیے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔اور یوں، شکست کے خوف سے حکمران جماعتوں نے اب کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو 15ویں بار ملتوی کر دیا ہے اور 31 دسمبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے گریز کی کوشش کر رہے ہیں۔بے شک عمران خان ایک زبردست چیلنج پیش کرسکتے ہیں،ان کے مخالفین متحد اور ایک نکتے پر مرکوز ہیں کہ عمران خان کا سیاسی میدان سے خاتمہ کردیا جائے۔
طاقت کے روایتی مراکز پولیٹیکل انجینئرنگ کے پرانے، آزمودہ دستور العمل کی پیروی کررہے ہیں۔وہ عمران خان کو مشکلات میں ڈالنے کے لیے جوڑ توڑ، ناجائز ہتھکنڈوں اور سرکاری وسائل کے استعمال کا سہارا لے رہے ہیں۔عمران خان کے تمام مخالفین کو ایک اتحاد میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نو جماعتی پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) اور بینظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) بنا تھا۔ عمران خان کی دشمن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کی حمایت حاصل ہے۔
ان کی پارٹی میں تفریق پیدا کرنے کی کوششوں کے علاوہ دھمکی اور کردار کشی عمران خان کنٹینمنٹ پروجیکٹ کے دو اہم حصے رہے ہیں۔ جس کی نشانیاں یہ ہیں کہ عمران خان کو کسی نہ کسی الزام میں کم از کم مختصر مدت کے لیے عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، جس سے ان کے مخالفین کو اپنے آپ کو منظم کرنے کے لیے کافی وقت مل جائے گا۔ ان کے خلاف زیر التواء دو الگ الگ مقدمات میں عمران خان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) میں جمع کرائی گئی اپنے سالانہ اثاثوں کی تفصیلات میں ریاستی توشہ خانہ سے خریدی ہوئی قیمتی گھڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی ظاہر نہیں کی، اور سرکاری دستاویزات میں مبینہ بیٹی کا ذکر نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔عمران خان کے مخالفین کو امید ہے کہ ای سی پی اس بنیاد پر انہیں کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے سکتا ہے کہ وہ گھڑی کی فروخت سے ہونے والی آمدنی ظاہر کرنے میں صادق نہیں رہے۔ اس کا مقصد پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کے حوصلے پست کرنا اور اس کے ووٹ بینک کو ہر ممکن حد تک کم کرنا ہے۔ خاص طور پر پنجاب کے جنوبی اضلاع میں پی ٹی آئی کی منحرف سیاسی نامور شخصیات کی نئی سیاسی جماعت کے قیام کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ جہاں افراد سیاسی جماعتوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
جیسا کہ غیر مرئی ہاتھوں نے 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں پاکستان نیشنل الائنس اور اسلامی جمہوری اتحاد کی حمایت کی تھی،پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ اس اتحاد کو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہونے والی گفتگو کی خفیہ ریکارڈنگز کا آزادانہ بہاؤ موصول ہوا ہے، جنہیں بعد میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے عوام کے سامنے افشا کر دیا گیا۔ دریں اثنا، اعلیٰ عدلیہ سردمہری کا مظاہرہ کررہی ہے، درحقیقت حکومت کے ناقدین کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے سلسلے میں فعال ہونے میں کافی تذبذب کا شکار ہے، جیسا کہ ماضی قریب میں ہوا تھا۔ 1970 ءکی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک میڈیا مہم چلائی گئی، جس میں الزام لگایا گیا کہ وہ شراب پیتے تھے اور ان کی رکھیل تھی۔ امریکی صدر نکسن کے ساتھ پارٹی کرنے والی ان کی اہلیہ نصرت بھٹو کے پوسٹرز پورے ملک کی دیواروں پر آویزاں کیے گئے تھے، جو پاکستانی معاشرے کے قدامت پسند طبقوں کو بھٹو کے “غیر اخلاقی اور غیر اسلامی” طرز زندگی کے بارے میں پیغام دیتے تھے۔بے نظیر بھٹو کی ایڈٹ شدہ عریاں تصاویر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پنجاب میں تقسیم کی گئیں،کہانیاں شائع کی گئیں، کہ وہ منشیات میں ملوث تھی (اردو زبان کے ایک معروف میگزین نے کہانیاں شائع کیں جس میں ان پر چرس پینے کا الزام لگایا گیا تھا) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے طالب علمی کے زمانے میں ‘پلے گرل’ طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتی تھیں ، اس وقت پاکستان میں صرف پرنٹ میڈیا تھا۔اور اب عمران خان کے خلاف بھی ایسی ہی مہم چلائی جا رہی ہے۔حال ہی میں جنسی تعلقات کے بارے میں خواتین کے ساتھ ان کی مبینہ غیرمہذب گفتگو گردش کر رہی ہے، اور اس سے زیادہ باتیں سامنے آنے کا بھی امکان ہے۔
اب تک عمران مخالف تمام سازشوں کے چند ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکمران اتحاد کی معاشی لحاظ سے کارکردگی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ وزارت عظمیٰ کے آٹھ ماہ گزرنے کے باوجود شہباز شریف نے عام آدمی کو زیادہ ریلیف فراہم نہیں کیا ہے۔ معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران گندم کے آٹے کی قیمت دوگنی اور گوشت، انڈے، مرغٰ، مچھلی و دیگراشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم از کم 70 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ کارخانے بڑی تعداد میں بند ہو چکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ زوال کا شکار ہے، رواں برس جولائی سے اکتوبر تک منفی 2اعشاریہ9 فیصد ترقی کی شرح پوسٹ کر رہی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا برآمدی شعبہ ٹیکسٹائل سیکٹر گزشتہ ایک سال میں 25 فیصد سکڑ چکا ہے، اور 20 لاکھ سے زائد ٹیکسٹائل ملز کے کارکن بے روزگار ہو چکے ہیں۔
پی آئی اے، پاکستان ریلوے، پی ایس او وغیرہ جیسی سرکاری کمپنیوں کا مجموعی خسارہ 3اعشاریہ5 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے۔ رواں ماہ حکومت ریلوے ملازمین کی تنخواہیں بھی بروقت ادا نہیں کر سکی۔ قومی خزانے میں زرمبادلہ ذخائر نہیں ہیں۔ ملک تکنیکی طور پر نادہندہ ہے جیسا کہ بینکوں نے کسی بھی قسم کی درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے سے انکار کر دیا۔ انسولین جیسی ضروری ادویات کی قلت ہے، کیونکہ دوائیں بنانے والی کمپنیاں زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے خام مال درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔غیر ملکی پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں گزشتہ سال کے مقابلے رواں مالی سال میں تقریباً 10 فیصد کی کمی واقع ہونے سے معاملات مزید خراب ہورہے ہیں۔
معاشی بحران اور مہنگائی میں غیر معمولی اضافے کے باوجود عمران خان کے مخالفین نئے مینڈیٹ کے لیے عوام کے پاس جانے سے خوفزدہ ہیں۔ انتخابات کو اس وقت تک ملتوی کرنے کی کوششیں جاری ہیں جب تک کہ کوئی غیر متوقع ’’معجزہ‘‘ نہ ہوجائے اور لہر ان کے حق میں نہ آجائے۔ سینٹ کام کے سربراہ کے دورے کے بعد حکمران اشرافیہ کو امید ہے کہ جلد ہی امریکہ ان کی مدد کے لیے آئے گا اور آئی ایم ایف کو پاکستان کی دم توڑتی معیشت کے لیے اسٹیرائیڈز کی نئی خوراک جاری کرنے پر مجبور کرے گا۔ ہماری اشرافیہ امریکہ پر بھروسہ کرتی ہے اور چھٹکارا چاہتی ہے۔ آئی ایم ایف نے شہباز شریف حکومت سے کہا ہے کہ وہ 800 ارب روپے سے زائد اضافی ٹیکس وصول کرے تاکہ حکومت کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکے۔ حکومت مشکل صورتحال میں ہے۔ اگر یہ نئے ٹیکس لگاتی ہے، تو اس سے عوام میں اس کی ساکھ مزید خراب ہو جائے گی۔ اگر یہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں کرتی ہے تو بین الالقامی مالیاتی ایجنسی پاکستان کو وینٹی لیٹر سے اتار سکتی ہے، جس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔
اس وقت حکومت کے پاس بہت سے محکموں کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے فنڈز نہیں ہیں، لیکن اس نے ملک کے بڑے مرکزی دھارے کے میڈیا ہاؤسز کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اشتہارات پر دو ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ سوشل میڈیا البتہ حکومت کی راہ میں رکاوٹ ہے کیونکہ اس پر عمران خان کے حامیوں کا غلبہ ہے۔ حکومت سوشل میڈیا پر اختلاف رائے اور ناقدین کو دبانے کے لیے ایف آئی اے اور پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے سخت قانون کا استعمال کر رہی ہے۔ چند صحافی ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ کچھ کو خاموش کر دیا گیا ہے، جب کہ دیگر ایذا رسانی اور دھمکیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کی قید صرف ایک واقعہ ہے جو ان طاقتوں کے مجموعی طور پر دھمکی آمیز ناقدین کو ظاہر کرتا ہے جن کا ان دنوں سامنا ہے۔
اگرچہ ان تمام امکانات نے شہباز شریف حکومت کو غیر یقینی میں مبتلا کیا ہوا ہے، لیکن اشارے یہ ہیں کہ عمران خان حکومت کو قبل از وقت عام انتخابات کرانے پر مجبور کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ طریقہ کار کے مطابق یہ آئندہ برس نومبر کے آخر میں اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے پر منعقد ہونے والے ہیں۔چاہے اب ہو یا تب، طاقت کے مراکز کی حمایت یافتہ حکمران جماعتیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ عمران خان کبھی بھی اقتدار میں واپس نہ آئیں۔ 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ 1990ء اور 1996ء میں بے نظیر بھٹو کو بڑے پیمانے پر دھاندلی زدہ عام انتخابات کے ذریعے اقتدار سے باہر رکھا گیا اور بالآخر 2007ء میں راولپنڈی میں ایک دہشت گردانہ حملے میں انہیں شہید کردیا گیا۔
عمران خان 3 نومبر کو وزیر آباد میں جان لیوا حملے کی کوشش سے بال بال بچ گئے اور انہیں ایک اور حملے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت واضح طور پر ان کی صورتحال اچھی نہیں ہے، لیکن ان کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ اس سے بھی بدتر صورتحال ہو سکتی ہے۔ اقتدار کی سیاست میں جو چیز ان کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں عوام کی غیر متزلزل حمایت حاصل ہے۔ ماضی میں اشرافیہ رائے عامہ کو زیر کر کے اپنے روایتی ہتکھنڈے استعمال کرتی رہی۔ کیا وہ اس بار بھی ایسا کر پائیں گے اور سب سے زیادہ مقبول لیڈر کو سیاسی میدان سے باہر کر کے انتہائی ضروری سیاسی استحکام حاصل کر سکیں گے؟ یہ بحث جاری ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News