Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ہمیں یقینی طور پر ضمنی انتخابات کی صورت میں پنجاب میں ہمیں اکثریت حاصل ہو گی

Now Reading:

ہمیں یقینی طور پر ضمنی انتخابات کی صورت میں پنجاب میں ہمیں اکثریت حاصل ہو گی

رانا ثناء اللہ ، وفاقی وزیر داخلہ

ملک کی اعلیٰ ترین سیکیورٹی اور اور شاہانہ انداز کے حامل رانا ثناء اللہ کے جڑے تنازعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔انہیں ایوان شریف کے وفاداروں میں سے ایک کے طور پر پہچانا جا سکتا ہے، لیکن ان کے ناقدین کے نزدیک یہی وفاداری ان کی جمہوری ساکھ کو مشکوک بناتی ہے ۔ بالکل اُن تمام پہلے اور دوسرے درجے کے سیاست دانوں کی طرح مشکوک جو پاکستان کے کسی نہ کسی سیاسی خاندان سے منسلک ر ہے ہیں ، اور یہ صرف شریف خاندان سے وفاداری نہیں ہے جو انہیں اکثر مخالفین کی طرف سے ہدف تنقید بنا کر رکھتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رانا ثناء اللہ کو پاکستان مسلم لیگ( نواز) کے ’سخت آدمی‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔رانا ثنا 2014ء کے بدنام زمانہ ماڈل ٹاؤن فائرنگ کے واقعے کے مرکزی ملزموں میں شامل تھے جس میں پنجاب پولیس نے علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر سے غیر قانونی رکاوٹیں ہٹانے کے لیے آپریشن کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے ایک درجن سے زائد کارکن جاں بحق ہوئے تھے ،لیکن جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے، 8سال گزرنے کے باوجود اس ہولناک واقعے میں ملوث کسی بھی اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔

 پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ثناء اللہ پر 15 کلو گرام ہیروئن لے جانے کا الزام عائد تھا اور انہیں انسداد منشیات فورس کے ایک آپریشن میں گرفتار بھی کیا گیا تھا، جس کی سربراہی پاک فوج کے اہلکار کر رہے تھے۔تاہم 10 دسمبر کو اے این ایف کے دو اہلکاروں کی جانب سے موجودہ وزیر داخلہ کے خلاف الزامات ثابت نہ ہونے کے بعد رانا ثناء اللہ اس مقدمے سے بری ہونے میں کامیاب ہو گئے۔شہباز شریف کی کابینہ میں 39ویں وفاقی وزیر داخلہ کے طور پر، انہیں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف کسی بھی ممکنہ کریک ڈاؤن کے حوالے سے ایک انتہائی ضروری فرد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

رانا ثناء اللہ کو بطور صدر مسلم لیگ ن پنجاب کی قیادت بھی سونپی جا رہی ہے۔ بول نیوز نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے حالیہ صورتحال پر انٹرویو کیا ہے ، جسے قارئین کےلیے یہاں پیش کیا جارہا ہے:

Advertisement

سوال: اگر سابق وزیراعظم عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہیں تو حکومت کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

 جواب: راولپنڈی میں فلاپ شو کے بعد پی ٹی آئی لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہی۔ عمران خان نے مایوسی کے عالم میں (دو صوبائی) اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ اب عمرا ن خان یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ جلد ہی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی تاریخ دیں گے۔یہ بہت عجیب بات ہے اگر آپ نے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ لیا ہے تو انہیں تحلیل کر دیں۔ ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ جس اسمبلی کو بھی تحلیل کیا جائے گا وہاں انتخابات (نشستوں کے لیے)کرائے جائیں گے۔ اگر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اپنے استعفے جمع کراتے ہیں تو ہم ان حلقوں میں ضمنی انتخابات کرائیں گے۔ اس فیصلے تک پہنچنے میں ہمیں کچھ وقت اس لیے لگا کیونکہ ہم نے تمام آپشنز کا جائزہ لیا اور فیصلہ کرنے سے پہلے تمام فوائد اور نقصانات کو جانچا۔اب ہم ان حلقوں میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے بارے میں واضح ہیں جہاں اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، پنجاب اور کے پی اسمبلی میں انتخابات ہوں گے۔عمرا ن خان اب 17 دسمبر کی بات کر رہے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ہی فروری یا مارچ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ایک اور تاریخ دے دیں گے ۔

 ہمارا ماننا ہے کہ اگر وہ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ انہیں اسمبلیاں تحلیل کرنی ہوں گی تو انہیں اپوزیشن بنچوں پر آنا چاہئے اور اپوزیشن میں رہنے کا مزہ بھی چکنا چاہئے۔ پی ٹی آئی نے آج تک صرف ٹریژری بنچوں تک محدود رہنے کی کوشش کی ہے۔

سوال: عمران خان اس وقت عوام میں بے انتہا قبول ہیں اور ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھتے ہوئے وہ اگلے انتخابات میں بھی کلین سویپ کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔آپ ابھی سے یقینی طور پر کیسے کہہ سکتے ہیں پی ڈی ایم جماعتیں ضمنی انتخابات یا پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی؟

Advertisement

جواب: کوئی بھی نامعلوم سے واقف نہیں ہے، لیکن ہم ان حقائق اور چیزوں کی بنیاد پر تشخیص کرتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہم ان کو ذہن میں رکھ کر ہم پیش گوئیاں کرتے ہیں اور ہمارے سیاسی فیصلے اسی پر مبنی ہوتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس بار ایک غیر جانبدار سیٹ اپ ہوگا اور پی ٹی آئی کو وہ سہولیات میسر نہیں ہوں گی جو 2018ء کے انتخابات میں حاصل تھیں۔ 17 جولائی کو ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں انہیں وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔

دوسری طرف ہم شاید اس منفی پوزیشن میں نہ ہوں جس میں ہم 2018ء کے عام انتخابات کے وقت تھے، یا یہاں تک کہ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں، جس کے لیے ہمیں ٹکٹ جاری کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ہم نے اب اپنی کمزوریوں اور طاقتوں کا اندازہ لگالیا ہے اور اس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ درحقیقت ہم اس بارے میں نہ صرف پرُ امید ہیں، بلکہ یقین بھی رکھتے ہیں۔

سوال: اگر آپ کو پی ٹی آئی کی نا اہلی کے بارے میں اتنا یقین ہے اور آپ نے اندازہ لگایا ہے کہ آپ انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے تو آپ قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے عام انتخابات کا اعلان کیوں نہیں کر رہے؟

جواب: اگر پی ٹی آئی اقتدار میں ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیتی تو اب تک انتخابات ہو چکے ہوتے،لیکن وہ قومی اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہو کر حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں آکر استعفے دیں اور منظور کرائیں۔قومی اسمبلی کے انتخابات فوری نہیں ہوں گے۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات صرف اس صورت میں ہوں گے جب عمران خان ان اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں۔

ہم نے حکمت عملی خود بنائی ہے۔ ہم ان کی ساڑھے تین، چار سال کی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کریں گے، ان کے یو ٹرن اور متضاد بیانات عوام کے سامنے لائیں گے اور بتائیں گے کہ انہوں نے کرپشن کے خلاف اتنا واویلا کیا لیکن حقیقت میں وہ صرف سستی کرپشن میں مصروف عمل رہے۔ہم عوام کو یہ بھی بتائیں گے کہ پاکستان مسلم لیگ( نواز) کی انتخابی مہم کی قیادت میاں نواز شریف کریں گے اور انشاء اللہ ہم پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اگر ہم پنجاب میں جیت گئے اور اگلے پانچ سال کے لیے وہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے تو اکتوبر کے عام انتخابات کے نتائج بھی کچھ اسی طرح کے ہوں گے۔

Advertisement

سوال: کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ آپ کی پارٹی ناقص معاشی انتظام کی وجہ سے غیر مقبول ہو گئی جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور پاکستان بھر میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں؟ان حالات میں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ قبل از وقت الیکشن ایک اچھا آپشن ہے؟

جواب: نہیں ،ہم نے جو بھی سیاسی سرمایہ کھونا تھا وہ کھو دیا اور اب آنے والے دنوں میں ہم صرف اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔اس کے لیے ہمارے پاس حکمت عملی بھی مووجد ہے۔ سب سے پہلے انشاء اللہ ہم عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوں گے کہ ہم نے اپنی سیاست سے سمجھوتہ صرف پاکستان کو بچانے کے لیے کیا ہے کیونکہ جب ہم نے ملک سنبھالا تو معیشت تباہی کا شکار تھی۔اگر ہم نے یہ ذمہ داری نگران سیٹ اپ پر چھوڑ دی ہوتی تو ملک (اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں) دیوالیہ ہو جاتا۔

آج بھی اگر ہم وفاقی حکومت کو نگران سیٹ اپ کے حوالے کر دیتے ہیں تو اس حکومت اور ملک کےلیے شروع کے 90 دن انتہائی مشکل ہوں گے۔یہ طے ہے کہ عمران خان ملک مخالف اور ان کا ایجنڈ ریاست کے خلاف ہے ۔ وہ عملی طور پر ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لے جانے کے لیے ایک مہم اور تحریک چلانے میں مصروف ہیں ۔

سوال: عمران خان اور پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو جنرل باجوہ نے این آر او ٹو دیا تھا۔ وہ موجودہ عسکری قیادت سے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔یہ بتائیے کہ کیا وہ آپ کی نظر میں نئی عسکری قیادت کو اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

Advertisement

جواب: میں آپ کو دوٹوک الفاظ میں بتاتا چلوں کہ اسٹیبلشمنٹ پر کوئی دباؤ نہیں اور اب وفاقی حکومت پر بھی ان (عمران خان) کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اس کے جارحانہ رویے، بلیک میلنگ اور اس ملک کے دارالحکومت کو سیل کرنے جیسی دھمکیوں کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔میں یہ بھی بتادوں کہ ان کی اور تمام دھمکیاں قدرتی موت مرنے کے بعد دفن ہوچکی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کوئی شخص بھی اپنا بیانیہ ملک کے اداروں، موجودہ حکومت یا عوام پر زبردستی مسلط نہیں کر سکتا۔کوئی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی بلیک میلنگ اور دھمکیوں کا شکار نہیں ہوگی۔ وہ (اسٹیبلشمنٹ) اسے اگلے انتخابات کی تاریخ نہیں دیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور اسے ڈیفالٹ کی طرف لے جانے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں ۔

سوال: یہ بتائیے کہ سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف بنائے گئے مقدمات پر آپ کا کیا موقف ہے؟ پی ٹی آئی اسے سیاسی انتقام قرار دیتی ہے؟

جواب: یہ بالکل فضول بات ہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف مقدمات کسی سیاسی انتقام یا انتقام کا حصہ ہیں۔ مجھے یہ واضح کرنے دیں کہ اگر انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا تو ہم ان سے بدلہ کیوں لیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ اعظم سواتی نے دو اداروں یعنی فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنایا۔ان کے خلاف مقدمات سے وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہیں، لیکن یہ ہمارے اپنے ادارے ہیں اور ہم ان کے خلاف زہر نہیں اگل سکتے ۔اگر ہم ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے کا ارادہ رکھتے یا سیاسی انتقام میں دلچسپی رکھتے تو ہم ان کے خلاف عدالتی مقدمات بناتے اور ان پر ہیروئن رکھنے کا الزام لگاتے یا ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا۔عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو جعلی مقدمات بنانے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔

سوال: کیا حکومت اب بھی عمران خان سمیت اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے تیار ہے؟

Advertisement

جواب: جی بالکل ، ہم عمران خان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار ہیں، لیکن بات چیت غیر مشروط ہونی چاہیے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی دونوں جماعتوں کے درمیان اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ماضی  میں ایسی کوششیں پرویز خٹک، اسد قیصر، فواد چوہدری اور شاہ محمود قریشی نے بھی کی تھیں لیکن عمران خان نے ان کی ایک نہ سنی۔

سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فوج غیر سیاسی ہو چکی ہے اورآگے بھی غیر سیاسی ہی رہے گی؟

جواب: ہاں، مجھے امید ہے کہ یہ ادارہ غیر سیاسی رہنے کے اپنے عزم پر قائم رہے گا۔ یہ خود ادارے کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ غیر سیاسی رہے گا۔ یہ ادارے کی پالیسی ہے۔ فوج ایک منظم ادارہ ہے جہاں فرد کی پالیسی کام نہیں کرتی۔

سوال: ماضی میں آپ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں عام انتخابات کرانے کےلیے کے پی اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں اور قومی اسمبلی کےا سپیکر کو استعفے قبول کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی ۔کیا اب آپ کا موقف بدل گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟

Advertisement

جواب: ہاں اس حوالے سے میرے موقف میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ عام انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ صرف قومی اسمبلی کے نہیں بلکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی کرائے جائیں۔اس وقت سندھ اس حقیقت کے بارے میں 200 فیصد جب کہ بلوچستان 110 فیصد مثبت ہے اور یہ ایک درست دلیل ہے کہ انتخابات کے لیے حالات سازگار نہیں ۔انہیں یقین ہے کہ 6ماہ بعد ان کی بحالی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ لہٰذا اگر بلوچستان اور سندھ اسمبلیاں برقرار رہیں تو عام انتخابات نہیں ہو سکتے۔

سوال: یہ بتائیے کہ کیا نواز شریف اسی ماہ واپس آ رہے ہیں؟

جواب: وہ چاہے دسمبر میں آئیں یا جنوری میں آئیں۔ ، ایک بات واضح ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔ اگلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے پر وہ وطن واپس آئیں گے۔

سوال: وزیر اعلی ٰپرویز الہٰی کا کہنا ہے کہ جب بھی عمران خان انہیں ایسا کرنے کے لیے کہیں گے وہ اسمبلی تحلیل کر دیں گے، لیکن واضح اشارے یہ ہیں کہ وہ ذاتی طور پر ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔ یہ بتائیے کہ آپ کے خیال میں ان کا جھکاؤکس طرف ہے ؟

Advertisement

جواب: میرے خیال میں پرویز الہیٰ کے پاس کوئی اور آپشن اور پنجاب میں تیسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ صرف دو آپشن ہیں یعنی پی ٹی آئی اور ن لیگ ۔ المیہ یہ ہے کہ پرویز الہیٰ صاحب، مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر بالکل اعتماد نہیں کرتے ۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں ان کے پاس پی ٹی آئی کے ساتھ رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ بہر حال وہ اسمبلی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

سوال: کیا آپ کی 29 نومبر2022ء کو چین آف کمانڈ کی تقریب کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہوئی تھی ؟

جواب:یہ بالکل ٹھیک ہے ،میری ملاقات ہوئی تھی ۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ اسمبلیوں کے بارے میں کیا کرنے جا رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یہ اب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔میں نے ان سے براہ راست پوچھا کہ کیا وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے جا رہے ہیں؟ لیکن انہوں نے معاملہ ایک بار پھر اللہ پر چھوڑ دیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ نہیں کہا کہ وہ صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر دیں گے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
غزہ کے شہداء کو مفتی محمود کانفرنس میں خراجِ عقیدت پیش کریں گے، مولانا فضل الرحمٰن
بلاول بھٹو نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اہم اجلاس طلب کرلیا
ویمنز ورلڈ کپ، آسٹریلیا نے پاکستان کو 107 رنز سے شکست دے دی
افغانستان فٹبال ٹیم آج رات پاکستان پہنچے گی، کل کا پاک افغان میچ شیڈول کے مطابق ہوگا
لیفٹیننٹ کرنل جنید طارق اور میجر طیب راحت کی نماز جنازہ چکلالہ میں ادا
سعودی عرب کے کئی دورے کر چکا، حالیہ دورہ بالکل منفرد ہے،وزیراعظم
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر