Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

طالبان کا حقیقی چہرہ

Now Reading:

طالبان کا حقیقی چہرہ

افغان حکومت کی وزارت برائے اعلیٰ تعلیم نے خواتین کی یونیورسٹیوں پر پابندی کا اعلان کرتے ہوئے انہیں کلاسوں میں جانے سے روک دیا

گزشتہ ہفتے کے دوران پہلے سے الگ تھلگ افغانستان سے انتہائی پریشان کن خبریں سامنے آئیں کیونکہ امارت اسلامیہ افغانستان حکومت کی وزارت برائے اعلیٰ تعلیم نے خواتین کی یونیورسٹیوں پر پابندی کا اعلان کیا اور تمام خواتین کو کلاسوں میں شرکت اور یہاں تک کہ ملک میں جاری امتحانات میں شرکت سے بھی فوری طور پر روک دیا۔

 طالبان کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم شیخ مولوی ندا محمد ندیم کے دستخط شدہ خط میں تمام سرکاری اور نجی جامعات کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگلے نوٹس تک لڑکیوں کی تعلیم کی معطلی کے حوالے سے وزارت کو مثبت جواب دیں۔

پابندی کے نفاذ کے فوراً بعد، روتی ہوئی طالبات کے جذباتی مناظر نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی کیونکہ بدھ کے روز طالبات کو کمرہ امتحان سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ اس مسئلے کو مزید اجاگر کیا گیا کیونکہ کچھ جگہوں پر مرد طلباء اپنی ساتھی طالب علموں کی حمایت میں امتحانی مراکز سے باہر چلے گئے۔

Advertisement

 طالبان کے اس چونکا دینے والے فیصلے کی شدت صرف افغانستان کی حدود تک محدود نہیں رہیں، بلکہ اس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے ۔ عالمی سیاستدان، صحافی، خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنان سبھی نے سماجی رابطوں کے ویب سائٹس پر خواتین کے ساتھ طالبان کے سلوک  پر احتجاج اور مذمت کی ہے۔

اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئےامریکہ کے سابق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’طالبان کے اندر ایک دھڑے کی طرف سے خواتین کو اعلیٰ تعلیم سے محروم کرنا حیران کن اور ناقابل فہم ہے۔‘‘

 میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خلیل زاد نے کہا کہ ’’اسلام اور افغان تاریخ میں کسی بھی چیز نے خواتین کی تعلیم پر پابندی کے فیصلے کو درست قرار نہیں دیا۔ افغانستان اور دنیا بھر کے ممتاز اسلامی اسکالرز ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے بھی تعلیم ایک بنیادی اسلامی اصول ہے۔‘‘

اگرچہ خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی کے ممکنہ فیصلے کے بارے میں افواہیں اکتوبر کے آخری ہفتے سے ہی سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ تاہم، کابل میں مختلف طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران، زیادہ تر طالبان کسی فیصلے کی توقع نہیں کر رہے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ لڑکیوں کے اسکولوں کی بندش کے بعد افغانستان نے ایک ناپسندیدہ سبق سیکھا ہے۔

 وزارت تعلیم کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا تھا کہ’’ہاں، ایسے منصوبوں کے بارے میں بات ہو رہی ہے لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا غیر منطقی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ ہم خود اپنی ٹانگ میں گولی مارنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر مسلسل پابندی نے پہلے ہی ہمارے ملک کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا ہے جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‘‘

جامعات میں خواتین پر پابندی کا دفاع کرتے ہوئے وزیر تعلیم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹویٹر پر احادیث کے ساتھ جواز پیش کیا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ فیصلہ ان کا نہیں بلکہ امیر المومنین شیخ ہیبت اللہ اخونزادہ کا تھا جنہوں نے اس کا حتمی حکم دیا۔

Advertisement

مولوی ندا محمد ندیم نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’’لوگ خواتین کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے افغان بزرگوں اور خاص طور پر میرے خلاف اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پیغمبرِ اسلام نے بھی یہی حکم دیا تھا کہ اسلام عورتوں کو تعلیم کے نام پر فحاشی میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ خواتین تعلیم کے بجائے مردوں کے لیے کھیتوں میں ہل چلا رہی ہیں، وہ مردوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی پابند ہیں۔‘‘

اسی طرح، ٹویٹس کے ایک سلسلے میں، وزیر نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ بغیر شادی، چوری، ہم جنس تعلقات، غیر مہذب لباس، شراب نوشی، اور تعلیم کے نام پر خواتین کی بے حیائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ جب کہ ٹویٹس کے ایک اور سلسلے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’کوئی بھی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ قرآن پاک یا پیغمبرِ اسلام کے اقوال نے خواتین کے لیے عصری تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔ میں ان تمام نام نہاد مذہبی رہنماؤں کو چیلنج کرتا ہوں جو امیر المومنین کے فیصلے کے خلاف ہیں، سامنے آئیں اور اپنا دعویٰ ثابت کریں۔ ہم خالص اسلام چاہتے ہیں نہ کہ جس پر ترکی، سعودی عرب یا دیگر عمل پیرا ہیں۔‘‘

تاہم، طالبان انتظامیہ میں بہت سے لوگ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ حالیہ پابندی سے مایوس، کچھ طالبان غیر رسمی بات چیت میں اپنی حکومت کے فیصلے کو ’خودکشی‘ اور ’ایک اور اسامہ بن لادن‘ جیسی صورتحال قرار دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں ملک میں ان کی سابقہ حکمرانی کی قیمت چکانی پڑی تھی۔

 کابل میں طالبان کے ایک ذریعے نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ’’قندھار میں بہت سے لوگ اس فیصلے کا جشن منا رہے ہوں گے کیونکہ یہ ان کی طاقت کو ثابت اور کچھ نام نہاد بزرگوں کی انا کو مطمئن کرتا ہے۔ حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ ہماری تحریک میں شاید ہی چند لوگ اس فیصلے کو منظور کریں گے کیونکہ ہم اپنی خواتین کو تعلیم سے محروم نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہیں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘

 اس حقیقت کے باوجود کہ 23 مارچ 2022ء کو نافذ ہونے والی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ برقرار رہا، طالبان نے مسائل کو اس انداز میں حل کرنے کی بجائے کہ یہ سب کے لیے قابل قبول ہوتا؛ ایک اور قدم اٹھایا ہے جس سے دوستوں اور دشمنوں کے اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچتی ہے۔

 خواتین کی تعلیم پر نئی پابندی کے ساتھ، طالبان نے لفظی طور پر ’خود کو تباہ کرنے‘ کا بٹن دبا دیا ہے جسے صرف اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب طالبان کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ اپنے ہوش مندوں اور اپنے خیر خواہوں کی بات سنتے ہوئے اپنے اس فیصلے کو تبدیل کریں۔

Advertisement

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مصطفیٰ کمال کی ملاقات ، وزارت صحت کے منصوبوں پر بریفنگ
جاپان کی پہلی خاتون وزیراعظم سانائے تاکائچی کون ہیں ؟
بلوچستان کو فتنتہ الہندوستان کی لعنت سے نجات دلانے کےلئے اقدامات کر رہے ہیں، فیلڈ مارشل سید عاصم منیز
پاکستان کے معدنی ذخائر کی عالمی اہمیت، امریکی جریدے فارن پالیسی کا اعتراف
پنڈی ٹیسٹ: جنوبی افریقہ نے 333 رنز کے تعاقب میں 4 وکٹوں پر 185 رنز بنا لیے
پیٹرولیم مصنوعات کے بحران کا خدشہ عارضی طور پر ٹل گیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر