
’’کرپٹ پی ڈی ایم قیادت کے علاوہ پورا پاکستان عام انتخابات کے لیے تیار ہے‘‘
فواد چوہدری، رہنما پاکستان تحریک انصاف
جی ہاں، پورا پاکستان، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور ہمارے قائد عمران خان انتخابات کے لیے تیار ہیں اور اقتدار میں صرف کرپٹ حکمران ہیں جو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا حصہ ہیں۔ الیکشن کرانے سے ڈرتے ہیں اور ان سے گریزاں ہیں۔
میں اُنہیں یاد دلاتا ہوں کہ وہ ہمیں کہا کرتے تھے کہ خیبرپختواہ اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں تو انتخابات خود بخود ہو جائیں گے لیکن اب وہ پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ انتخابات سے خوفزدہ ہیں اور جانتے ہیں کہ ان کے چہرے (پی ڈی ایم کی قیادت کی صورت میں) عوام کے لیے لٹیروں کے چہرے ہیں اور ادارے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنے والی مافیا اور ان کی پشت پناہی کرنے والی عوام دشمن قوتوں کے ساتھ کھڑے نہ ہوں۔
آئین کا احترام کریں اور عوام کو اپنی حکومت منتخب کرنے کا حق دیں۔ اُن کا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرکے وہ انتخابات کو رکوانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے کیوں کہ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے نوٹیفکیشن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پرویز الٰہی اور صوبائی کابینہ اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔ گورنر کے خلاف صدر کو ریفرنس بھیجا جائے گا جب کہ انہیں عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
اگر اس اصول کو مان لیا جائے کہ گورنر کو اپنی صوابدید پر وزیراعلیٰ کو گھر بھیجنے کا اختیار ہے تو پھر صدر کے پاس بھی یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر وزیراعظم کو گھر بھیج سکتا ہے اور اٹھاون ٹو بی کو بحال کرنے کی کوشش راتوں رات ناکام ہوجائے گی۔
کیا کسی مہذب جمہوریت میں ایسا ممکن ہے؟ نہیں، یہ صرف پی ڈی ایم کے دور میں ہی ہو سکتا ہے، جب ایک منتخب گورنر کسی منتخب وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرتا ہے۔ کیا وزیراعلیٰ کا انتخاب گورنر کرتا ہے؟ یہ بات خود ظاہر ہے کہ اگر گورنر وزیراعلیٰ نہیں لگا سکتے تو انہیں کیسے ہٹا سکتے ہیں؟ گورنر صرف اس صورت میں وزیر اعلیٰ کو ہٹا سکتا ہے جب اسپیکر یہ رپورٹ کرے کہ اس نے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کیا۔ جب کسی نے ووٹ نہیں دیا تو گورنر ایسا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟
پی ڈی ایم حکومت کی معاشی مداخلت بے مثال ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے زرمبادلہ کے ذخائر کے اعدادوشمار جاری کردیئے۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کی وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے والے دن غیر ملکی ذخائر 16 ارب ڈالر تھے لیکن اب یہ 6 اعشاریہ 1 ارب ڈالر ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک چلانے سے قاصر ہیں کیونکہ معیشت تباہی کا شکار ہے اور ملک کو اس معاشی دلدل سے نکالنے کا واحد راستہ آزادانہ اور منصفانہ عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی قسمت کا دارومدار پنجاب اسمبلی کی قسمت پر ہے، ہم دونوں اسمبلیاں بیک وقت تحلیل کریں گے۔
ہم ان اسمبلیوں کو تحلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوسکیں جو ملک کی ترقی کا واحد راستہ ہیں۔
’’موجودہ حالات میں قبل از وقت انتخابات مناسب نہیں‘‘
قمر الزمان کائرہ، رہنما پاکستان پیپلز پارٹی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور عمران خان یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ عوام ان کی حمایت کرتے ہیں اور پاکستان مجموعی طور پر انتخابات کا خواہاں ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اگر عوام ان کا ساتھ دیں گے تو وہ ہمارا بھی ساتھ دیں گے اور دیگر جماعتوں کا بھی کیوں کہ وہ واحد جماعت نہیں ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہے۔
اصل سوال کی طرف واپس آتے ہیں، کیا پاکستان انتخابات کے لیے تیار ہے؟ اس کا جواب ’ناں ‘ میں ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال اس وقت عام انتخابات کو ممکن نہیں بناتی اور انتخابات منصوبہ بندی کے مطابق ہوں گے۔
پی ٹی آئی کے اس دعوے کی طرف واپس جائیں کہ ہم انتخابات سے ڈرتے ہیں اور گورنر پنجاب کا نوٹیفکیشن غیر آئینی یا غیر قانونی ہے، میرا جواب ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے فیصلے کے بارے میں کیا خیال ہے یا دوسرے اس کے اقدام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا اُن کا وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا فیصلہ آئینی ہے۔ ہاں چونکہ پرویز الٰہی صاحب یہ ظاہر کرنے میں ناکام رہے کہ اُنہیں ایوان کا اعتماد حاصل تھا، اس لیے ان کے پاس اب بھی وقت ہو گا کہ وہ یہ ثابت کریں کہ انہیں مطلوبہ تعداد میں اراکین کی حمایت حاصل ہے اور وہ پنجاب اسمبلی کے قائد ایوان کے انتخاب کے دن خود کو بچا سکتے ہیں۔
میں اس بات کو دہراتا چلوں کہ میڈیا کے کچھ حلقوں اور عام لوگوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلیاں تحلیل ہو جاتی ہیں تو پاکستان میں عام انتخابات ہوں گے، لیکن ایسی کوئی مجبوری یا آئینی تقاضا نہیں ہے۔
میں نے پہلے کہا تھا کہ ہم انہیں آئینی طریقے سے پنجاب اور خیبرپختوانخوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اگر وہ اسمبلیاں تحلیل کرنے میں کامیاب ہوئے تو ہم ان کے خلاف الیکشن لڑیں گے لیکن صرف ان دو صوبوں میں انتخابات ہوں گے اور باقی صوبے اپنی حکومتیں برقرار رکھیں گے۔
پی ٹی آئی کے اس دعوے کی طرف لوٹتے ہوئے کہ ہم الیکشن سے ڈرتے ہیں یا گریز کرتے ہیں، میرا جواب یہ ہے کہ ہم الیکشن سے ڈرنے یا گریز کرنے والے بالکل نہیں ہیں اور ہم پہلے دن سے ہی بار بار کہہ رہے ہیں کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے کیونکہ عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ پاکستان کے بہترین مفاد میں نہیں ہے۔
ہم صرف ایک فرد کی درخواست پر فوری انتخابات نہیں کرواسکتے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تمام مسائل سے نمٹنے کا واحد راستہ بات چیت ہی ہے۔
بدقسمتی سے عمران خان بہت زیادہ انا پرست ہیں اور مذاکرات میں شامل ہونے کو تیار نہیں ہیں اور وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ہی بات کریں گے۔ ہم اُنہیں تاریخ دینے کے بعد کیا بات کریں گے؟ کیونکہ جمہوریتوں میں کوئی مطالبات تو کر سکتا ہے لیکن بات چیت کے لیے پیشگی شرائط نہیں رکھ سکتا۔
’’پاکستان کے معاشی، عدالتی
اور سیاسی مسائل کا واحد حل اسلامی نظام ہے‘‘
سراج الحق، امیر جماعت اسلامی
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے پر متفق ہیں لیکن وہ دیگر ذاتی مفادات کی خاطر اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ کس کو حکومت کرنی چاہیے۔ وہ دونوں راولپنڈی کے گیٹ نمبر چار پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، جب کہ پنجاب کے تماشے نے پورے ملک کو تماشا بنا رکھا ہے
وزیر اعلیٰ راج ہو یا گورنر راج عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ سابق آرمی چیف پی ٹی آئی، پی ڈی ایم، اور پی پی پی کی حمایت کرتے ہیں اور فیڈر پہلے پی ٹی آئی کو دیا جاتا ہے اس کے بعد پی ڈی ایم کو دیدیا جاتا ہے جب کہ سابقہ اتحادی اور پی ٹی آئی اب فیڈر چھیننے کا رونا رو رہی ہے۔
اگرچہ تینوں فریق یکساں خیالات رکھتے ہیں لیکن مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ تینوں ہر حال میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ تماشا آج نہیں بلکہ باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ بداعتمادی یا عدم اعتماد کے نام پر کئی مہینوں سے جاری ہے۔ پی ڈی ایم، پی پی پی اور پی ٹی آئی کے ٹرائیکا نے ملک کی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کا خمیازہ عوام یا ہمارے مادرِ وطن کے سپوت بھگت رہے ہیں۔
خیبرپختونخواہ میں بدامنی کی موجودہ لہر انتہائی تشویشناک ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ نہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومتیں ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہیں۔ اس بے حسی اور نااہلی کی قیمت معصوم عوام ادا کر رہے ہیں۔ ذاتی انا اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
پرانے نظام کی حفاظت کے لیے اپریل میں نئے چوکیدار آئے۔ پی ڈی ایم حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی عوام کے حالات جوں کے توں رہے اور پالیسی کا تسلسل برقرار رہا۔ پی ڈی ایم، پی پی پی اور پی ٹی آئی نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔
جماعت اسلامی (جے آئی) ایک متبادل کے طور پر موجود ہے اور چور لٹیروں کی سیاست کا وقت گزر چکا ہے۔ ایماندار قیادت کی حمایت ضروری ہے۔ پاکستان ایک نوجوان قوم ہے لیکن اس پر ایسے لوگوں کی حکومت ہے جن کا کوئی کردار، نظریہ یا عقیدہ نہیں ہے۔ اس نظام کو بدلنے میں نوجوان بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس ملک کے معاشی، عدالتی اور سیاسی مسائل کا حل صرف اسلامی نظام ہی فراہم کر سکتا ہے۔
جماعت اسلامی ایک اسلامی نظام اور پارلیمنٹ کے دروازے عام شہریوں کے لیے کھولنے کے ساتھ ساتھ ایسی عدالتیں بھی چاہتی ہے جو غیر جانبدار ہوں اور دونوں فریقوں کو سنیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) کو بھی غیر جانبدار ہونا چاہیے تاکہ وہ انصاف کے ساتھ ثالث کے طور پر کام کر سکے جب کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی غیر جانبدار ہونا ہوگا اور کسی ایک کو دوست اور دوسرے کو دشمن سمجھنا نہیں چاہیے۔ اسے تمام جماعتوں کے ساتھ یکساں طور پر حسن سلوک سے پیش آنے کے علاوہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حمایت سے بھی گریز کرنا چاہیے۔
تاہم ایک فرد کو دو صورتوں میں غیر جانبدار نہیں ہونا چاہیے: جب ایک طرف کردار ہو اور دوسری طرف غدار، فرد کو کردار کا ساتھ دینا چاہیے۔
پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی سیاست اور حکمرانی نے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ ذاتی اور خاندانی مفادات پر مرکوز سیاست نے لوگوں کا جینا مشکل بنادیا۔ حکمران جماعتیں دعوے کرنے اور نعرے لگانے کی بجائے عوام کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کریں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News