ملک میں احتساب کے طریقہ کار پر ماہرین کا تبصرہ
سینئر ایڈووکیٹ راجہ عامر عباس قومی احتساب آرڈیننس (NAO) 1999 میں حالیہ ترامیم کے حوالے سے کہتے ہیں،’’ اس ملک میں احتساب کو بھول جائیں۔ یہ باب نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔”
NAO، 1999 وہ قانون ہے جو ملک کے اعلیٰ احتسابی نگران ادارے، قومی احتساب بیورو (NAB) کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس قانون میں پاکستان مسلم لیگ-نواز (پی ایم ایل-این) کی زیرقیادت مخلوط حکومت نے اپریل 2022 ء میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ترمیم کی تھی۔
راجہ عامر عباس کے مطابق، جو نیب پراسیکیوٹر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں، 2022 ء بدعنوانوں کے لیے “سنہری سال” ثابت ہوا ہے، جو ان کے بقول، کوئی نقصان برداشت کے بغیر )الزامات سے پیچھا چھڑانے میں (کامیاب ہوگئے۔
نیب قانون میں ترمیم کے نتیجے میں متعدد سیاستدان اور بیوروکریٹس اجتماعی طور پر کئی ارب روپے کی خوردبرد کے مقدمات میں نیب کے شکنجے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ترمیم شدہ قانون سے مستفید ہونے والوں میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کا خاندان، سابق وزیر اعظم نواز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان ، سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا، قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف، وفاقی وزراء بشمول احسن اقبال، خواجہ آصف اور درجنوں دیگر سیاستدان اور بیوروکریٹس شامل ہیں۔
فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے منی لانڈرنگ کیس میں صرف وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے خاندان پر 25 ارب روپے سے زائد کی خورد برد کا الزام لگایا تھا۔
جب شریف کابینہ حلف اٹھا رہی تھی تو اس کے 50 فیصد ارکان ضمانت پر تھے۔ تاہم سیاستدانوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مقدمات سیاسی طور پر قائم کیے گئے تھے اور انہوں نے کوئی بھی غلط کام کرنے کی تردید کی۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں درج کیے گئے۔
درحقیقت عمران خان کی حکومت اس وقت ختم کردی گئی جب کہ چند روز بعد ہی موجودہ وزیر اعظم پر ایف آئی اے کی جانب سے دائر منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہونے والی تھی۔
نیب کے سابق پراسیکیوٹر نے کہا کہ این اے او 1999 میں لائی گئی ترامیم کا مقصد 10 کے قریب جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد کے ارکان کو کلین چٹ دینا تھا۔
راجہ عامر عباس نے کہا کہ متنازعہ ترمیم سے قبل بھی نیب پلی بارگین کے ذریعے بااثر بدعنوانوں کو سہولت فراہم کرتا رہا ہے۔ تاہم حالیہ ترمیم کے بعد نیب چھوٹے چور کو بھی نہیں پکڑ سکتا۔
ترمیم شدہ نیب قانون کے تحت، بیورو 500 ملین روپے سے کم خورد برد کرنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔ ان مقدمات سے صوبائی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (ACE) کے ادارے نمٹیں گے۔
ACE ادارے براہ راست صوبائی حکومت کی کمان کے تحت کام کرتے ہیں اور اس لیے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ادارے آزادانہ طور پر کام نہیں کر سکتے۔
راجہ عامر عباس نے کہا کہ نیب نے اس سے پہلے گریڈ 16 اور 17 کے سرکاری ملازمین پر ہاتھ ڈالا لیکن کبھی طاقتور کا احتساب کرنے کی جرات نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ نیب پولیٹیکل انجینئرنگ اور سلیکٹیو احتساب میں بھی شامل رہا ہے لیکن اس کی تنظیم نو اور اوور ہالنگ کے بجائے حکمران اتحاد نے بیورو کو بے دانت کا ادارہ بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے پاس لامحدود اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔
ہمیں پارلیمنٹ، عدلیہ اور نیب سمیت تمام اداروں کی تنظیم نو کرنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی مسئلہ اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ کا ہے کیونکہ پارلیمان قانون بناتی ہے اور سٹیبلشمنٹاپنی ترجیح کے مطابق احتساب کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
سینئر وکیل نے کہا کہ نیب اور ایف آئی اے میں تقرریاں خالصتاً میرٹ پر ہونی چاہئیں۔ راجہ عامر عباس کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ سپریم کورٹ نیب قانون میں ترامیم کو کالعدم قرار دے گی۔
سابق وزیراعظم عمران خان، جو پی ٹی آئی کے چیئرمین بھی ہیں، نے نیب قانون میں ترمیم کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا ہے، جہاں یہ معاملہ ابھی تک زیر التوا ہے۔
تاہم، بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے، ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن نے ترامیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ نیب کو بغیر کسی الزام کے مشتبہ افراد کو 90 دن تک حراست میں رکھنے کے وسیع اختیارات حاصل تھے۔
ان کاکہنا تھا، “یہ ظالمانہ اختیار تھا۔ جس شخص کے خلاف آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں آپ اسے کیسے حراست میں لے سکتے ہیں؟ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کے خلاف تھا۔”
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے اور نیب وائٹ کالر کرائمز سے نمٹتے ہیں اور ایسے کیسز کی تفتیش کے لیے بہت سی معاون دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف محکموں اور بعض اوقات غیر ممالک سے بھی دستاویزات موصول ہوتی ہیں۔
بشیر میمن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے متعدد مقدمات کی سماعت کے دوران مشتبہ افراد کو 90 دن تک حراست میں رکھنے کے نیب کے اختیار سے استثنیٰ لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی مرحلے پر کسی مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، “پارلیمنٹ نے قوانین میں ترمیم کرکے درست کام کیا ہے۔ پہلے ہمیں شواہد اکٹھے کرنے چاہئیں، پھر الزام عائد کرنا چاہیے اور اس کے بعد مشتبہ شخص کو گرفتار کرنا چاہیے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ نیب قانون میں حالیہ تبدیلیوں سے احتساب کا عمل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
کسی مشتبہ شخص کے خلاف الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر نہیں بلکہ احتساب کے محکموں پر ہونی چاہیے۔ اس تبدیلی کے ساتھ، تفتیش کار اب کسی ملزم کے خلاف کوئی بھی الزام عائد کرنے سے پہلے مستعدی کے طریقہ کار کو اپنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے نے ہمیشہ دانشمندی سے کام لیا اور تمام شواہد کے ساتھ مقدمات تیار کیے۔ ایف آئی اے کے سابق سربراہ نے اس تصور کو بھی مسترد کر دیا کہ بااثر ملزمان ماضی میں کبھی نہیں پکڑے گئے۔
انہوں نے کہا، “ہم نے آصف علی زرداری، ان کے خاندان اور اومنی گروپ کے جعلی اکاؤنٹس کیسز کی تحقیقات کی تھیں۔ ہم نے دو سال تک دستاویزات جمع کیں اور پھر مضبوط مقدمات تیار کیے۔ وہ مقدمات ابھی تک عدالتوں میں ہیں اور اب تک ملزمان کی جانب سے اربوں روپے قومی خزانے کو لوٹائے جا چکے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں بشیر میمن نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف ایف آئی اے کا کیس کمزور ہے جس کا ملزمان کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ رمضان شوگر ملز کے کچھ ملازمین کے بینک کھاتوں میں رقم بنیادی طور پر کاروباری لین دین کے لیے تھی اور ہر تاجر ایسا کرتا ہے۔
’’ یہاں تک کہ میں نے اپنے ملازمین کو ایسے اکاؤنٹس چلانے کا اختیار دیا ہے کیونکہ میں ہر وقت کاروباری لین دین کے لیے ہر جگہ نہیں رہ سکتا۔ اگر میرا کاروبار مختلف شہروں اور صوبوں تک پھیلا ہوا ہے تو میں اپنے ملازمین کو اجازت دیے بغیر اپنے لین دین کا انتظام کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘
سابق اہلکار نے کہا کہ ایف آئی اے اس وقت بہت سے ہائی پروفائل کیسز سے نمٹ رہی ہے اور وہ بااثر ملزمان کے خلاف مقدمات درج کرنے سے پہلے شواہد اکٹھے کر رہی ہے۔
بشیر میمن نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا،”آنے والے دنوں اور ہفتوں میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔”
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News