
’’عالمی مالیاتی ادارے یا دوست ریاستیں کسی بھی ایسے ملک کو رقم فراہم نہیں کریں گے جن کی ادائیگی کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہو‘‘
محمد زبیر، سابق گورنر سندھ
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے منصوبے پر عمل پیرا ہونا صرف پہلے سے طے شدہ قرض کی قسط کے حصول کے لیے نہیں بلکہ یہ ہماری مالیاتی درجہ بندی کو بہتر بنانے کے لیے بھی ایک شرط ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے یا دوست ریاستیں کسی ایسے ملک کو رقم نہیں دیں گی جن کی ادائیگی کی صلاحیت پر سوالیہ نشان ہو۔ اس طرح ہمیں اپنی معیشت کے استحکام کو ظاہر کرنے اور بیرونی دنیا کو یہ بتانے کے لیے آئی ایم ایف کا امتحان پاس کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ادھار کی رقم واپس کر سکتے ہیں جب کہ یہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی، کسی بھی غیر ملکی کرنسی بانڈز کے اجراء اور عالمی تجارتی بینکوں اور دوست ریاستوں سے قرضے اور گرانٹ حاصل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کے منصوبے پر عمل درآمد سیاسی حکومت کے لیے واقعی مشکل ہے۔ ہمارے پاس ٹیکس وصولی کو بہتر بنانے کے اقدامات پر عمل درآمد کرنے، پٹرولیم لیوی کو بڑھانے اور بجلی وگیس کے نرخوں میں اضافے جیسے غیر مقبول فیصلے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کی اور دونوں فریقین نے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے عملے کی سطح پر اجلاس بلانے پر اتفاق کیا ہے۔ میں ابھی تاریخ نہیں بتاسکتا لیکن امید ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم جائزہ لینے کے لیے جلد پہنچے گی جس سے منصوبے کو حتمی شکل دینے کی راہ ہموار ہوگی۔ اس وقت ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ موجود نہیں کیوں کہ ہم شیڈول کے مطابق اپنی بیرونی قرضوں کی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں دبئی میں قائم ایک کمرشل بینک اور غیر ملکی کرنسی بانڈز کے خلاف ادائیگیاں کی ہیں۔ صورتِ حال واقعی مشکل ہے کیوں کہ ہمیں غیر ملکی کرنسی کے بحران کی وجہ سے خام مال کی درآمد میں مسائل کا سامنا ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 4 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی تاریخی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ اگر سب کچھ منصوبہ بندی کے مطابق ہوتا ہے تو میں موجودہ سہ ماہی کے دوران معاشی صورتحال کے معمول پر آنے کے بارے میں کافی پُرامید ہوں۔
’’آئی ایم ایف کو الوداع کہنے اور موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اپنی حکمتِ عملی وضع کرنے کا یہ مناسب وقت ہے‘‘
امیر العظیم، سیکرٹری جنرل جماعتِ اسلامی
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس جانا کبھی بھی اچھا آپشن نہیں تھا اور ہمیں اب بھی ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیوں کہ آئی ایم ایف ایک ایسا پھندا ہے جس نے ہمارے اسٹریٹجک اثاثے، خارجہ پالیسی، سیاست اور ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ آئی ایم ایف اور مغربی ممالک کی غلامی حکومت کی تبدیلی، امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی قید کے لیے بھی ذمہ دار ہے۔ عالمی طاقتیں ہمارے سول اور فوجی معاملات میں اثر انداز ہورہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو ایک طرف دھکیل کر خطے میں بھارتی تسلط کو تسلیم کرایا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کو الوداع کہنے اور موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اپنی حکمتِ عملی وضع کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ مغربی طرز پر پیش رفت محض ایک فریب ہے۔ ہمیں اپنی قوت کا ادراک کرنا چاہیے اور ملک کی پائیدار ترقی اور تعمیر کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرنا چاہئیں۔ پاکستان نے 60ء کی دہائی میں صنعتی انقلاب دیکھا جسے بعد میں قومیانے کی غلط پالیسی کی وجہ سے نقصان پہنچا اگر ہم نے 1960ء کی دہائی میں ترقی کی ہے تو ہمیں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے دور میں زیادہ آسانی سے ایسا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔حکمرانوں کو شاہانہ طرزِ زندگی اور پروٹوکول پر غیر ضروری اخراجات کم کرکے مثالیں قائم کرنی چاہئیں تاکہ لوگ ان کی پیروی کرسکیں۔ جو بالآخر سادگی اور خود انحصاری کی راہ ہموار کرے گی۔ اس سے اشرافیہ کو نقصان پہنچے گا جو آبادی کا محض دو فیصد ہے لیکن پوری قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ بڑے بڑے بنگلے اور لگژری گاڑیاں ضبط کرلی جائیں تو آپ کو چھ ماہ کے مختصر عرصے میں بتدریج بہتری نظر آئے گی۔ عملی طور پر پاکستان تقریباً ایک سال پہلے ڈیفالٹ ہو چکا تھا۔ ہمارے پاس مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے خام مال کی درآمد کے لیے بھی لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کے لیے ڈالر تک نہیں ہیں۔ بہت سی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور مزید خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔ پاکستان ڈیفالٹ کا اعلان نہیں کرے گا کیوں کہ یہ مغربی طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ وہ پاکستان کو ختم نہیں کرنا چاہتی بلکہ اسے آئی ایم ایف کے ذریعے قرضے دے کر اسٹریٹجک اثاثوں کو کنٹرول کرنے کے لیے غلام بنانے کی خواہاں ہیں۔ امریکہ ایک نئے ورلڈ آرڈر کا نفاذ چاہتا ہے جس سے دنیا پر مغرب کی بالادستی اور خطے میں ہندوستان کی ٹھیکے داری کو یقینی بنایا جائے۔
’’آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور نفاذ ناگزیر ہے لیکن ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کافی نہیں‘‘
مزمل اسلم، ماہرِ اقتصادیات اور سابق معاون وزیر اعظم
معیشت کبھی بھی اس مخلوط حکومت کی توجہ کا مرکز نہیں تھی۔ ان کا واحد ایجنڈا قومی احتساب بیورو (نیب) کے پروں کو کاٹنا اور ان پر قائم بدعنوانی کے مقدمات سے نجات حاصل کرنا تھا۔ ان میں معیشت کو چلانے کی سمجھ نہیں ہے۔ ان کا تعلق تو سڑکوں، پلوں اور دیگر منصوبوں کی تعمیر سے ہے جس کے ذریعے وہ پسِ پردہ پیسے بناتے ہیں۔ اتحادی حکومت کو گزشتہ دورِ حکومت کے مقابلے میں بہت بہتر معیشت ورثے میں ملی۔کورونا نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کافی مشکلات پیدا کیں لیکن بڑے مسائل کے باوجود گزشتہ حکومت نے معیشت، کاروبار اور صحت عامہ کو بچایا۔ اب، چند مہینوں میں موجودہ حکومت نے معیشت کو ٹھپ کرکے رکھ دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم کم ترین سطح پر آگئے اور اب ہمارے پاس لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کے لیے ڈالر تک نہیں ہیں۔ مخلوط حکومت نے پاکستان کو بیرونی اور معاشی محاذوں پر تنہا کردیا ہے۔ حکمران مشکل صورتِ حال میں پھنس چکے ہیں۔ وہ بیل آؤٹ پیکج کے لیے آئی ایم ایف کی طرف دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے اور اُنہیں عوامی مقبولیت کی پہلے سے کم سطح میں مزید کمی کا بھی خدشہ لاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسابقتی ترجیحات اور آئندہ انتخابات میں عوامی ردِعمل کے خوف کی وجہ سے وہ آئی ایم ایف پروگرام کے نفاذ کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ نہیں کرپارہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے سخت شرائط عائد کرنا غلط اقدام ہے۔ جو ٹیکس ریونیو کو مطلوبہ سطح تک بڑھانے کے لیے ایک منصوبہ اور مختلف اقدامات کے لیے فنڈنگ کا ذریعہ چاہتا ہے۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی قسط حاصل کرنے اور پھر دوست ممالک سے قرضے لینے میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن اخراجات میں کمی اور توانائی کے گردشی قرضے اور گیس وبجلی کے نرخوں میں اضافے جیسی شرائط کو پورا کرنے کی صلاحیت اور خواہش کا فقدان ہے۔ طویل مدتی معاشی نمو کے منصوبے کے بغیر مسلسل قرض لینے سے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوگا جو کہ ملک کے مفاد میں نہیں۔ عام طور پر ممالک قرض لیتے ہیں لیکن ان کی ادائیگی کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ تاہم، پاکستان میں صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ ہمارے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور ساتھ ہی معیشت سکڑتی جارہی ہے۔ موجودہ قرضوں کی ادائیگی اور مارک اپ کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ اس طرح آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جا کر پائیدار معاشی ترقی کے لیے ایک واضح اور قابلِ عمل ایکشن پلان دیا جائے اور تمام شرائط پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News