Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

دہشت گردی کی پرچھائی

Now Reading:

دہشت گردی کی پرچھائی

تحریک طالبان پاکستان کے تازہ دم ہونے کی وجہ سے پاکستان میں قیام امن پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے

کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) حکومتِ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیاں بند نہ کرنے کی صورت میں ان کے خلاف طاقت کے استعمال کے انتباہات سے بے خوف نظر آتے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے ملک میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ کردیا ہے، اور وہ اپنے ایجنڈے اور مقاصد کے بارے میں کافی واضح ہیں۔ پاکستانی قانون اور آئین کو غیر اسلامی اور پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کو مغرب کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں، اور اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب تک کہ وہ افغانستان اور مالاکنڈ ڈویژن سے متصل سابقہ قبائلی ایجنسیوں میں اپنی رٹ اور اپنے عقیدے کی تشریح کے مطابق ایک اسلامی ریاست قائم نہیں کرتے۔ دریں اثنا، اس کے ردعمل میں حکومتی اعلیٰ حکام کی طرف سے ملے جلے اشارے مل رہے ہیں، جو بیک وقت مذاکرات اور طاقت کے استعمال کی بات کر رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے اعلان کیا کہ ’’ریاست پوری طاقت‘‘سے تشدد کا سہارا لینے والی تمام طاقتوں کا مقابلہ کرے گی۔ افغانستان کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے قومی سلامتی کونسل نے خبردار کیا کہ کسی بھی ملک کو دہشت گردوں کو پناہ گاہیں اور سہولتیں فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، پاکستان اپنے عوام کی حفاظت کے لیے تمام حقوق محفوظ رکھتا ہے۔اس اجلاس کا انعقاد اسلام آباد پولیس کی جانب سے 23 دسمبر کو شہر میں خودکش بم حملے کی کوشش کو ناکام بنانے کے بعد کیا گیا تھا، جو کہ 2015ء کے بعد پہلا واقعہ ہے۔ ایک مشتبہ عسکریت پسند نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، اس عمل میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا جو اس کی تلاشی لے رہا تھا۔

قومی سلامتی کونسل کے اعلان کے ٹھیک ایک روز بعد ٹی ٹی پی کے ایک عسکریت پسند نے پنجاب کے ضلع خانیوال میں پاکستان کی اہم ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے دو افسران کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان جاری کیا، جس میں 3 نومبر کو ضلع خانیوال میں ایک ہوٹل کے باہر دو افسران، ڈپٹی ڈائریکٹر، آئی ایس آئی ملتان، نوید صادق اور ان کے ساتھی انسپکٹر ناصر بٹ کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ بعد ازاں پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں افسران نے مبینہ قاتل سے ہوٹل میں ملاقات کی اور اس کے ساتھ چائے پی، لیکن بعد میں جب وہ باہر نکلے تو وہ ان پر فائرنگ کرکے ہوٹل کی پارکنگ سے فرار ہو گیا۔خیال کیا جاتا ہے کہ مشتبہ شخص ایجنسی کا مخبر تھا۔

تاہم،ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافے کے باوجود حکومت پاکستان ایک جانب عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی اور دوسری طرف مذاکرات کے ذریعے کسی تصفیے پر پہنچنے کی امید میں ان سے بات کرنے کی پرانی دہری پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتی ہے۔ 2 دسمبر کو قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان کی افواج ٹی ٹی پی کے خلاف ایک بڑی زمینی اور فضائی کارروائی شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، جو عسکریت پسندوں کی ایک مرکزی تنظیم ہے، جس کے افغانستان کے حکمران طالبان کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ لیکن اس کے فوراً بعد حکومتی حلقوں سے ملے جلے اشارے ملنے لگے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے فوری اعلان کیا کہ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ تاہم، انہوں نے اس کے لیے یہ شرط رکھی کہ باغیوں کو پہلے اپنے ہتھیار پھینکنے ہوں گے اور پاکستانی قانون اور ملکی آئین کو قبول کرنا ہوگا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ  ٹی ٹی پی کو میز پر لانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہ کوششیں جاری رہیں گی۔

Advertisement

وزیر اعظم شہباز شریف کی 13 جماعتی مخلوط حکومت، جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اہم دو شراکت دار ہیں، جہاں تک دہشت گردی سے نمٹنے کا تعلق ہے،ان میں کچھ بڑے پالیسی اختلافات نظر آتے ہیں۔ جہاں مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی بات کی، وزیر خارجہ اور پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اتحادی حکومت ’’دہشت گردوں کو خوش کرنے کی پالیسی‘‘ ترک کر دے گی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابقہ حکومت نے اس کی پیروی کی تھی۔ بلاول بھٹو کا شارہ قبائلی عمائدین اور علما کے متعدد وفود کی جانب سے کابل میں ٹی ٹی پی کے ساتھ افغان طالبان کی سہولت کاری کے ساتھ فروری-مارچ 2022ء میں پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والی بات چیت کی جانب تھا۔

ٹی ٹی پی واضح طور پر اپنے خلاف فوجی کارروائی کے انتباہات سے درخور اعتناء برت رہی ہے۔ان کے حوصلے اتنے بلند ہوچکے ہیں کہ ایک حالیہ بیان میں گروپ نے سیاسی جماعتوں  پی پی پی اور پی ایم ایل ن کو متنبہ کیا کہ اگر وہ ٹی ٹی پی کے خلاف اپنے مؤقف پر قائم رہیں تو انہیں نتائج بھگتنا ہوں گے اور ان کے خلاف حملے شروع کر دیے جائیں گے۔ بیان میں کہا گیا کہ  ٹی ٹی پی کا جہادی میدان صرف پاکستان ہے اور ملک پر قابض اس کی سیکیورٹی فورسز جو مغرب کے کہنے پر ملک کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ ٹی ٹی پی نے کچھ عرصے سے کسی سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ گروپ کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اور شہباز شریف نے خود ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ کا اعلان کرکے اپنی جماعتوں کو اس تنازعے میں دھکیل دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بیان کا مقصد سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین اور کارکنوں کو دہشت زدہ کرنا تھا تاکہ حکومت کالعدم تنظیم کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے سے ہچکچائے۔

پہلے ہی ٹی ٹی پی کے اب تقریباً روزانہ ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں اضافے نے ملک کو تشدد کے ایک نئے دور میں دھکیل دیا ہے۔گزشتہ برس 28 نومبر کو ٹی ٹی پی نے باضابطہ طور پر سیکورٹی فورسز کے ساتھ جنگ بندی ختم کر دی تھی،جس پر نومبر 2021ء میں اتفاق کیا گیا تھا (جون 2022 میں اس کی تجدید کی گئی تھی)، حالانکہ جنگ بندی اور نام نہاد امن مذاکرات کے دوران یہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔. اگست 2021ء میں افغان طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 420 سے زیادہ حملے کیے ہیں، جن میں سے 141 حملے صرف گزشتہ تین ماہ میں ہوئے۔ اس نے کے پی کے اور بلوچستان کے مختلف حصوں میں مسلح حملوں، ٹارگٹ کلنگ، سڑک کنارے بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں سیکڑوں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو شہید اور زخمی کیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے اندر مہلک حملوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ دہشت گردی کے 67 فیصد واقعات کے پی کے میں، 31 فیصد بلوچستان اور باقی دیگر صوبوں میں ہوئے۔ کچھ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں اور ٹی ٹی پی کے درمیان اتحاد کی بھی اطلاعات ہیں۔

سابق افغان صدر اشرف غنی کے دور میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان حکومت اور بھارتی انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کی مشترکہ پشت پناہی سے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہی ہے۔ اور ایک بار جب افغان طالبان کابل میں اقتدار سنبھال لیں گے تو وہ پاکستان کی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں مدد کریں گے۔ یہ سوچ محض خواہش ثابت ہوئی۔ طالبان کے ہمدرد یہ دلیل دیں گے کہ ’اچھے‘ طالبان اور ’برے‘ طالبان ہیں اور یہ کہ افغان طالبان پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ بھی درست نہیں تھا۔ اور اب، موجودہ صورت حال کے باوجود افغان طالبان ان کے ملک میں مقیم ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے انکاری ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو زور دے کر کہا ہے کہ وہ صرف امن مذاکرات میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی حکام کو بتایا کہ انہوں نے اور ٹی ٹی پی نے افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف مل کر جنگ لڑی اور اب یقیناً اپنے سابق ساتھیوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے۔

پاکستان کی قیادت نے عندیہ دیا ہے کہ وہ کے پی کے میں، خاص طور پر شمالی اور جنوبی وزیرستان کے چار اضلاع، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف ایک بڑی زمینی کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس کی مدد سے افغانستان میں اس کے کیمپوں کے خلاف فضائی مہم چلائی جائے گی۔ درحقیقت، افغان روزنامہ ہشتِ سبحان نے رپورٹ کیا کہ صوبہ ننگرہار کے ذرائع نے جمعرات 5 جنوری کو بتایا کہ پاکستانی جنگجوؤں نے گشتہ ضلع کے آس پاس کے سلالہ محلے میں اہداف پر بمباری کی۔ یہ رپورٹ درست ہے یا نہیں، ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ فضائی حملے کا کافی امکان ہے اور افغانستان میں دہشت گردی کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے سرحد پار مشنز میں ڈرونز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم افغان طالبان نے ان رپورٹس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے طالبان کی وزارت دفاع نے اس بات کی تردید کی تھی کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین سے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان افواج اپنی علاقائی سالمیت اور آزادی کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔

بہر حال، پاکستان کو کارروائی کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے کیونکہ اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے، جس نے ٹی ٹی پی کے خلاف اس کی کارروائیوں کے لیے حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ 19 دسمبر کو ایک میڈیا بریفنگ میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ ٹی ٹی پی جیسے افغانستان میں مقیم دہشت گرد گروپوں سے لاحق ’’بڑھتے ہوئے خطرناک خطرے‘‘ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے پاکستانی دوستوں کے ساتھ شراکت کی ہے تاکہ پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال یا وسیع پیمانے پر اس چیلنج سے نمٹنے میں ان کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 2023ء کے امریکی بجٹ میں کانگریس نے پاکستان کو بارڈر سیکیورٹی میں مدد کے لیے سیکڑوں ملین ڈالرز کی فنڈنگ کی منظوری دی ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ پینٹاگون اور سی آئی اے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحد کے دونوں جانب ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے سیٹلائٹ اور ڈرون کے ذریعے جمع کی جانے والی خفیہ معلومات فراہم کریں گے۔ امریکہ مشتبہ ٹی ٹی پی عسکریت پسندوں اور القاعدہ جیسے دیگر عسکریت پسند گروپوں کے خلاف بھی ڈرون حملے کر سکتا ہے۔ لیکن جہاں حکومت دہشت گردی کو روکنے میں امریکی مدد کا خیرمقدم کرے گی، پاکستان میں بہت سے رائے ساز ہیں جو اس ممکنہ تعاون کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں امریکہ اسے اپنے اسٹریٹجک فوائد کے لیے خطے میں قدم جمانے کے موقع کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

Advertisement

ایک اندازے کے مطابق ٹی ٹی پی کے 7سے 10ہزار عسکریت پسند، اپنے خاندانوں کے 25ہزار افراد کے ساتھ افغانستان میں رہ رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ وہیں ختم نہیں ہوتا، ٹی ٹی پی کے پاکستان بھر میں  بھی متعدد سلیپر سیل ہیں۔ پورے ملک میں ہزاروں مدارس میں ان کے ہمدرد اور مذہبی سیاسی گروہوں میں سہولت کار ہیں۔ پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ لگانا اتنا مؤثر نہیں رہا جتنا کہ اس کی امید تھی۔ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند سرحد پار جانے کے لیے باڑ کو اکھاڑتے رہتے ہیں۔ تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم ہیں لیکن وہ اب بھی افغان طالبان کے ساتھ قریبی قبائلی روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشتبہ عسکریت پسندوں کا سراغ لگانا اور انہیں پکڑنا آسان نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس ایک وسیع سپورٹ نیٹ ورک ہے، جو انہیں بورڈنگ اور رسد فراہم کرتا ہے۔

صورتحال اس حقیقت میں مددگار نہیں ہے کہ پاکستانی حکومت طالبان کے نظریے کے خلاف ایک جوابی بیانیہ کو فروغ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی، جو معاشرے کے قدامت پسند طبقوں کے ایک بڑے حصے میں مقبول ہے۔ ریاست پر اشرافیہ کا قبضہ ہے، بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے۔ بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ ریاست سے مایوسی کی صورت حال طالبان جیسے بنیاد پرست گروہوں کے لیے بھرتی کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ پاکستانی طالبان کے خلاف متحرک کارروائیاں ان کو کمزور کر سکتی ہیں اور وقتی طور پر ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی شدت کو کم کر سکتی ہیں، لیکن اس مسئلے کو اس وقت تک مؤثر طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ عسکریت پسندانہ نظریات کے ذمہ دار دیگر عوامل دور نہ ہوں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی ریاست اور معاشرہ عسکریت پسندانہ نظریے کے خلاف طویل جدوجہد میں مصروف ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
چین کے ساتھ ٹرمپ کا تجارتی تعلقات ختم کرنے پر غور
امریکا میں بھارتی نژاد سابق اعلیٰ عہدیدار حساس دفاعی معلومات رکھنے پر گرفتار
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر