
اگر کوئی اسمبلی اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی تحلیل ہو جاتی ہے تو آئین کے مطابق ای سی پی اگلے 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے
رواں ہفتے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے ساتھ ہی دونوں صوبوں میں نگراں حکومت کے قیام کے لیے آئینی عمل شروع ہونے والا ہے، جو وہاں آئندہ انتخابات کرائے گی۔
اگر کوئی اسمبلی اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی تحلیل ہو جاتی ہے تو آئین کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان اس صوبے میں اگلے 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی سمیت دیگر اسمبلیاں تحلیل کرنے اور بیک وقت ملک بھر میں قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کو یقینی بنایا ہے۔
تاہم، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی قیادت نے ہنوز ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ عام انتخابات کی طرف جانے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت ملک میں انتخابات نہیں کرواتی تو ان کے پاس متبادل کیا ہے؟
کیا پی ڈی ایم پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری کی منظوری روک سکتی ہے؟ اور اگر وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس کے لیے ان کے پاس کیا راستے ہیں؟
ممتاز قانون دان اور آئینی ماہر بیرسٹر زبیر احمد نے اسے عدالتوں میں چیلنج کرنے کے آپشن کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ گورنر پنجاب یا اپوزیشن جماعتیں وزیراعلیٰ پنجاب کی سمری پر عملدرآمد روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کریں کیوں کہ کچھ بھی ہوجائے عدالتیں اس پر عمل درآمد نہیں کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے جس انداز میں اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری ارسال کی ہے وہ مکمل طور پر آئینی طریقہ کار ہے اور آئین انہیں آرٹیکل 112 کے تحت ایسا کرنے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔’’مجھے نہیں لگتا کہ عدالت اس معاملے کا عدالتی جائزہ لے سکتی ہے۔‘‘
ماضی میں عدالتوں کی طرف سے اسمبلیوں کی بحالی کے بارے میں پوچھے جانے پر بیرسٹر زبیر احمد نے کہا کہ اس وقت صورتحال مختلف تھی کیوں کہ اسمبلیاں گورنر یا صدر کے کہنے پر تحلیل کی گئیں۔ جس کے لیے عدالتوں نے اپنے عمل کا عدالتی جائزہ لیا اور تحلیل شدہ اسمبلیاں بحال کردی گئیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر اور گورنر کے اختیارات میں بہت حد تک کمی کردی گئی ہے جب کہ وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم کے اختیارات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔’’وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے موجودہ صورتِ حال میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپنے آئینی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی ہے۔‘‘
آئینی ماہر اظہر صدیق نے بھی اس موقف کی تائید کی۔ اُن کے مطابق پاکستان مسلم لیگ )ن( اور اپوزیشن جماعتوں کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری کو عدالت میں چیلنج کرنے کا کوئی جواز نہیں بچا۔’’وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے مکمل طور پر آئینی طریقے سے سمری گورنر کو بھجوائی ہے، انہوں نے کوئی غیر آئینی کام نہیں کیا۔‘‘
آئینی طور پر گورنر کے پاس وزیراعلیٰ کی سمری منظور کرنے کے لیے دو دن ہوتے ہیں کیوں کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔
ماہرین کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کو اسمبلی کی تحلیل روکنے کے لیے عدالت جانے کا راستہ نظر نہیں آرہا۔
پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ ’’اب وقت گزر چکا ہے۔‘‘
آئینی ماہر نے مزید کہا کہ ایسا اُس وقت ہو سکتا تھا جب تک وزیراعلیٰ نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو نہیں بھیجی تھی۔ ایک فعال وزیر اعلیٰ کے پاس اختیارات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ وزیر اعلی کے اختیار کو صرف اس صورت میں روکا جا سکتا ہے کہ جب ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو یا جیسا کہ حال ہی میں ہوا ہے کہ گورنر نے ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا۔ لیکن ایک بار جب اعتماد کا ووٹ لے لیا جاتا ہے تو وزیراعلیٰ کو اپنے تمام اختیارات واپس مل جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے حال ہی میں اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد گورنر کے پاس کوئی ایسا جواز نہیں چھوڑا جس کی بنیاد پر وہ وفاقی حکومت سے پنجاب میں گورنر راج لگانے کی سفارش کر سکیں۔
گورنر کی جانب سے سمری کو نظرثانی کے لیے واپس بھیجنے کے سوال کے جواب میں اظہر صدیق نے کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں۔ ’’آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق گورنر کو 48 گھنٹوں کے اندر وزیر اعلیٰ کی سمری منظور کرنی ہوتی ہے۔‘‘
نگراں حکومت کی تشکیل:
قانونی ماہرین نے واضح کیا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق آرٹیکل 224 (1A) کے مطابق گورنر کو نگراں کابینہ کا تقرر وزیراعلیٰ اور سبک دوش ہونے والی صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کرنا ہوگا۔
تاہم، حکومت اور اپوزیشن اس وقت آمنے سامنے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ متفقہ امیدواروں پر متفق نہیں ہوسکتے اور ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ عمران خان یا ان کی جماعت چاہے وہ ہو لیکن آئین میں اس کا حل موجود ہے۔
اگر وزیراعلیٰ اور قائد حزبِ اختلاف متفق نہ ہوں تو اسمبلی تحلیل ہونے کے تین دن کے اندر ان کی نامزدگیوں کو ایک کمیٹی کے پاس بھیجنا ہوگا جو کہ فوری طور پر اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ذریعے تشکیل دی جائے گی، جس میں حکومت اور اپوزیشن کے سبکدوش ہونے والے اراکین اسمبلی کے درمیان برابری کی بنیاد پر رکنیت شامل ہوگی۔
تاہم، اگر کمیٹی میں بھی تعطل آجاتا ہے تو نامزد امیدواروں کے نام دو دن کے اندر حتمی فیصلے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھیجے جائیں گے۔
یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف بالعموم اور چیف الیکشن کمشنر کے خلاف باالخصوص مسلسل تنقید کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے ای سی پی کے مقرر کردہ نگراں وزیر اعلیٰ کو کیسے قبول کیا جائے گا؟
کیا موجودہ صورتِ حال میں انتخابات ہی واحد راستہ ہیں؟
ماہرِ قانون اظہر صدیق کے مطابق پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ )ن(اور اپوزیشن کے پاس انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں اپوزیشن نہ تو اسمبلی کی تحلیل روک سکتی ہے اور نہ ہی آئینی طور پر ملتوی کر سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب واحد راستہ انتخابات ہی ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا انتخابات صرف دو صوبوں میں ہوں گے یا پورے ملک میں، اس کے جواب میں ان صحافی اور تجزیہ کار ضیاء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں تک محدود نہیں رہے گا۔’’میرے خیال میں کشمیر اسمبلی بھی ٹوٹ جائے گی۔‘‘ میں ملک بھر میں قبل از وقت انتخابات ہوتے دیکھ رہا ہوں اور یہ انتخابات قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے لیے ہوں گے۔
تاہم، آئینی ماہر اظہر صدیق نے کہا کہ آئین میں تمام اسمبلیوں اور سینیٹ کی مدت واضح ہے۔ ’’یہ اصطلاح اس وقت شروع ہوتی ہے جب ارکانِ اسمبلیوں میں انتخابات کے بعد حلف اٹھاتے ہیں اور آئین میں یہ نہیں لکھا کہ ملک میں تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی اسمبلی اپنی مدت باقیوں سے پہلے پوری کر لیتی ہے یا اسے تحلیل کر دیا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن صرف اس ایک اسمبلی کے لیے الیکشن کرواسکتا ہے۔‘‘
اظہر صدیق کے مطابق اگر قومی اسمبلی تحلیل نہ ہوئی تو الیکشن کمیشن 90 دنوں میں پنجاب میں قبل از وقت انتخابات کروائے گا۔ تاہم، ان کے خیال میں وفاقی حکومت پر پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کرانے کے لیے بہت زیادہ دباؤ ہوگا اور وہ اس دباؤ میں گر بھی سکتی ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News