
اپریل 2022 ء میں کثیر الجماعتی اتحاد کی طرف سے لائے گئے عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں اپنی بے دخلی کے بعد، سابق وزیر اعظم عمران خان سڑکوں پر نکل آئے۔ چونکہ معاشی صورتحال خاص طور پر غیرمعمولی سیلاب کی وجہ سے آنے والی تباہی کے بعد بگڑ گئی، تو اس تناظر میں عمران ایک مؤثر احتجاجی مہم کے ذریعے قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے موجودہ حکومت پر دباؤ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم سیاسی محاذ آرائی جاری ہے کیونکہ مخلوط حکومت قبل از وقت انتخابات کرانے کو تیار نہیں جب کہ عمران خان بھی مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں۔ مسلسل سیاسی رسہ کشی کا اثر معیشت پر بھی پڑا ہے جس کے بارے میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ نئے سال کے آغاز پر، بول نیوز نے چار سرکردہ ماہرین سے ان کی رائے لی کہ آیا ان کے خیال میں 2023ء میں بھی سیاسی محاذ آرائی اسی طرح جاری رہے گی۔۔
کیا 2023ء میں سیاسی محاذ آرائی بڑھنے کا امکان ہے؟
ظفر ہلالی
سابق سفیر،
سینئر سیاسی تجزیہ کار
مجھے نہیں لگتا کہ یہ تصادم جلد ختم ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس قسم کا تصادم جاری رہتا ہے تو پھر یہ تباہی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات جتنی جلدی ہوں گے ملک کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ میرے خیال میں یہ عوام کا مطالبہ ہے۔ جو لوگ اس مطالبے کے ساتھ کھیل رہے ہیں وہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ حالیہ سیلاب نے ایک ایسے ملک میں تباہی مچا دی ہے جو پہلے ہی کئی مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ سیلاب نے ہمیں تین یا چار سال پیچھے دھکیل دیاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے پچھلے 4 سالوں میں کوئی ترقی نہیں کی۔ اس صورت میں، لوگوں کے جذبات سے کھیلنا تباہی کا نسخہ ہے۔ پاکستان کے عوام جانتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ حکومت میں شامل لوگ وہ لوگ نہیں ہیں جو ایک عام آدمی چاہتا ہے۔
اس منظر نامے میں میرا بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ انتخابات اور ناگزیر کو کیوں ملتوی کر رہے ہیں؟ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا کوئی ذاتی مفاد ہے۔ یہ سوچنا تقریباً برائی ہے کہ جمہوریت میں مفاد پرست ہمیشہ عوام کے مطالبات کی نفی کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں اور ان پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر اس مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو ہمیں ایک وجودی خطرے کا سامنا ہے۔ تاہم، ہمیں صرف الیکشن نہیں بلکہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ضرورت ہے۔ اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں اور سب خوش ہوں تو اس صورت میں اپوزیشن کو یہ کہنے کے لیے کوئی اخلاقی دلیل نہیں بچے گی کہ اس کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا۔ اگر انتخابات منصفانہ نہیں ہوئے تو سچ کہوں تو مجھے روشن مستقبل نظر نہیں آتا کیونکہ ہم مزید دھچکے برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر سیاسی صورتحال جلد بہتر نہ ہوئی تو معیشت کو نقصان اٹھانا پڑے گا اور بالآخر ریاست پاکستان اور اس کے عوام کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
معاشی استحکام کے لیے سیاسی حالات کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ سوویت یونین کی مثال لے لیں۔ ان کے پاس بنیادی ڈھانچہ موجود تھا۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن جب معیشت ڈوب گئی تو سوویت یونین بھی ٹوٹ گیا۔ بڑے پیمانے پر اگر سیاسی محاذ آرائی اس سال بھی جاری رہی تو یہ پاکستان کے شہریوں کے لیے بہت برا ہو گا۔
زاہد حسین
معروف صحافی،
سیاسی تجزیہ نگار
میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی محاذ آرائی 2023 ء میں جاری رہے گی۔ مجھے صورتحال بہتر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ درحقیقت موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے معاملات اگلے سال مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی اگست 2023 ء میں اپنی مدت پوری کرے گی اور قبل از وقت انتخابات کشیدگی کو ختم کر سکتے ہیں۔ تاہم، مجھے تناؤ میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ یہ حقیقت میں شدت اختیار کر سکتا ہے، کیونکہ ہم انتخابی سال میں قدم رکھ رہے ہیں۔ ہم عمران خان کے مطالبے کے مطابق قبل از وقت الیکشن ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اور قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر سکتی ہے۔ تاہم، کسی بھی صورت میں، اس سال انتخابات اس وقت تک منعقد نہیں ہوسکتے جب تک کہ کسی قسم کی ہنگامی صورتحال درپیش نہ ہوجائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک غیر متنازعہ چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب جیسے اہم معاملات پر اتفاق رائے کے لیے اکٹھی نہیں بیٹھ رہیں جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کراسکے۔ اہم معاملات پر اتفاق رائے پیدا نہ ہوا تو آئندہ الیکشن بھی متنازعہ بن جائینگے۔ سب سے بہتر یہ ہوتا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کھلی گفتگو کی جاتی۔ عمران خان اسمبلی میں واپس جانے کو تیار نہیں، وہ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے دروازے بند کر رہے ہیں جن سے محاذ آرائی ختم ہو سکتی ہو۔ اگر وہ اس کے برعکس کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان کے ارکان اسمبلیوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں تو اس صورتحال میں مجھے سیاسی محاذ آرائی کا کوئی خاتمہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
پارلیمنٹ کو اختلافات دور کرنے کی جگہ ہونا چاہیے تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں عبوری حکومت پر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا جس کا قیام آئین کے مطابق پولنگ سے تین ماہ قبل ہونا ضروری ہے۔ اس صورتحال میں تعطل برقرار رہے گا۔ اس لیے مجھے سیاسی منظر نامے میں تناؤ میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ اس طرح کی محاذ آرائی کے ماحول میں انتخابات کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال الیکشن 2023ء میں ہونے چاہئیں۔ اس قسم کی اپوزیشن کسی نے نہیں دیکھی، جو اسمبلیوں میں بیٹھنے پر راضی نہ ہو اور نہ ہی مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہو۔ عوامی طاقت کا ہونا اچھی بات ہے لیکن سیاسی ہتھیار مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی
سینئرسیاسی تجزیہ کار
جمہوریتوں میں قانون ساز اسمبلیاں مقدس ادارے ہوتی ہیں۔ جاری سیاسی پولرائزیشن نے پاکستان کی پہلے سے کم زور جمہوریت کو مزید کم زور کر دیا ہے۔ 2008ء کے بعد سے تمام انتخابات، جو اسمبلیوں کا راستہ اور جمہوریت کی شرط ہوتے ہیں، متنازع رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت صرف نام کی ہے روح کی نہیں۔ بظاہر تین مرکزی کردار ہیں: حکومت، اپوزیشن اور ہمہ گیر اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ کا وزن اہم ہے لیکن اس میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ عدلیہ کے غیر آئینی اقدامات سے بھری پڑی ہے، جن کو مختلف بے ضرر اور قدرے ضرررساں وجوہات اور جواز فراہم کردیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جوڑ توڑ ان چاروں کے اشتراک سے ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سب کو متاثر کرتی ہے۔ اس رشتے کے دو مستقل اجزاء ہیں، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ، اور باقی دو زیادہ طاقتور اور دبتے ہوئے زمینی حقائق کی بدلتی خواہش کے مطابق حالت میں ہوتے ہیں۔ معمولی سے
اشارے پر ان کی پوزیشن بدل سکتی ہے۔ جاری سیاسی انتشار اسی کا ایک نصابی معاملہ ہے۔ اپوزیشن حکومت بن گئی، اور حکومت اپوزیشن بن گئی اور اس کے نتیجے میں اپوزیشن اب دو صوبوں پر قابض ہے اور اسے نقصان پہنچانے کے لیے سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی دھمکی دیتی ہے۔پاکستانی عوام کی اس سارے معاملے میں کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں یا نہیں؟ قبل از وقت انتخابات ہوں یا وقت پر انتخابات ہوں، سیاسی انتشار ختم نہیں ہوگی۔ اس سیاسی کہانی کا کوئی خوش کن انجام نہیں ہے جس میں چار اداروں کا باہمی تعامل شامل ہے: اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور جو بھی کسی وقت سب سے زیادہ متعلقہ اور قابل قبول ہو جاتا ہے اور جمود کو برقرار رکھتا ہے۔ اس طرح، جھگڑا برقرار رہتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت چرچل کے اس اقتباس میں سمیٹی ہوئی ہے، ’’جمہوریتیں سب کچھ آزمانے کے بعد صحیح کام کرتی ہیں‘‘۔ یہ ‘کوشش’ پاکستانی عوام کو بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ سیاست تضادات اور الجھنوں سے بھری پڑی ہے۔ باریک بینی سے جائزہ لینے پر اشرافیہ کی کسی بھی قیمت پر جمود کو برقرار رکھنے کی خواہش کا پتہ چلتا ہے۔ اس میں خلل پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کی سختی سے مزاحمت کی جاتی ہے، جس کا نتیجہ بعض اوقات خاتمے کی سیاست کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ عوام پیادے ہیں اور جمہوریت ایک بساط ہے۔ پاکستان ایک سیاسی ‘سرکستان’ ہے جہاں عوام احمق بنے ہوئے ہیں۔
احتشام الحق
معروف صحافی،
سیاسی تجزیہ نگار
ہاں یہ ہو سکتا تھا۔ مسلسل سیاسی لڑائی کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اداروں کی طرف سے کوئی مداخلت ہو سکتی ہے۔ تاہم، نئی فوجی قیادت نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ سیاسی جماعتوں سے اپنے اختلافات طے کرنے کی توقع کر رہے ہیں۔ عمران خان عسکری قیادت سے مداخلت کا کہہ رہے ہیں۔ لیکن عوام ان سے سوال کر رہے ہیں کہ وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ حال ہی میں بلاول نے وارننگ دی تھی کہ اگر عمران خان پارلیمنٹ میں واپس نہ آئے تو بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے۔ عمران خان نے اس وارننگ کا جواب دیا۔ دوسری طرف، لوگ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے تاخیری حربے خود پی ڈی ایم کے لیے نقصان دہ ہیں۔اسحاق ڈار واپس آئے لیکن ڈالر کے اتار چڑھاؤ یا معیشت کو سنبھال نہ سکے۔ آئی ایم ایف کی چار اہم شرائط ہیں اور بنیادی شرط سیاسی استحکام ہے۔ یہ حکومت کے لیے بھی نقصان دہ ہے جس کا خیال تھا کہ تاخیری حربے کارآمد ہوں گے اور سیاسی محاذآرائی کے نتائج برآمد ہوں گے، ایسا نہیں ہوا۔ معاشی طور پر صورتحال انتہائی مخدوش ہے، انتخابات پر لگ بھگ 50 ارب روپے خرچ ہوں گے جو حکومت برداشت نہیں کر سکتی۔ بین الاقوامی امداد بھی بہت دور ہے۔ لہٰذا ہمارے چاروں طرف بنیادی ڈھانچہ، جو پہلے ہی ناقص تھا، منہدم ہو رہا ہے۔ لوگ اجتماعی طور پر موجودہ حکومت کو اس خرابے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو تمام سیاستدانوں خصوصاً اقتدار میں رہنے والوں کے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔انہیں نہ پاکستان کی پروا ہے اور نہ پاکستانی عوام کی۔ جب تک ان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، وہ خوش رہتے ہیں۔ وہ اپنے ہی دنیا میں رہتے ہیں اور انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ جادوئی طور پر چیزیں بہتر ہوجائیں گی۔ مجھے 2023ء میں محاذ آرائی میں کمی نظر نہیں آرہی۔ اس وقت ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں، چاہے وہ ایران ہو، چین، افغانستان یا ہندوستان، اس لیے ہمارے پاس بہت سے مسائل ہیں جن کو حل کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں پختگی کی کمی نہیں، ان میں دیانت داری کی کمی ہے۔ اقتدار میں رہنے والے بے ایمان ہیں اور اس کا سب کو علم ہے۔ جس طرح معیشت زوال پذیر ہورہی ہے، وہ اپنی دولت میں سے حصہ نکال کر معیشت کو سہارا کیوں نہیں دیتے؟ کیونکہ ان کے ذاتی مفادات ہیں اور وہ ریاست کی پروا کیے بغیر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا حالات اور زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ بدقسمتی سے میں 2023 ء میں سیاسی محاذ آرائی کو جاری یا اس میں مزید شدت آتی ہوئی دیکھ رہا ہوں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News