سید عبدالرشید، جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی
سوال: کیا بلدیاتی انتخابات کے نتائج جماعت اسلامی کی امیدوں کے مطابق ہیں یا آپ کی توقعات سے بہتر؟
سید عبدالرشید: ہمارے حساب اور توقعات کے مطابق ہم ایک سو پچیس نشستوں پر کامیاب ہوئے اور تقریبا نتائج بھی ایسے ہی تھے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر نتائج تبدیل کر کے ہمارا مینڈیٹ چوری کرلیا جب کہ پیپلز پارٹی لیاری، ملیر اور کیماڑی میں دھاندلی کے ذریعے جیتنے میں کامیاب ہوئی۔
سوال: آپ کے خیال میں انتخابات میں کس حد تک دھاندلی ہوئی؟
سید عبدالرشید: اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سیاسی مشینری کا استعمال کیاجس کے تحت اپنے مراعات یافتہ آر اوز اور ڈی آر اوز کو انتخابی عمل میں ہی دھاندلی کے لیے تعینات کیا گیا۔ جنہوں نے بیلٹ پیپرز کئی یوسیز میں کارکنوں کو ایک رات پہلے دیے تھے جو انہوں نے الیکشن کے دوران بیلٹ باکس میں ڈالے اور پھر اس کے بعد انہوں نے گنتی کے عمل میں بھی دھاندلی کی۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی وہ طے کردہ مقاصد کو حاصل نہ کرسکے اس لیے بالآخر ان یوسیز کے نتائج تبدیل کر دیے جن کے دستخط شدہ فارم 11 اور 12 ہمارے پاس پہلے سے موجود تھے۔
سوال: پی ٹی آئی نے بلدیاتی انتخابات کو اہمیت نہیں دی، کیا انہیں احساس ہے کہ وہ کراچی کے ووٹرز کا اعتماد کھو چکے ہیں؟ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سید عبدالرشید: یہ بات بالکل واضح ہے کہ کراچی کسی بھی طرح پی ٹی آئی کی ترجیحات میں نہیں ہے اور نہ کبھی رہا ہے۔ کراچی کے عوام اب حقیقت جان چکے ہیں۔ کیوں کہ کراچی کے لوگوں نے 2018ء کے عام انتخابات میں اُنہیں مینڈیٹ دیا اور پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کی 16 نشستیں حاصل کیں لیکن اس کے باوجود وفاق کی جماعت نے کراچی کے عوام کو مایوس کیا۔ اب ان کے کارکنان اور ووٹرز دونوں ہی مایوس اور دیگر آپشنز کی تلاش میں ہیں۔
سوال: کراچی کے لوگوں نے ووٹ دے کر جماعتِ اسلامی پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا کیوں کہ اُن کی اُمید آپ سے وابستہ ہیں لیکن عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟
سید عبدالرشید: جماعتِ اسلامی نے تاریخی طور پر کراچی کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ عبدالستار افغانی کراچی کے میئر تھے اس دوران شہر میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے گئے اور یہاں تک کہ انہوں نے ایک مثال بھی قائم کی کہ معیاری ضلعی حکومت کو کام کیسے کرنا چاہیے، ان کے کام کو ملک بھر میں سراہا گیا۔ اسی طرح اہلیانِ کراچی نعمت اللہ خان کا سنہرا دور بھی دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت بھی شہر ابتر حالات سے دوچار تھا لیکن نعمت اللہ خان نے اسے دوبارہ پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ہمارے پاس قابل، تجربہ کار اور ایماندار ٹیم موجود ہے۔ جیسا کہ ہم نے ماضی میں آبی منصوبے مکمل کیے اور انشاء اللہ کے فور اور کے فائیو کو بھی جماعتِ اسلامی پایہ تکمیل تک پہنچائے گی۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبے بھی ہماری ترجیحات کا حصہ ہیں جب کہ کراچی کی عوام کے لیے ماس ٹرانزٹ منصوبہ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہوگا۔
سوال: پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد کے امکانات کتنے فیصد ہیں جب کہ ایسی صورت میں جماعتِ اسلامی کی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟
سید عبدالرشید: پی ٹی آئی اور پی پی پی اپنی پالیسی میں آزاد ہیں لیکن میں ایسا ہوتا نہیں دیکھ رہا کیوں کہ پیپلز پارٹی نے یہ بیانیہ قائم کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے بات نہیں کر سکتی جب کہ پی ٹی آئی پہلے ہی جماعتِ اسلامی کے مینڈیٹ کو تسلیم کر چکی ہے۔
سوال: پی ٹی آئی یا پیپلز پارٹی؟ جماعتِ اسلامی کس کے ساتھ اتحاد کرنے جارہی ہے؟
سید عبدالرشید: جہاں تک امکانات کا تعلق ہے تو ہمارے پاس تمام آپشنزز موجود ہیں لیکن ہماری شرط صرف یہ ہے کہ میئر شپ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور پی ٹی آئی پہلے ہی ہمارے ساتھ چلنے پر آمادگی کا اظہار کرچکی ہے جب کہ ہم نے پیپلز پارٹی کو بھی اپنی شرائط سے آگاہ کر دیا ہے تاہم ہم اپنا مینڈیٹ واپس کرنے کی صورت میں ہی پی پی پی کے ساتھ مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔
سوال: پاکستان پیپلز پارٹی کے اس بیانیے پر کہ کیا کراچی کے عوام نے آپ کو ووٹ دیے؟ اس کے باوجود آپ ان سے ہاتھ ملانا کیا غیر اخلاقی نہیں سمجھتے؟
سید عبدالرشید: ہم کراچی کی بہتری اور تعمیری ترقی چاہتے ہیں اور اس کے لیے ہم کسی کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیار ہیں۔ یہ ایک سیاسی عمل ہے۔ ہمارا موقف بھی واضح ہے کہ شہر کی ترقی صرف باتوں اور سیاسی تجزیوں سے زیادہ اہم ہے لہذا ہم شہر کی بہتری کے لیے کسی کے ساتھ بھی مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہم مثبت نتائج کے لیے پُرامید ہیں کہ شہر کی ترقی کا سفر شروع ہوگا۔
سوال: ایم کیو ایم طویل عرصے تک ضلعی حکومت میں رہی اور وہ ہمیشہ اختیارات کا رونا روتی رہی تو کیا آپ بھی ویسی ہی صورتحال میں ڈیلیور کر پائیں گے؟
سید عبدالرشید: ایم کیو ایم یہ جواز پیش نہیں کرسکتی کہ ان کے پاس اختیارات نہیں تھے۔ وہ صرف کام نہ کرنے کے ہتھکنڈے تھے بلکہ یہ تو وہ جماعت تھی جس کے پاس صوبے کی تو نصف نشستیں تھیں اور گورنر بھی ان ہی کا تھا۔ یہ وفاق اتحادی رہنے کے باجود عملی طور پر کچھ نہیں کرسکی۔ یہ سچ ہے کہ انفراسٹرکچر جیسا ہونا چاہیے ویسا نہیں ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے ضلعی حکومت کے نظام کو مسخ کردیا ہے اور اس حوالے سے ہماری ان سے طویل جنگ بھی جاری ہے لہذا ہم اس شہر کو درکار اختیارات واپس لیں گے اور ضرورت پڑنے پر قانون سازی کے ساتھ آگے بھی بڑھیں گے۔
سوال: ایم کیو ایم کے بلدیاتی انتخابات سے بائیکاٹ پر کیا آپ کی کیا رائے ہے؟
سید عبدالرشید: ایم کیو ایم کو شکست کے خوف سے انتخابی عمل سے راہ فرار اختیار نہیں کرنی چاہیے تھی کیوں کہ کئی مواقع ایسے بھی آئے جب ہم الیکشن میں اچھے نتائج حاصل نہ کر سکے لیکن اس کے باوجود ہم کبھی بھی سیاسی اور جمہوری عوامل سے نہیں بھاگے۔ ایم کیو ایم کے لیے مشورہ ہے کہ وہ شہر کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News