
حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے ڈالر کی آمد کے لیے غیر رسمی مارکیٹ منافع بخش نرخ پیش کررہی ہے
سرکاری اور کھلی منڈیوں کے زر مبادلہ کی شرح میں وسیع فرق نے غیر رسمی ذرائع کو فائدہ پہنچایا ہے، بشمول حوالہ اور ہنڈی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا زر مبادلہ کی شرح کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بظاہر ناکام ہو گیا ہے، کیونکہ بلیک مارکیٹ حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے کارکنوں کی ترسیلات زر کے تحت منافع بخش شرحیں پیش کررہی ہے۔
اس وقت انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قیمت میں 30سے 40 روپے کا فرق ہے۔ 18 جنوری 2022 ء کو انٹربینک فارن ایکسچینج مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں شرح مبادلہ تقریباً 229 روپے پر ختم ہوئی۔ دریں اثنا ڈالر بلیک مارکیٹ میں 260 سے 270 روپے کی شرح پر دستیاب ہے۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے کہا کہ حکومت نے مصنوعی طور پر ڈالر کے نرخوں پر حد لگا رکھی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’پاکستان میں ڈالر کی اصل قیمت 295 روپے ہے،‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ معاشی صورتحال ابتر ہو رہی ہے اور حکومت نے مناسب اقدامات نہ کیے تو نظام تباہ ہو جائے گا۔
فرق بڑھنے کی وجہ سے ملکی ترسیلات زر میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ برآمد کنندگان نے بھی اپنے ڈالر بیرون ملک رکھے ہیں اور وہ انٹربینک مارکیٹ میں شرح مبادلہ میں استحکام کے منتظر ہیں۔
موجودہ مخلوط حکومت رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران درآمدات پر پابندی لگا کر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 60 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ تاہم، اسی دوران کارکنوں کی ترسیلات زر اور برآمدی آمدنی میں بھی کمی دیکھی گئی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9اعشاریہ 09 ارب ڈالرکے مقابلے میں 60 فیصد کم ہو کر 3اعشاریہ66 ارب ڈالر ہو گیا ۔
ڈالر کے انخلا کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت نے درآمدات پر پابندی عائد کردی جس کے نتیجے میں درآمدی بل میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران درآمدات 23 فیصد کم ہو کر 31اعشاریہ38 ارب ڈالر رہیں، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی ششماہی میں یہ حجم 40اعشاریہ56 ارب ڈالر تھا۔
درآمدی پابندیوں اور ڈالر کی قیمتوں پر مصنوعی کنٹرول کی وجہ سے، زیر جائزہ مدت کے دوران برآمدات 15اعشاریہ13 ارب ڈالر کے مقابلے میں 6 فیصد گر کر 14اعشاریہ25 ارب ڈالر رہ گئیں۔
اسی طرح، پہلی ششماہی میں کارکنوں کی ترسیلات زر کی آمد میں 11 فیصد کمی واقع ہوئی، کیونکہ اسٹیٹ بینک کو زیر جائزہ مدت کے دوران 14اعشاریہ05 ارب ڈالر موصول ہوئے، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 15اعشاریہ81 ارب ڈالر موصول ہوئے تھے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ECAP) کے صدر ملک بوستان نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والے زرمبادلہ کے سرکاری اعدادوشمار میں کمی کی وجہ سے ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ روج پر ہے کیونکہ بڑی مقدار میں ترسیلات زر ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے پہنچ رہی ہیں۔ ملک بوستان نے دعویٰ کیا کہ پاکستانیوں نے اپنے لاکرز اور گھروں میں تقریباً 10 ارب ڈالر جمع کر رکھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت عوام سے ملک کے وسیع تر مفاد میں ان ڈالرز کو مارکیٹ میں لانے کی درخواست کرے تو مارکیٹ میں بہتری آسکتی ہے۔
ان کے بقول افغانستان کو ڈالر کی اسمگلنگ بھی بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی تاجر ماہانہ بنیادوں پر تقریباً 2 ارب ڈالر کی درآمدات کے ذریعے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (ATT) سہولت کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
ملک بوستان کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستان کو بہت زیادہ مالی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پاکستان سے ڈالر کا بڑا اخراج ہو رہا ہے۔ افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک کے تاجر اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔
اگر حکومت افغانستان کے ساتھ مقامی کرنسیوں میں تجارت کی اجازت دے تو پاکستان تقریباً 24 ارب ڈالر سالانہ بچا سکتا ہے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور درآمدات بڑھ کر 15000 کنٹینرز تک پہنچ گئی ہیں، جب کہ پہلے 3000 کنٹینر درآمد کیے جاتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے پاکستانی معیشت کو براہ راست اور ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
وفاقی حکومت نے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے متعدد پرتعیش اشیاء پر بھاری درآمدی ڈیوٹی عائد کر دی ہے۔ تاہم، ڈالر کی آمد میں اضافے اور ملک کے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کے درآمدی کور سے نیچے آگئے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 6 جنوری 2023 کو ختم ہونے والے ہفتے تک گر کر صرف 4اعشاریہ34 ارب ڈالر رہ گئے۔
اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 30 دسمبر 2022 ء کو 5اعشاریہ576 ارب ڈالر کی سطح سے 1اعشاریہ233 ارب ڈالر کم ہو گئے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق دسمبر 2022 کا درآمدی بل 5اعشاریہ16 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ مرکزی بینک کے بینچ مارک زرمبادلہ کے ذخائر اس سطح پر ہونے چاہئیں جو تین ماہ کے درآمدی بل کے مساوی ہوں۔
مرکزی بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 27 اگست 2021 کو ختم ہونے والے ہفتے تک 20اعشاریہ146 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔ اس وقت سے، اسٹیٹ بینک کے سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر میں 16اعشاریہ 803 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوچکی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے 18 جنوری 2022 ء کو تاجر برادری سے ملاقات میں اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے ہفتے سے غیر ملکی فنڈز کی آمد شروع ہو جائے گی۔
تاہم، انہوں نے اعتراف کیا کہ تقریباً 11000 درآمدی ادائیگی کے معاملات زیر التوا ہیں اور لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کھولے جانے کے لیے کلیئرنس کے منتظر ہیں۔
جمیل احمد کے مطابق، اسٹیٹ بینک زیرالتوا تقریباً 11000 کیسز کو نمٹانے کی کوشش کرے گا۔ غذائی مصنوعات، صنعتی خام مال، توانائی پیدا کرنے والی درآمدات اور زرعی خام مال کو ترجیح دی جائے گی، ایل سیز کھولتے وقت مرکزی بینک زرمبادلہ کی بدانتظامی سے متعلق اپنے نتائج شیئر کرے گا اور ضرورت پڑنے پر کمرشل بینکوں کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔ اور وہ ذاتی طور پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی کمیٹی کے ساتھ بات چیت کریں گے تاکہ جلد از جلد قراردادوں تک پہنچ سکیں۔
تاہم، تجارتی اور صنعتی حلقوں نے بندرگاہ پر LCs نہ کھلنے کی وجہ سے کنٹینرز کے پھنسے ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے ڈیٹینشن اور ڈیمرج چارجز کی مد میں بھاری نقصان ہورہا ہے۔
کسٹمز انفورسمنٹ ساؤتھ، کراچی کے چیف کلکٹر محمد یعقوب ماکو نے ایک تقریب میں کہا کہ ڈیمریج اور ڈیٹینشن چارجز کی وجہ سے بڑی تعداد میں ڈالر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے اپنے حالیہ دورہ کے دوران انہوں نے کہا کہ “ڈیمریج اور ڈیٹینشن کی وجہ سے ڈالر ملک سے باہر جا رہے ہیں اور ملک اس وقت ایک مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں ہم سب کو کردار ادا کرنا ہے۔” .
ڈیمریج اور ڈیٹینشن چارجز کی ادائیگی اوپن مارکیٹ سے غیر ملکی کرنسی کی خریداری کے ذریعے کی جا رہی تھی۔
کراچی کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن (کے سی اے اے) کے سابق صدر خرم اعجاز نے کہا کہ ڈیمریج اورڈیٹینشن چارجز کے لیے تاجر بلیک مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے تھے، کیونکہ ایکسچینج کمپنیوں کے پاس ڈالر کی کمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ایک طرف، اسٹیٹ بینک ڈالر کے انخلا کو روکنے کے لیے ایل سی کھولنے کی اجازت نہیں دے رہا تو دوسری طرف درآمد کنندگان غیر ملکی شپنگ کمپنیوں اور ٹرمینل آپریٹرز کو ڈیمریج اور ڈیٹینشن چارجز کے تحت ڈالر ادا کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر فراز الرحمان نے کہا کہ کنٹینرز کے پھنسے ہونے کی وجہ سے تاجر برادری کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی پالیسی میں واضح ہونا چاہیے کہ آگے کیا کرنا ہے اور تاجروں اور صنعت کاروں کے نقصانات سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ڈیمریج اور دیگر جرمانے بھی ڈالر میں عائد جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے تاخیر کے باعث زرمبادلہ کا نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان اقبال شیخ نے کہا کہ تاخیر کی وجہ سے بہت سے پریشان کن مسائل پیدا ہوئے ہیں، جیسے ڈیٹینشن چارجز، ڈیمریجز، صنعتی پیداوار کے لیے خام مال کی قلت، بڑے صنعتی یونٹس کی بندش، زرعی سامان کی سپلائی میں رکاوٹ، مشینری اور آلات کے اسپیئر پارٹس کی عدم دستیابی کی وجہ سے پلانٹس کی بندش، برآمدی آرڈرز کی عدم تکمیل، پیداوار میں کمی کی وجہ سے محصولات میں کمی اور بڑے پیمانے پر چھانٹیاں۔
ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ سے نمٹنے کے لیے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ڈالر کی شرح کو ‘ فکس‘ کرے اور کرنسی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کو کم کرے۔
ECAP کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے حکومت کو ایکسپورٹ امپورٹ بلز اور ترسیلات زر کے لیے روپیہ/ڈالر کی شرح تبادلہ طے کرنے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ان ترسیلات زر کو بینک اور منی چینجرز 240 روپے فی ڈالر کی مقررہ شرح پر لا سکتے ہیں۔‘‘
ظفر پراچہ نے تجویز پیش کی کہ حکومت تارکین وطن اور اندرون ملک ترسیلات زر کے لیے 240 روپے فی ڈالر کی شرح پیش کرے۔ اس اقدام سے ترسیلات زر میں اضافہ، ہنڈی اور حوالہ کو کم کرنے، سرکاری چینلز کو مضبوط بنانے اور بالآخر گرے مارکیٹ کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News