بول نیوز کا عام انتخابات سے قبل پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات کی صورت میں مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا )کے پی(کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کرانے کے لیے تین ماہ کے نگراں سیٹ اپ کا آغاز ہو رہا ہے لیکن کیا یہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی قیادت میں وفاقی حکومت کو ملک بھر میں عام انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور کرے گا جو پی ٹی آئی کے اس اقدام کے پسِ پردہ محرک نظر آتا ہے؟
جب منتخب پارلیمان تحلیل ہو جاتی ہیں اور نگران حکومتیں اقتدار سنبھالتی ہیں تو وہ 90 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کی پابند ہوتی ہیں. تاہم، باخبر حلقوں کے مطابق اس وقت ملک بھر میں عام انتخابات کا امکان نہیں کیوں کہ قانون کے تحت ایک اور لازمی ضرورت نئی مردم شماری اور عام انتخابات سے قبل مردم شماری کے نتائج کے مطابق انتخابی حلقوں کی دوبارہ حد بندی کرنے تک یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔
ایک اور آپشن یہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل دونوں متعلقہ صوبوں میں قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں تاکہ تقریباً ایک سال بعد باقی اسمبلیاں بھی اپنی آئینی مدت پوری کرلیں تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس دوران انتخابی عمل میں تقریباً 20 ارب روپے کے اضافی اخراجات آئیں گے اور جس کے نتیجے میں معاشی بحران کے دوران قومی خزانے پر بوجھ بھی پڑے گا جب کہ مردم شماری کے تازہ اعداد و شمار اور حلقوں کی حد بندیوں کی عدم موجودگی کے باعث انتخابات عوام کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے میں بھی مفید ثابت نہیں ہو سکتے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے بول نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے اتحاد میں پنجاب پر حکمرانی کرنے والی پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل-ق) کی جانب سے پانچ نئے اضلاع اور 10 نئی تحصیلیں یا صوبے میں انتظامی ذیلی تقسیم تو کی گئی لیکن کوئی متعلقہ انتخابی حلقہ مختص نہیں کیا گیا جب کہ مردم شماری کے تازہ اعداد و شمار کی عدم موجودگی میں بہرحال یہ ناممکن تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ای سی پی کے پاس اس طرح مذکورہ دو صوبوں میں انتخابات کے لیے 90 دن کی ڈیڈ لائن میں توسیع کرنے کا قانونی اختیار تھا۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر حامد خان نے قانونی شقوں کی وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ مردم شماری نئی حلقہ بندیوں کا باعث بنتی ہے لیکن یہ ایک عام شق ہے جس پر انتخابات کے مقررہ وقت پر انعقاد میں کوئی پابندی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کی شرط آئین میں بیان کی گئی ہے، اس لیے الیکشن کمیشن پرانی حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کی بنیاد پر اس مدت کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہو گا لیکن ’’مقررہ مدت کے اندر ایک یا دو اسمبلیوں کے فوری انتخابات کا انعقاد ناممکن نظر آتا ہے۔‘‘
کیا الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیں؟
کنور دلشاد ںے کہا کہ ای سی پی ایک با اختیار ادارہ ہے جو ضرورت پڑنے پر انتخابات کروا سکتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے اس نے جنوبی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے کچھ گروپس کے تحفظات کے باوجود اپنی دونوں جغرافیائی حدود کے لحاظ سے آبادی کی تبدیلی اور حلقہ بندیوں کے متروک ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات سے چند ماہ قبل ایک یا دو صوبوں میں انتخابات کا انعقاد ملک کے مختلف قانون ساز اداروں کے لیے مختلف اوقات میں الگ الگ انتخابات کرانے کی نئی نظیر قائم کرے گا۔
کنور دلشاد کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ اتحادی خود بھی قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتے کیوں کہ ’’وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب میں نئے اضلاع اور سب ڈویژن بنا کر فوری انتخابات کی راہ میں خود مسائل پیدا کیے۔ اب وہاں انتخابات اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک نئی حلقہ بندیوں کی حد بندی نہیں ہو جاتی۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو ڈیجیٹل مردم شماری کرنے کی تربیت دی جارہی ہے۔ تاہم ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام ابھی شروع نہیں ہوا اوراسے متحرک ہونے میں کم از کم تین ماہ لگیں گے اور اس دوران پنجاب میں 90 دنوں کے اندر انتخابات ممکن نہیں۔
تاہم، سینئر وکیل حامد خان کا نظریہ اس سے مختلف ہے۔ ان کے مطابق ایک بار جب کوئی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو اس اسمبلی کے لیے 90 دنوں کے اندر نئے انتخابات کرانا لازمی ہے اور اس پر آئین واضح ہے جب کہ اس مدت میں توسیع بھی نہیں کی جا سکتی۔
یہ درست ہے کہ نئے اضلاع میں ای سی پی کو مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرنی چاہئیں لیکن قانون کے تحت اس کو جواز بناکر انتخابات میں تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ یہ آئینی شق عمومی نوعیت کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مردم شماری کے پرانے نتائج اور حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ نیا تنازعہ کھڑا کرنے کے بجائے ای سی پی کو پنجاب میں مقررہ وقت پر انتخابات کروانے چاہئیں جیسا کہ اس نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے تحفظات کے باوجود سندھ میں کیا ہے۔
مردم شماری اور نئی حد بندی کیوں ضروری ہے؟
2017ء میں ہونے والی چھٹی قومی مردم شماری کے عارضی نتائج 3 جنوری 2018ء کو شائع کیے گئے اور اس کے مطابق ای سی پی نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے حلقوں کی حد بندی کی تھی جب کہ کے پی کے نئے انضمام شدہ اضلاع کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے آرٹیکل 51(5) کے تحت ایک بار کی چھوٹ دی گئی تھی۔
ای سی پی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 51 (5) اور الیکشنز ایکٹ 2017ء کے سیکشن 17 کے تحت حلقہ بندیاں آخری سرکاری طور پر شائع ہونے والی مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر کی گئیں۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سابق (فاٹا) کو آئین کی 25ویں ترمیم کے تحت کے پی میں ضم کر دیا گیا تھا۔ جس کے باعث اس کی قومی اسمبلی کی 12 مخصوص نشستیں ختم کرکے ضم شدہ اضلاع کی آبادی کی بنیاد پر کے پی اسمبلی میں چھ نشستیں شامل کر دی گئیں۔
اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 272 سے کم ہو کر 266 رہ گئی، یوں کے پی میں نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت پڑی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے ابھی تک مردم شماری کے نتائج شائع نہیں کیے گئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عہدیدار کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں اب ساتویں آبادی اور خانہ شماری کے شیڈول پر نظرثانی کی گئی ہے جب کہ ڈیجیٹل مردم شماری تو شروع ہی نہیں ہوئی، جس کا مطلب ہے کہ ای سی پی مختصر وقت کے اندر عام انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں نہیں کر سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کا عمل شروع ہونے کے بعد اسے مکمل ہونے میں چار ماہ لگیں گے اور پھر اس کے بعد ای سی پی کو حلقوں کی حد بندی کرنے کے لیے مزید چار سے چھ ماہ درکار ہوں گے۔ اس طرح ای سی پی کے پاس پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ موجودہ حلقہ بندیوں کی بنیاد پر بعد میں ہونے والے عام انتخابات کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔
درست شیڈول کے مطابق مردم شماری کا عمل یکم اگست 2022ء کو شروع ہونا تھا اور ابتدائی نتائج 31 دسمبر تک اور حتمی نتائج فروری 2023ء تک ای سی پی کے ساتھ شیئر کیے جانے تھے لیکن 2022ء کے آخر تک ای سی پی حکومت سے حتمی نتائج شائع کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسے عام انتخابات کی تاریخ سے کم از کم چار ماہ قبل اپنا ایکشن پلان تیار کرنا ضروری تھا۔
لیکن 2022ء کے اوائل میں ملک بھر میں سیاسی بدنظمی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔
کیا پنجاب اور کے پی کے انتخابات استحکام کو یقینی بناسکتے ہیں؟
سیاسی تجزیہ کار اور ماہرین پر امید نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک اس وقت دو الگ الگ عام انتخابات کرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ ’’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم دو قسطوں میں عام انتخابات کرانے کی صورت میں 20 ارب روپے اضافی خرچ کریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ انتخابات جمہوریت کا حصہ ہیں اور حکومت کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے جس میں پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیاں اور یونین کونسلز وغیرہ شامل ہیں اور اس پر پیسہ خرچ ہوتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سیاست دانوں کی یہ غیر ذمہ داری ہے کہ وہ صرف اپنی انا کی تسکین اور ذاتی مفادات کے لیے افراتفری پیدا کر رہے ہیں۔
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر زاہد کمال نے تجویز دی کہ تمام صوبوں میں ایک ہی وقت میں عام انتخابات کرائے جائیں لیکن اس وقت بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد دو صوبائی اسمبلیوں اور پھر بعد میں باقی اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوں گے لہذا ہم اپنے انتخابی عمل کو تین مرحلوں کی مشق میں پھیلا رہے ہیں جو پہلے سے ڈوبتی ہوئی معیشت کے لیے مناسب نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو پھر وفاقی حکومت کو چاہے کہ وہ باقی اسمبلیاں بھی تحلیل کر کے ایک ہی بار عام انتخابات کروالے۔
لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے۔ ’’اگر انتخابات اکتوبر-نومبر 2023ء میں شیڈول کے مطابق ہوتے ہیں تو حکومت سالانہ بجٹ میں اس کے لیے فنڈز مختص کر سکے گی لیکن اگر وہ ابھی ہی کرالیے جاتے ہیں تو انتخابات کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہوں گے اور حکومت کو انہیں ترقیاتی بجٹ سے کٹوتی کرکے نکالنا پڑے گا لیکن اس سے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔‘‘
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات معیشت کے علاوہ سیاسی مسائل میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔
سینئر صحافی فیضان بنگش کا کہنا ہے کہ پنجاب اور کے پی میں الگ الگ انتخابات دو بڑے سیاسی مسئلے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ’’پہلا چیلنج انتخابات کی شفافیت ہے، کیوں کہ ایک بڑی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہے اور اگر نتائج اس کی توقع کے مطابق نہ آئے تو افراتفری بھی پھیل سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے یاد دلایا کہ 2017ء میں انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لیے قواعد میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کے باوجود 2018ء کے انتخابات کے دوران ریٹرننگ افسران کا کردار اور الیکٹرانک رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کا رکنا اب بھی انتہائی قابلِ اعتراض ہے۔
فیضان بنگش کے مطابق دوسرا بڑا مسئلہ ’’انتہائی سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں پرامن انتخابات کا انعقاد ہے۔ اگر صرف دو صوبوں میں انتخابات ہوتے ہیں تو صورتِ حال مزید خراب ہوسکتی ہے اور خاص طور پر پنجاب میں تشدد کے امکانات بڑھ جائیں گے۔‘‘
ایسے انتخابات مستقبل میں تشدد کے علاوہ سیاسی تنازعات کو بھی جنم دے سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پہلے الیکشن میں اپنی متوقع نشستیں جیتنے میں ناکام رہنے والی جماعتوں کی جانب سے جیتنے والی کسی بھی جماعت کو عام انتخابات میں دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا جو کہ مہینوں بعد ہوں گے۔
اس کے علاوہ پنجاب میں ابتدائی انتخابات میں جیتنے والی جماعتیں عام انتخابات کے وقت ووٹرز کی ترجیحات پر بھی اثر انداز ہوں گی اور تمام سیاسی حریف اس سے واقف ہیں جو پنجاب کے انتخابات میں فتح کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں وہ نتائج کو متنازعہ بنانے کے لیے عوامی احتجاج کا سہارا لے سکتے ہیں۔ اس طرح سیاسی جنگ طول پکڑ سکتی ہے۔
قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات
کے منفی پہلو
اس حوالے سے احمد بلال محبوب نے کہا کہ “جب صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات ہوں گے تو قومی سطح پر کوئی نگراں حکومت نہیں ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ وفاق میں موجود سیاسی حکومت انتخابات پر سیاسی طور پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور پھر بالکل اسی طرح جب دس ماہ بعد ملکی سطح پر عام انتخابات ہوں گے تو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتیں اس وقت نگراں حکومتیں نہیں ہوں گی اس لیے وہ بھی عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہر پانچ سال بعد دو الگ الگ انتخابات کا طریقہ کار بھی مرتب کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اب پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جاتے ہیں تو اس عمل میں منتخب ہونے والی حکومتیں پانچ سال تک اقتدار میں رہیں گی۔ ایسا ہی معاملہ سندھ اور بلوچستان کی ایک وفاقی اور دو صوبائی حکومتوں کا ہوگا، جن میں تقریباً دس ماہ بعد انتخابات ہوں گے۔
کیا پاکستان میں اس سے پہلے کبھی ایسے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے؟
احمد بلال محبوب نے کہا کہ نہیں ہوئے تاہم قومی اسمبلی کے انتخابات ایک دن میں کرائے گئے جب کہ تین دن بعد چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گئے لیکن اس کی وجہ سے انتظامی اور مالی مسائل بھی اضافہ ہوا۔ جس کی وجہ سے حکام ایک ہی دن میں عام انتخابات کی مثال قائم کرنے پر مجبور ہوئے۔
لیکن اس طرح کی پابندیوں کو آئین میں شامل نہیں کیا گیا، اس لیے یہ نظریاتی طور پر ممکن ہے کہ مختلف اسمبلیوں کے انتخابات مختلف دنوں میں کرائے جائیں۔”البتہ بھارت میں پہلے تو ایک ہی دن میں الیکشن ہوا کرتے تھے لیکن پھر بعد میں علیحدہ علیحدہ ہونے لگے اور آج تک اسی طرح ہوتے ہیں تاہم ہمارے یہاں بھی ایسا ہی ہوگا اگر پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات عام انتخابات سے قبل اور تینوں پارلیمان کے الگ الگ انتخابات کرائے جائیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
