Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سندھ میں بلدیاتی اداروں کا مستقبل

Now Reading:

سندھ میں بلدیاتی اداروں کا مستقبل

سندھ میں  انتخابات نے ہمارے نظام کی خامیوں کو ظاہر کردیا

سندھ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات، انتخابی حدود کی حد بندی کے تنازعہ، ووٹرز کے کم ٹرن آؤٹ، بوگس ووٹنگ کی شکایات اور حتمی اعداد و شمار مرتب کرنے کے مرحلے پر نتائج کی تبدیلی نے ایک بار پھر ہمیں ہمارے انتخابی نظام کی سنگین خامیاں اور انتخابی عمل کی قانونی حیثیت اور مستحکم جمہوری عمل کی خاطر اس نظام میں اصلاحات لانے کی یاددہانی کرادی ہے۔ ایک عام خیال ہے کہ جمہوریت اس وقت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے جب زیادہ لوگ ووٹ ڈالیں۔ قومی انتخابات کے حوالے سے، پاکستان کو دنیا میں سب سے کم ووٹر ٹرن آؤٹ رکھنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن کراچی اور حیدرآباد کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں کسی بھی بلدیاتی انتخابات میں شاید اب تک کا کم ترین ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔

ہماری آزادی کو 75 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہم آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوا جس میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کارکن کراچی کے ایک پولنگ اسٹیشن پر جعلی ووٹ ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپرز پر مہر لگا رہے تھے۔ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ضلع کے ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں بعض مقامی وارڈز کے حتمی نتائج کی مبینہ تبدیلی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ مجموعی طور پر 20 سے زائد وارڈز کے نتائج کو متنازعہ کہا جارہا ہے۔ اس کی خاص اہمیت ہے کیوں کہ میئر کے انتخاب میں تعداد کی اہمیت ہوتی ہے۔ دونوں جماعتوں کا الزام ہے کہ ریٹرننگ افسر کی طرف سے جاری کردہ نتائج پولنگ اسٹیشنوں پر سرکاری طور پر دیے گئے نتائج سے مطابقت نہیں رکھتے۔ چھوٹے انتخابی حلقوں اور انتہائی کم ٹرن آؤٹ کے پیش نظر پولنگ ختم ہونے کے بعد ریٹرننگ افسران کی جانب سے انتخابی نتائج کے اعلان میں 24 گھنٹے سے زیادہ تاخیر کا جواز پیش کرنا یقیناً مشکل ہے۔

کراچی کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اس سے صوبائی حکومت کی اپنے کچھ اختیارات مقامی سطح پر منتقل کرنے کے حوالے سے گریز کی عکاسی ہوتی ہے۔ سندھ کے بلدیاتی نظام کے بارے میں کم سے کم بھی کہا جائے تو یہ غیرموثر ہے کیونکہ صوبائی حکومت کی جانب سے محض چند اختیارات بلدیاتی سطح پر منتقل کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، کراچی کی بلدیاتی حکومت کو ٹھوس فضلہ جمع کرنے یا شہر کے مکینوں کو پانی کی فراہمی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ اختیارات صوبائی حکومت کے انتظامی کنٹرول میں سرکاری محکموں کے ہاتھ میں ہیں۔ ہاؤسنگ اور شہر کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم صوبائی دائرہ اختیار میں ہے۔ اور حکمراں پیپلز پارٹی بلدیاتی نمائندوں کو یہ معمولی اختیار دینے اور بلدیاتی انتخابات کرانے سے بھی گریزاں ہے۔ پچھلی مقامی کونسلوں کی مدت 2020 ء میں مکمل ہوگئی تھی۔ دو سال تک صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کو منتخب لوگوں اور بیوروکریٹس کے ذریعے چلایا۔ اعلیٰ عدلیہ کے اصرار پر صوبائی حکومت نے ہچکچاتے ہوئے دو مرحلوں میں انتخابات کرائے۔ تاہم، کراچی اور حیدرآباد میں، جہاں حکمران جماعت کے ووٹوں کی تعداد بہت کم ہے، اس نے پولنگ سے ایک روز قبل دن گیارہ بجے تک انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ الیکشن کمیشن نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا اور حکومت کو یہ انتخابات کرانے پر مجبور کردیا۔

Advertisement

کراچی اور حیدر آباد ڈویژن میں 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے اعدادوشمار کا سرکاری سطح پر اعلان ہونا ابھی باقی ہے لیکن ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا جو پولنگ کی کوریج کر رہے تھے ، کا عمومی مشاہدہ یہ تھا کہ مختلف شہری علاقوں میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 سے 25 فیصد کے درمیان رہا۔تاہم، دیہی یا نیم شہری مضافاتی علاقوں میں ووٹنگ کی شرح نسبتاًزیادہ، 40 فیصد سے اوپر رہی۔ یہ حقیقت کہ اہل رائے دہندگان کی ایک بڑی اکثریت نے اپنا ووٹ ڈالنے سے گریز کیا، اس پوری انتخابی مشق پر ان کے عدم اعتماد کو ظاہر کرتی ہے جس کا واضح طور پر جھکاؤ کراچی اور حیدرآباد کے دو شہروں میں مخصوص برادریوں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف نظر آرہا تھا۔

کراچی اور حیدرآباد میں چار سے پانچ اہم امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا۔ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے علاوہ کئی آزاد اور دیگر چھوٹی جماعتیں بشمول جے یو آئی-ایف اور مہاجر قومی موومنٹ کچھ مخصوص وارڈز میں میدان میں تھیں۔ ایسے انتخابی نظام کے تناظر میں جہاں جیتنے والے کم ووٹوں سے فتح یاب ہوتے ہیں، حالیہ بلدیاتی انتخابات میں بیشتر حلقوں میں فاتح امیدواروں نے ہارنے والوں کے مجموعی ووٹوں سے کم ووٹ حاصل کیے۔ آئیے غور کریں، عام مشاہدے کے مطابق دونوں شہروں میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی 20 فیصد سے بھی کم تعداد نے اپنا ووٹ ڈالا۔ اس طرح، زیادہ تر منتخب کونسلرز کے پاس کل رجسٹرڈ ووٹرز کا 5تا 7 فیصد سے زیادہ کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ تو اس انتخابی مشق کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے، جب کہ جیتنے والے آبادی کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے؟

کراچی کی سیاسی جماعتیں مردم شماری کی خامیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں جن کی بنیاد پر وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور آبادی کی بنیاد پر ان خطوں کے لیے مختص ہونے والے فنڈز اور ملازمتوں میں ان کے جائز حصے سے محروم کرنے کے لیے شہر میں آبادی کو کم شمار کیا گیا۔ مزید برآں، صوبائی حکومت نے مقامی حلقوں یعنی وارڈز، کی غیرمنصفانہ حد بندی اس انداز میں کی ہے کہ اردو بولنے والی آبادی والے علاقوں کی بلدیاتی اداروں میں نمائندگی کم ہے۔ یہ اپنی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے حد بندیوں میں من پسند تبدیلی کی بدترین مثال ہے۔ کراچی میں اردو نہ بولنے والی برادریوں کا ایک حلقہ یعنی ایک وارڈ اردو بولنے والی (مہاجر) برادری کے وارڈز کے مقابلے میں تین گنا کم آبادی پر مشتمل ہے۔ دوسرے لفظوں میں مہاجر برادری کے تین ووٹ غیر مہاجر برادریوں کے ایک ووٹ کے برابر ہیں۔ ظاہر ہے کہ صوبائی حکومت کا مقصد مخصوص علاقوں سے منتخب ہونے والے کونسلرز کی تعداد کو کم کرنا تھا۔ اس سے فرق پڑتا ہے کیونکہ یونین کونسلوں کے چیئرمین شہر کے میئر کا انتخاب کریں گے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے، جس کے ووٹرز کی اکثریت اردو بولنے والی مہاجر برادری پر مشتمل ہے، نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ نتیجتاً ووٹنگ کے دن ووٹروں کی بہت کم تعداد نے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کیا۔

کراچی میں وارڈز کی غیرمنصفانہ حد بندی ووٹوں کی برابری کے بنیادی اصول کے خلاف ہے اور بلدیاتی حلقوں کی حد بندی کرتے ہوئے اتنے بڑے پیمانے پر ووٹوں کی برابری کے اصول کی خلاف ورزی کا نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ نے نوٹس لیا۔ صرف انتہائی خاص حالات میں الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 20(3) ای سی پی کو آبادی میں 10 فیصد کمی بیشی کو نظر انداز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کراچی یا شہری سندھ کی بات ہو تو قومی ادارے آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے میں انتظامیہ کے بے دریغ استعمال کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حیدر آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے کونسلرز کی ایک غیرمعمولی تعداد، یعنی تقریباً 34 فیصد، بلامقابلہ جیت گئی۔ ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ کا تعلق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔ 2015 ء کے بلدیاتی انتخابات میں صرف 16 فیصد امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ دیہی علاقوں میں، انتظامی مشینری کو امیدواروں کو مبینہ طور پر حکمراں جماعت کے نامزد امیدواروں کے حق میں دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دباؤ سے انکار کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا اور انہیں پولیس کی جانب سے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کے ضلع ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں ایک سال قبل لاگو کیے گئے سخت معیارات کو بھول کر سندھ میں پیپلز پارٹی کو کھلا میدان دے دیا ہے۔

حکمراں پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی قانون میں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کی اور اپنے مفادات کی مناسبت سے سرکاری ملازمین کی تقرریاں کیں۔ اب مقامی حکومتوں کے ہاتھ میں ایک قسم کا جاگیردارانہ اختیار آگیا ہے۔ سب سے پہلے، صوبائی حکومت نے قانون میں کئی بار ترمیم کی تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ مقامی حکومتوں کو بنیادی اختیارات سے محروم کر دیا جائے گا اور مقامی حکومتیں اس کے صوبائی اختیار کے رحم و کرم پر رہیں گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اب سندھ کے بلدیاتی نظام میں ایک وارڈ کے پانچ براہ راست منتخب ہونے والے ممبران خواتین، مزدوروں یا کسانوں کے لیے مخصوص نشستوں پر وارڈ کے چھ دیگر اراکین کا انتخاب کریں گے۔ 2002 ء کے بلدیاتی نظام میں یہ نشستیں براہ راست انتخابات کے ذریعے پُر کی جاتی تھیں۔

Advertisement

سندھ کا بلدیاتی نظام اور جس طرح کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے ہیں وہ اس بات کی ایک خصوصی مثال ہے کہ کس طرح ہر شہری کے لیے برابری اور سماجی، معاشی اور بنیادی حقوق کی ضمانت دینے والی آئینی شقوں کی اشرافیہ کے حق میں کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہے۔ بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیر تسلط معاشرے میں، نتائج کو عام آدمی کی مرضی برخلاف تبدیل کردیا جاتا ہے جو ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی اتھارٹی کو چیلنج نہیں کر سکتے، اور جو تھوڑی بہت قانونی گنجائش عام لوگوں کے لیے بچتی ہے، اس سے محروم کرنے کے لیے بے انصافی پر مبنی ننگے قوانین اور انتظامی اختیارات کا استعمال حالات کو خراب تر کردیتا ہے جیسا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات سے ظاہر ہوا ہے۔ یہ انتخابات گورننس کو زیادہ شراکت دار بنانے کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے بجائے شہری سندھ کی ایک بڑی اکثریت کو مزید الگ کر دیں گے۔ جس طرح سے یہ انتخابات کرائے گئے ہیں وہ آنے والے دنوں میں شہری علاقوں میں مستقل بنیادوں پر بدامنی کا ایک نسخہ ثابت ہوں گے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
تمباکو اب بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، ترجمان صدر مملکت مرتضیٰ سولنگی
صدر مملکت سے وزیراعظم کی اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر