
مسلسل سیاسی عدم استحکام پاکستان کو خطے اور اس سے باہر اپنی پوزیشن کو فائدہ پہنچانے سے روک رہا ہے
ایک دوسرے سے منسلک آج کی دنیا میں ملکی سیاست کو خارجہ تعلقات سے الگ نہیں کیا جا سکتا، باالخصوص سیاسی، سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں پڑوسیوں کے ساتھ اثر ورسوخ، ان تمام عوامل کا باہمی تعامل کسی ملک کی معاشی حیثیت اور مجموعی استحکام کو بھی گہرائی سے اثر انداز کرتا ہے۔
تجزیہ کار اور پاکستانی مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ حالیہ برسوں میں ملک کی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے چیلنجز میں مزید اضافہ ہوا ہے لیکن 2022ء میں ان کی پیچیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔حالیہ برسوں میں خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں معروضی خود شناسی مستقبل کی ہم آہنگی کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ یہ 2023 اور اس کے بعد ان تعلقات کے ممکنہ راستے کی پیشن گوئی کرنے میں بھی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پڑوس اور خطے کے ممالک کے ساتھ ہمارے اہم تعلقات کا اندازہ اور تخمینہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں ہونے والی پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے باالخصوص 2022ء میں پاکستان کے کلیدی ہمسایہ اور علاقائی تعلقات آنے والے سال میں مندرجہ ذیل روش اختیار کرسکتے ہیں:۔
افغانستان
پاکستان کے لیے سب سے فوری چیلنج افغانستان کے ساتھ تعلقات ہیں۔ امریکی قیادت میں نیٹو افواج کے انخلاء اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ توقعات پیدا ہو گئی تھیں کہ نئے حکمران بنیادی انسانی حقوق اور تعاون کا احترام کرتے ہوئے ایک جامع حکومت متعارف کر کے اپنے جنگ زدہ ملک میں پائیدار استحکام لائیں گے۔ انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان نے سرحدی انتظام کو بہتر بنانے، ٹی ٹی پی کے دہشت گردی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے اور سرحد پار اور ٹرانزٹ ٹریڈ کو فروغ دینے کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ قریبی روابط کی امید ظاہر کی لیکن ان میں سے کوئی بھی امید پوری نہیں ہوئی۔ اگرچہ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ افغان حکومت نے کئی طریقوں سے افغان عوام اور عالمی برادری کو ناراض کرنے کے لیے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پاکستان بھی افغان فریق کو اس طرح مصروف رکھنے میں ناکام رہا ہے کہ وہ ہمارے اہم قومی مفادات کو مغربی سرحدوں پر پورا کر سکے۔
طالبان کی افغان سرزمین، حکومت اور اس کے اداروں پر مضبوط گرفت ہے۔ ایک ممکنہ منظر نامہ یہ ہے کہ وہ افغانستان پر اپنا کنٹرول برقرار اور آنے والے سالوں میں اسے مزید مضبوط کریں گے۔ اس صورت میں، منفی مضمرات کو روکنے اور مثبت تعلقات استوار کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعمیری مشغولیت اہم ہوگی۔
دوسرا منظر نامہ تشدد، دہشت گردی اور اندرونی خانہ جنگی ہو سکتا ہے، جو ملک کو افراتفری اور خانہ جنگی کی نئی لہر میں دھکیل سکتا ہے۔ اس منظر نامے کے یقیناً پاکستان پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
کچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے اس پار انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اگر پاکستان یہ راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو وہ افغانستان کے ساتھ 2600 کلومیٹر طویل سرحد کے ذریعے ہماری کمزوریوں کو مزید بے نقاب کر سکتا ہے۔ یہ ٹی ٹی پی کے اسپانسرڈ تشدد کے تسلسل یا اضافے کا باعث اور دو طرفہ مصروفیات میں فرق بھی بڑھ سکتا ہے جب کہ پاکستان کی افغان پالیسی کے بارے میں افغانستان میں عوامی ناراضگی بڑھ سکتی ہے۔ یہ جیو اکنامک روبرک کے ذریعے سے جنوری 2022ء میں منظر عام پر آنے والی ہماری قومی سلامتی پالیسی کے تحت افغانستان کے ساتھ اور اس کے ذریعے علاقائی روابط کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کی توقعات کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس سے سرحد پار اور ٹرانزٹ تجارت کی اہم جہتوں اور لوگوں کی نقل و حرکت پر بھی دباؤ پڑ سکتا ہے۔ اگر افغانستان میں سلامتی اور معاشی حالات بدستور خراب ہوتے رہے تو ظاہر ہے کہ پاکستان اور دنیا کے دیگر مقامات کی طرف جانے والے افغانوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، جس سے اسلام آباد کے لیے نئے چیلنجز پیدا ہوں گے۔
لہٰذا، پاکستان کے لیے سمجھداری ہوگی کہ وہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ روابط کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے اور سیاسی حکومت کی قیادت میں ریاست سے ریاست کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی تعامل کو دوبارہ شروع کرے۔ یہ نقطہ نظر موجودہ مسائل سے نمٹنے اور افغانستان کے ساتھ نتیجہ خیز تعاون کا ماحول پیدا کرنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی اور ایران کے ساتھ شراکت داری قائم کی جانی چاہیے تاکہ افغانستان میں ہمارے اسٹریٹجک فائدہ کو استعمال کیا جا سکے۔ یہ مصروفیت پر مبنی نقطہ نظر افغانستان، خاص طور پر بھارت میں اپنے ناقدین کی چالوں کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
بھارت
بھارت کے ساتھ تعطل دو وجوہات کی بناء پر جاری رہنے کا امکان ہے: ایک یہ کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی افراتفری دو طرفہ مصروفیات کی طرف آگے بڑھنے یا ماضی میں کئی بار استعمال کیے جانے والے بیک چینلز کا سہارا لینے کے حوالے سے ایک جدید طریقہ تلاش کرنے کے لیے مناسب جگہ فراہم نہیں کرتی۔ دوسرا یہ کہ بی جے پی اور نریندر مودی کے تحت بھارت مکمل طور پر ہندوتوا کے دیرینہ تصورات میں گھرا ہوا ہے، جو ریاست کے زیر کفالت، ملکیتی اور محفوظ عوامی سطح پر مسلم مخالف اور پاکستان مخالف اقدامات کا نیا سفاکانہ مظہر ہے۔ اس لیے تعلقات میں کسی قسم کی پیش رفت ناممکن نظر آتی ہے۔
طویل المدتی نقطہ نظر سے پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے اہم مسائل پر ایک دوسرے کے موقف کا احترام کرتے ہوئے بات چیت اور مشغولیت کا ایک ماڈل تیار کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے لیے جموں و کشمیر کے لوگوں کی اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعامل اور تجارت کی صلاحیت اور تکمیل بھی ہے، جو باہمی طور پر فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ اہم چیلنج یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے یک طرفہ اقدامات کے نتیجے میں جامع مذاکرات کے لیے آگے کی راہ کیا ہوگی جو ماضی کے جامع ڈائیلاگ کی طرز پر یا کسی نئے فارمیٹ کے تحت بھی ہو۔
امریکا اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا عالمی ماحول نئی دہلی کے ساتھ چار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ )کواڈ( جیسے چین مخالف فورم کا حصہ بھی ہے جو پاک بھارت تعلقات کے لیے جگہ بھی محدود کرتا ہے۔ اس وقت بھارتی اسٹریٹجک ذہنیت کے اندر غالب سوچ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی داخلی چیلنجز سے الجھے ہوئے اور کمزور پاکستان کے تئیں کوئی لچک نہیں دکھائے۔
چین
پاکستان اور چین حقیقی معنوں میں ہمہ وقت دوست ہیں۔ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے فلیگ شپ پروجیکٹ کے طور پر سی پیک کا آغاز کیا اور پاکستان کے انفراسٹرکچر، گوادر پورٹ کی ترقی، پاور پلانٹس اور دیگر کئی شعبوں میں 62 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی۔ حال ہی میں سی پیک منصوبوں میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے اور افغانستان تک اس کی توسیع بھی وہاں کی صورتحال کی پیچیدگی کی وجہ سے ممکن نہ ہوسکی۔
مجموعی طور پر پاکستان اور چین کے تعلقات آنے والے سال کے دوران مثبت انداز میں جاری رہنے کا امکان ہے۔ چینی حکومت اور چینی کمپنیوں کے پاس بالخصوص توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع ہوں گے۔ دفاعی اور سلامتی کے شعبے میں دوطرفہ تعاون آئندہ برسوں میں بتدریج بڑھتا رہے گا۔ چین اور پاکستان عالمی اور علاقائی تنظیموں باالخصوص اقوام متحدہ میں تزویراتی امور پر قریبی تعلقات برقرار رکھیں گے۔
ایران
ایران پاکستان کا ایک اور اہم ہمسایہ ملک ہے جس کے مشترکہ مفادات ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات ان کی حقیقی صلاحیت کے مطابق نہیں ہیں۔ ایران کے خلاف امریکی اقتصادی پابندیاں تجارتی اور اقتصادی تبادلے کو بڑھانے میں ایک اہم رکاوٹ ہونے کے باوجود، دونوں ممالک کی جانب سے آنے والے سالوں میں سرحدی انتظام کو مضبوط بنانے اور سرحدی تجارت بڑھانے اور بلوچستان کے کچھ حصوں کے لیے بجلی کی خریداری میں پیش رفت کا امکان ہے۔ پاکستان اور ایران پائیدار امن کے حصول، منشیات کی تجارت کے خلاف جنگ اور مشترکہ اقتصادی اقدامات کی تلاش کے لیے افغانستان سے متعلق اپنے مشاورتی عمل کو مضبوط بنانے کا بھی امکان ہے۔
علاقائی تعاون
کئی سالوں سے پاکستان خطے کے اہم ممالک جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، قطر اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ حال ہی میں، چین-عرب اسٹریٹجک تعامل نے برآمدات اور لیبر مارکیٹس کے حوالے سے پاکستان کے تعاون کے لیے نئے مواقع کھولے ہیں تاہم ان تعلقات میں بہت کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ حکومت ان ممالک میں سے ہر ایک کے ساتھ شعبہ جاتی بنیادوں پر مبنی مواقع کی نشاندہی پر کس طرح توجہ مرکوز کر سکتی ہے۔
آخری تجزیے میں دیکھا جائے تو گزشتہ چند سالوں سے پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو جغرافیائی و اقتصادی مجبوریوں کے مطابق بدلنے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔ تاہم، اس اہم ایڈجسٹمنٹ کے وقت ملکی سیاست ایک مشکل ترین صورتحال سے گزر رہی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں گزشتہ سال کی تبدیلی نے سیکیورٹی مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔ معیشت بھی ابتر حالت میں ہے۔ ایسے میں آنے والے سال کے دوران ہمارے علاقائی تعلقات کی حرکیات میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع کرنا مشکل ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News