
گورنرسندھ صوبے کے مسائل کے بارے میں اپنے تجزیئے اوران کے حل میں وہ کس طرح معاون ہوسکتے ہیں، اس پرتبادلہ خیال کیا
گورنرسندھ کامران خان ٹیسوری نے کہا ہے کہ وہ سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اوراس سلسلے میں وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ناراض عناصر سے ملاقات کررہے ہیں تاکہ انہیں متحد کرکے شہر اور صوبے کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بول نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا۔
کامران ٹیسوری کو حال ہی میں وفاقی حکومت نے صوبہ سندھ کا گورنرمقررکیا ہے۔ انہیں متحدہ قومی مومنٹ پاکستان کی جانب سے اس عہدے کے لیے نامزد کیا گیاتھا، جس میں وہ حال ہی میں اختلافات کے بعد دوبارہ شامل ہوئے تھے۔
کامران ٹیسوری 2004ء سے 2007ء کے دوران سیاسی منظرنامے میں نمایاں ہوئے، جب جنرل پرویزمشرف برسراقتدار تھے، اور ان کے ایک اتحادی ارباب غلام رحیم صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ تھے۔کامران ٹیسوری اس وقت ارباب رحیم کی جماعت پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے رکن تھے۔
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی حکومت، جس نے پرویزمشرف کے بعد کے دور میں پی ایم ایل ایف کی جگہ لی تھی، نے انہیں اراضی اسکینڈل کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ ان کے خلاف ایک اور فوج داری مقدمہ اس وقت قائم کیا گیا جب وہ کراچی سے بدین منتقلی کے دوران پولیس کی حراست سے فرارہو گئے۔
تاہم، انہیں ایک کے بعد ایک تمام کیسز میں کلیئرنس ملتی گئی۔ 2017ء میں ایم کیو ایم پاکستان میں شمولیت کے بعد وہ پھر سے شہہ سرخیوں میں آگئے۔ جلد ہی، انہیں پارٹی کی رابطہ کمیٹی میں ترقی دے دی گئی۔ جس نے پارٹی کے کچھ اہم افراد کو ناراض کیا اور اسی ناراضی نے اختلافات کو جنم دیا، جس کی وجہ سے انہوں نے 2018ء میں پارٹی چھوڑدی۔انہوں نے رواں برس ستمبر میں ایم کیو ایم پاکستان میں دوبارہ شمولیت اختیارکی، ان اطلاعات کے دوران کہ پارٹی نے انہیں رابطہ کمیٹی کا ڈپٹی کنوینرمقررکیا ہے۔ اگرچہ ان کی پارٹی میں واپسی پرنئے اندرونی اختلافات کی اطلاعات سامنے آئیں، تاہم، پارٹی قیادت نے انہیں گورنر سندھ کے عہدے کے لیے نامزد کردیا۔
بول نیوز کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو نذر قارئین ہے۔
س
جب آپ کو گورنر شپ کی پیشکش کی گئی تو آپ کے کیا منصوبے تھے اور آپ کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟
کامران ٹیسوری: مجھے یاد ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینرخالد مقبول بھائی نے مجھ سے بات کی، رابطہ کمیٹی میں میرا نام تجویز کیا اورپھر گورنرآفس کے لیے میرا نام یہ کہہ کرآگے بڑھایا کہ وہ ایک ایسے گورنر کو دیکھنا چاہتے ہیں جو عوام میں سے ہو۔ باضابطہ نوٹیفکیشن 12 ربیع الاول کو جاری کیا گیا، جوہمارے لیے قابل قدر دن ہے۔ اس سے مجھے،میرے خاندان کے ساتھ ساتھ پارٹی کو بھی خوشی ہوئی۔
میری اولین خواہش ہمیشہ سیاسی جماعتوں، فرقوں، گروہوں اورلوگوں کے درمیان نفرت کو ختم کرنے، ہم آہنگی، محبت اور پیار کو فروغ دینے کے طریقے تلاش کرنا رہی ہے۔ اس لیے میں ذاتی طور پر سب کے پاس گیا اورمختلف سیاسی جماعتوں، مذہبی جماعتوں اورگروہوں کے رہنماؤں، علمائے کرام، تاجربرادری کے نمائندوں اور عام لوگوں سے ملا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ عہدہ عطا کیا ہے اورمیں جو کچھ کررہا ہوں وہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کررہا ہوں۔
س
آپ کو ایم کیو ایم پاکستان نے نامزد کیا ہے، سوال یہ ہے کہ آپ نے پارٹی چھوڑی، پھر اچانک اس میں دوبارہ شامل ہو گئے اور فوراً گورنر کے عہدے کے لیے نامزد ہو گئے، یہ سب کیسے ہوا؟
کامران ٹیسوری: جہاں تک مجھے علم ہے، میں آج خدا کی مہربانیوں کی وجہ سے گورنرہوں۔ اب یہ فیصلہ عوام کریں گے کہ میں کس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ اس طرح کی تفصیلات میں جانا کہ کوئی مجھے مولا جٹ کہہ رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ میں اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہوں، کوئی میری مونچھوں پراعتراض کر رہا ہے، یہ وقت کا ضیاع ہے۔ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ اسٹریٹ کرائم پرکیسے قابو پایا جا سکتا ہے، بجلی اورگیس کو بلا تعطل کے کیسے فراہم کیا جا سکتا ہے، روزگارکے مواقع کیسے پیدا کیے جا سکتے ہیں، شہر کو صاف ستھرا اور سرسبز کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
س
گورنر کےعہدے کا حلف اٹھانے کے بعد آپ نے کہا تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار دس دن میں ایم کیو ایم پاکستان میں شامل ہو جائیں گے، لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔حال ہی میں آپ نے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ کیا آپ ان کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟
کامران ٹیسوری: گورنرکا عہدہ ایک غیرسیاسی عہدہ ہے۔ میں ایم کیوایم پاکستان کا نامزد امیدوارہونے کے ساتھ ساتھ پورے صوبے کا گورنرہوں اور میرا کام سیاسی جماعتوں میں غیر سیاسی طریقے سے ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستارسے میرے پرانے اور خاندانی تعلقات ہیں۔ میری خواہش تھی کہ وہ اپنی پارٹی میں واپس آجائیں۔ ہماری پارٹی کے سربراہ خالد مقبول صدیقی اوررابطہ کمیٹی میں شامل بہت سے ارکان ان کی واپسی چاہتے ہیں۔ میں نے دونوں فریقوں کو سنا ہے، لیکن اس میں کچھ مسائل موجود ہیں۔تاہم، کراچی اورصوبے کے مفاد میں میری خواہش ہے کہ تمام اچھے افراد سیاسی اورگروہی وابستگیوں سے بالاترہوکرایک دوسرے پرتنقید یا اصلاح کی کوشش کرنے کی بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پرتوجہ دیں۔ ہمیں گیس، بجلی اور پانی کی فراہمی کے سلسلے میں مسائل کو حل کرنا ہے – تین ایسی سہولتیں، جن تک رسائی ہرشہری کا بنیادی حق ہے۔ہمیں اپنے شہر کی رونقیں بحال کرنی ہیں، اوراپنے صوبے کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔ اس ملک کے حصول کے لیے ہمارے آباؤ اجداد اور ہماری افواج نے قربانیاں دی ہیں اور ہم ان قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔
س
پی پی پی ایم کیو ایم پاکستان کے تعلقات میں اتارچڑھاؤ آتے رہتے ہیں، اس سلسلے میں آپ کا کیا کردارہے؟
کامران ٹیسوری: میرا کرداران کے درمیان ایک پل کا ہے۔ گورنرہاؤس کے دروازے ان تمام لوگوں کے لیے کھلے ہیں جو مسائل اورخیالات پر بات چیت کے لیے گورنرتک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان حال ہی میں میرے پاس آئے اوراپنے مسائل میرے سامنے رکھے اور کہا کہ میں ان کا نامزد امیدوار ہوں اور مجھے ان پرغورکرنا چاہیے۔ وفاقی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے میں نے وزیراعظم سے ملاقات کا وقت مانگا۔ ہم وہاں گئے اورانہیں مسائل سے آگاہ کیا، اوران سے اس حوالے سے کچھ کرنےکوکہا۔
س
گزشتہ برسوں میں اسٹریٹ کرائم کی تعداد میں اضافہ اور یہ واقعات پرتشدد ہو گئے۔ آپ نے پولیس کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتیں کیں اور سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی کے ساتھ ساتھ کمیونٹی پولیس کراچی کے دفاتر کا دورہ بھی کیا۔ اسٹریٹ کرائم پرقابو پانے میں آپ کیا کردارادا کر سکتے ہیں؟
کامران ٹیسوری: میرا کردار صرف عوام میں شعورپیدا کرنا ہے کہ کوئی ہے جو ان کی جانب سے معاملات کی پیروی کرنے کے لیے موجود ہے۔ عوام کے مسائل سننے والا کوئی نہیں۔ اگرکوئی والدین اپنی اولاد سے محروم ہوجاتے ہیں، توہم تعزیت کرکے خاموش ہوجاتے ہیں۔ متاثرہ فریق انصاف کے حصول کے لیے در، دربھٹکتا ہے۔ اپنی ساری کمائی اوربچت خرچ کردیتا ہے، پھربھی انصاف نہیں ملتا۔ میں خدا سے اس طرح کے جرائم کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے اورانہیں جوابدہ بنانے کی طاقت کا طالب ہوں۔ میں یہ کروں گا، اوراس کے لیے میں کھلی کچہری لگانے کے لیے تیارہوں۔
س
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سیف سٹی پروجیکٹ اور سی پی ایل سی کے کیمرے اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے میں مدد کرسکتے ہیں؟
کامران ٹیسوری: سیف سٹی پروجیکٹ پورے ملک کی بنیادی ضرورت ہے۔ میں مراد سونی اور ان تمام مخیرحضرات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جومفاد عامہ کے لیے کام کررہے ہیں۔ اگرسیف سٹی پروجیکٹ پرعمل درآمد نہ کیا گیا تو پولیس کو جرائم پرقابو پانے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ صوبے بھرمیں سیف سٹی پروجیکٹ کے کیمرے لگائے جائیں۔ یہ منصوبہ عوام کی حفاظت اورسلامتی کے لیے ہے۔
ہمیں صوبے کی ڈی میپنگ کرنی ہے۔ شہرمیں افغان داخل ہورہے ہیں، لیکن ہمارے پاس ان کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بے روزگاری بھی اسٹریٹ کرائم کے پھیلاؤ میں معاون ہے۔ اب جرائم روکنے میں پہل کون کرے گا؟ این ای ڈی یونیورسٹی کے نوجوان کوسرعام سڑک پرگولی مارکرقتل کردیا گیا، لیکن کچھ نہ ہوا۔ پتھر کا دورہزاروں سال پہلے گزر گیا، لیکن ہم آج بھی اس دور کے لوگوں کو اپنے ارد گرد دیکھ سکتے ہیں۔
س
آپ کہتے ہیں کہ افغان اورغیر ملکی عناصراسٹریٹ کرائمز میں ملوث ہیں۔ انہیں کون روکے گا؟
کامران ٹیسوری: ہم سب انہیں روکیں گے۔ یہ ہمارا شہر، ہمارا صوبہ، ہمارا ملک ہے۔ مجھے زیادہ اختیار کی ضرورت نہیں، میرے پاس پہلے ہی کافی ہیں۔ میرے پاس نیت اورمخلص لوگوں کی ٹیم ہے۔ میں لوگوں کے پاس جاؤں گا اورانہیں صورتحال سے آگاہ کروں گا اور ان سے کہوں گا کہ وہ میرے ساتھ مل کرآوازاٹھائیں ۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News