
منتخب سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی اچانک برطرفی کے بعد پی ڈی ایم برسراقتدار آنے والی پی ڈی ایم بری طرح بے نقاب ہوگئی
لاھور
سال 2022 ء کے آخری 8 ماہ واضح طور پر پاکستان کے لیے ایک ہنگامہ خیز دور پر مشتمل تھے، جب 10 اپریل کو ایک منتخب وزیر اعظم عمران خان کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) کی جانب سے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول کر دیا گیا تھا۔ اس اقدام نے ملک کو شدید معاشی عدم استحکام اور غیر یقینی کی طرف دھکیل دیا۔
پی ڈی ایم جو بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پا کر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی، اپنے آٹھ ماہ کے دور اقتدار میں اب تک تمام محاذوں پر بری طرح ناکام رہی ہے۔
کمزور پڑتے معاشی حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی، صنعتوں کی بندش، تیزی سے گرتی ہوئی برآمدات، بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خطرات اور انتشار پسند طرز حکمرانی نے اب یہ بات بالکل عیاں کر دی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت مخلوط حکومت ملک کی بہتری کے لیے بغیر کسی روڈ میپ کے برسراقتدار آئی۔
پی ٹی آئی کے سینئر عہدیدار فواد چوہدری نے کہا کہ ’’عوام نے پنجاب، کے پی اور قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں اپنے ووٹوں کے ذریعے پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کو مسترد کردیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی 34 نشستوں میں سے 26 پر کامیابی حاصل کی تھی جو کہ 76 فیصد ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر ہیں اور امکان ہے کہ جب بھی انتخابات ہوں گے وہ کلین سویپ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے مسلط کرپٹ حکمرانوں کو مسترد کر دیا ہے جو کہ ان کی طرف سے پی ڈی ایم کی قیادت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ ہے اور قوم کی اکثریت عمران خان کے فوری الیکشن کے مطالبے کی حمایت میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
اندرونی سیاسی ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم حکومت کا واحد ایجنڈا اپنی بدعنوان قیادت کے خلاف احتساب کے مقدمات کو ختم کرنا اور انہیں کلین چٹ فراہم کرنا تھا اور وہ نیب قوانین میں ترمیم اور ایف آئی اے جیسے تفتیشی ادارے میں منتخب کردہ عہدیداروں کی تقرری کے ذریعے یہ ایجنڈا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
پی ڈی ایم کا دوسرا ایجنڈا اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ الیکشن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال نہ ہو اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو آئی ووٹنگ کا حق نہ دیا جائے کیونکہ پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ اگر انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کرائے جائیں تو پھر اس کی جیت کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔
اندرونی سیاسی ذرائع کا مزید کہنا تھا، ’’عمران خان کو ان کے بدعنوان رہنماؤں کو بے نقاب کرنے اور سزا دینے سے روکنے کے لیے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں نہ آئیں، پی ڈی ایم کی قیادت نے انہیں ایک سازش کے ذریعے بے دخل کیا اور ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا۔‘‘
اب جب کہ 2022 ء ختم ہو چکا ہے تو کچھ اہم سوالات ابھر کے سامنے آتے ہیں، کیا عمران خان 2023 ء میں اسمبلیاں تحلیل کر پائیں گے؟ کیا 2023ء انتخابات کا سال ہو گا؟ کیا طویل مدتی نگراں سیٹ اپ شروع ہو رہا ہے؟ کیا سیاسی انتشار برقرار رہے گا اور عوام 2023 ء میں بھی اسی طرح مصائب میں مبتلا رہیں گے؟ کیا 2023ء میں پاکستان کی معیشت میں بہتری آئے گی؟ کیا ملک دہشت گردی کی موجودہ لہر پر قابو پا سکے گا؟
ان متعلقہ سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے، بول نیوز نے اس ہفتے معروف سیاستدانوں، سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین سے بات کی۔
ماہر سیاسیات ڈاکٹر مریم کمال نے کہا کہ 2022 ء میں سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی کے محاذوں پر کوئی امن نہیں دیکھا جا سکا۔ ’’یہ نہ صرف سیاسی جماعتوں کے لیے بلکہ عوام کے لیے بھی ایک انتہائی چیلنجنگ سال ثابت ہوا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ افراتفری کے حالات 2023 ء کے انتخابات تک جاری رہیں گے لیکن کسی بھی نئے سیٹ اپ کو یقیناً مندرجہ بالا تمام چیلنجز کا سامنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان گزشتہ 2018ء کے انتخابات کے مقابلے میں بہتر منصوبہ بندی اور بصیرت انگیز قیادت کے ساتھ انتخابی مرحلے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
ڈاکٹر مریم کمال نے مزید کہا کہ عمران خان کو اس دور میں اچھے اور برے کے ذریعے آزمایا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ آنے والے سال میں زیادہ تجربہ کار امیدوار بن گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’دوسرے یہ کہ، ان کے لیے ناقابل تردید عوامی حمایت آئندہ انتخابات میں سب سے فیصلہ کن عنصر کے طور پر جاری رہے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے عمران خان کی عوامی حمایت سے مقابلہ کرنا مشکل ہو گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اپریل 2022 ء سے عمران خان ایک جارحانہ سیاسی مہم چلا رہے ہیں، جو کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی انتخابی تیاریوں سے کہیں زیادہ موثر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’دوسری طرف، پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں 77 رکنی قومی کابینہ سے لطف اندوز ہو رہی ہیں اور صرف جمود کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے انتخابات کے لیے صحیح وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘
ان سے اتفاق کرتے ہوئے معروف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ 2023 ء میں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کی مشترکہ حکمت عملی سے ملک میں پھیلی دہشت گردی کی نئی لہر پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا جہاں فوج، نیم فوجی دستے اور پولیس دہشت گردوں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اعلیٰ فوجی قیادت کی دہشت گردوں اور دہشت گردی کے لیے عدم برداشت کی پالیسی ہے اور وہ 2023ء میں دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل کرلے گی۔‘‘
ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا ’’سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان محاذ آرائی برقرار رہے گی جس کی وجہ سے ہماری معیشت کو نقصان ہوتا رہے گا۔‘‘
ان کا خیال تھا کہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان کے استعمال سے گریز کرنے ملک کے سماجی و اقتصادی استحکام کے لیے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے مذاکرات کی میز پر آنے یا کسی طرح کا اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
کیا عمران خان اسمبلیاں تحلیل کر پائیں گے؟
معروف سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ قبل از وقت الیکشن چاہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ 2023 ء الیکشن کا سال ہو گا۔ ’’لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے 2023 میں کوئی اچھا مقصد پورا ہوسکے گا، سوائے اس کے کہ اس سے پی ڈی ایم بیک فٹ پر چلی جائے گی۔‘‘
انہوں نے پیش گوئی کی، ’’جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں، اگر عبوری سیٹ اپ مداخلت نہیں کرتا ہے تو نومبر تک انتخابات ہوں گے۔ لیکن ان کی (عمران کی) قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی خواہش ایک خواہش ہی رہے گی۔‘‘
ڈاکٹر رفعت حسین سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہوئے معروف سیاسی تجزیہ کار زنیرہ اظہر نے کہا کہ عدالتی حکم کی وجہ سے عمران خان 2023 ء میں اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا ’’اس کے علاوہ جہاں تک ممکن ہو انتخابات میں تاخیر کے لیے آئینی مباحث کو چارے کے طور پر لیا جائے گا۔ عمران خان کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن کچھ نہیں بلکہ حکومت پر قبل از وقت انتخابات کے لیے دباؤ ڈالنے کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ دوسری صورت میں، یہ پی ٹی آئی کے تمام اراکین اور پنجاب میں ان کے ممکنہ اتحاد کے لیے ایک مشکل انتخاب ہے۔‘‘
کیا طویل مدتی عبوری حکومت تشکیل پاسکتی ہے ؟
ڈاکٹر حسن عسکری کا خیال تھا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ طویل المدتی ٹیکنو کریٹ حکومت کے حق میں ہے لیکن آئین میں اس قسم کی حکومت کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین صرف تین ماہ کی مدت کے لیے ایک عبوری حکومت کی بات کرتا ہے اور اس کے بعد انہیں عام انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’انہیں طویل مدتی عبوری حکومت کی منظوری کے لیے عدالت جانا پڑے گا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر طویل مدتی ٹیکنو کریٹ حکومت بنتی ہے تو اس کے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں کے لیے فائدے اور نقصانات ہوں گے۔
ڈاکٹر حسن عسکری نے کہا، ’’پی ڈی ایم عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھنے کے قابل ہوجائے گی، لیکن بنیادی طور پر، وہ اس قسم کی حکومت کی حمایت نہیں کر سکتی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’دوسری طرف عمران خان پی ڈی ایم حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک طویل مدتی ٹیکنو کریٹک حکومت ان کی مقبولیت کے گراف اور عوامی رجحان کو متاثر کر سکتی ہے جو اس وقت ان کے حق میں ہے۔ لہذا، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں ایسے سیٹ اپ کی حمایت نہیں کریں گی۔‘‘
ان سے اتفاق کرتے ہوئے، ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ اگرچہ ٹیکنوکریٹس کی طرف سے حکومت بنانے کا خیال گردش کر رہا ہے، لیکن پاکستان کے اندرونی مسائل کے پیش نظر یہ ایک قابل عمل آپشن نہیں ہے۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے زنیرہ اظہر نے کہا کہ اگر ایک ٹیکنوکریٹک حکومت کی تشکیل متوقع ہے تو اسٹیبلشمنٹ کو بڑھتی ہوئے دہشت گردی اور معاشی زوال کے علاوہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، جب کہ پی ٹی آئی پہلے ہی اس کے خلاف بھری بیٹھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’صرف یہی نہیں، کسی بھی ٹیکنوکریٹ حکومت کے لیے کوئی آئینی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس لیے عوام اس بغاوت کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘
زنیرہ اظہر کا کہنا تھا کہ انتخابات میں جتنی تاخیر ہوگی، بین الاقوامی قرض دہندگان عوامی مینڈیٹ کے بغیر آنے والی حکومت سے بات کرنے میں اتنا ہی ہچکچاہٹ کا شکار ہوں گے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے ٹیکنوکریٹ حکومت کی گردش کرنے والی افواہوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف ایسے سیٹ اپ کے خواہشمند تھے کیونکہ وہ انتخابات میں تاخیر کرنا چاہتے تھے جہاں ایک یقینی شکست ان کی پارٹی ، مسلم لیگ ن کی منتظر تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو لیبارٹری کے چوہوں کے طور پر نہ دیکھا جائے جن پر ہر روز ایک نیا تجربہ کیا جا سکے۔ 6 ماہ یا ڈھائی سال کے لیے ٹیکنوکریٹک حکومت لانا ہمارے ملک کے ساتھ مذاق ہوگا۔ اس طرح کے تجربات اور لطیفے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانے چاہئیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا، ’’پی ٹی آئی ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرے گی اور ہم آئین سے ماورا کسی اقدام کی شدید مذمت کریں گے۔ کسی بھی صورت میں، آئین سے ماورا نظام ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔‘‘
ان سے اتفاق کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ آئین پاکستان میں طویل مدتی ٹیکنوکریٹک حکومت کے لیے ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ماضی میں ہم نے ایسے تجربات دیکھے ہیں جن کے انتہائی نتائج برآمد ہوئے۔‘‘
کیا 2023 انتخابی سال ہے؟
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ، ’’پی ڈی ایم کبھی انتخابات نہیں کرائے گی۔ اگر آپ اس سے کہیں کہ ایک طرف موت ہے اور دوسری طرف الیکشن ہیں تو وہ موت کا انتخاب کرے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’پی ڈی ایم کے رہنما ملک چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں، اور الیکشن سے بھی کترانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اپنے مقدمات ختم کر کے ملک اور اس کی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہماری جماعت مہنگائی، بگڑتے ہوئے معاشی حالات، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ وغیرہ کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک جلد دوبارہ شروع کرے گی۔ تین ہفتوں کے بعد انشاء اللہ عمران خان اس تحریک میں شامل ہوں گے اور ہم اس حکومت کے خاتمے تک سڑکوں پر رہیں گے۔‘‘
تاہم، کائرہ نے پی ٹی آئی کے موقف سے اتفاق نہیں کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔
نواز شریف کی وطن واپسی…
ڈاکٹر مریم کمال 2023 ء کے بارے میں کوئی حتمی پیش گوئی کرنے کو تیار نہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ 2023 ء میں ممکنہ طور پر جنوری میں نواز شریف کی واپسی دیکھنے میں آسکتی ہے۔ ’’2023 ء کے بجٹ کا بڑھتا ہوا چیلنج بھی پی ڈی ایم کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام جون 2023ء میں ختم ہو جائے گا۔‘‘
انہوں نے مزیدکہا، ’’اس طرح، وسیع تر تناظر کے تحت، یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت چند ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گی اور عمران خان کے خلاف انتخابی کارواں کی قیادت کرنے کے لیے نواز شریف کی ضرورت ہوگی کیونکہ موجودہ سیاسی نمائندوں میں سے کوئی بھی عمران خان کی اسٹریٹ پاور پر قابو پانے کے قابل نہیں ہے۔‘‘
’مسلم لیگ ن عمران خان کو نااہل کرانے کی کوشش کرے گی‘
مسلم لیگ (ن) کے معتبر ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عمران خان کو عدالتوں یا الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ذریعے نااہل کرانے کی بھی کوشش کی جائے گی تاکہ انہیں اقتدار میں آنے سے روکا جاسکے۔
تاہم پی ڈی ایم کی سینئر قیادت نے نواز شریف اور طاقتوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کریں کیونکہ یہ اتحاد کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ پی ڈی ایم اتحاد 2023ء کے انتخابات میں داخل ہونے سے پہلے عوام کے درمیان اپنی سیاسی حیثیت کو درست ثابت کرنے کے لیے کسی طرح کی فیس سیونگ اور ایک بیانیہ وضع کرنے کا خواہاں ہے۔
اور آخر میں، پی ڈی ایم اتحاد اسحاق ڈار کی غیر پیداواری پالیسیوں ، جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معاشی زوال ہوا ہے، کے سیاسی اثرات سے بھی بچنا چاہتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News