
’ ’شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں اورپاکستان عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے‘‘
اعجاز الحق، پاکستان مسلم لیگ( ضیاء)
شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں کیونکہ پاکستان عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، غالباً عید کے بعد عام انتخابات منعقد ہوں گے۔ دو وفاقی اکائیوں اور حال ہی میں خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات کرانے پر موجودہ حکومت کی ہٹ دھری زیادہ دیر نہیں چلے گی ۔عام انتخابات سے قبل عوامی لیڈر عمران خان کو نااہل قرار دینے کے اتحادیوں کے تمام منصوبے اب تک کام نہیں آئے۔آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں عمران خان کو شکست دینا بظاہر ناممکن ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں واضح اکثریت مل جاتی ہے تو پھر کیا ہو گا؟اس صورت حال میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایک نئی عسکری قیادت ترتیب دی جارہی ہے جس نے صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرلیا ہے۔ گزشتہ کور کمانڈرز اجلاس میں موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔قومی سلامتی کونسل نے بھی عام انتخابات کرانے کا عندیہ دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ ملک میں انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو عہدہ چھوڑ کر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے بعد قائم ہونے والی مستحکم حکومت ہی ملک کو موجودہ سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔آزادانہ اور منصفانہ انتخابات تمام اسٹیک ہولڈرز کے مفاد میں ہیں۔ یہ اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کا وقت نہیں۔ صرف ایم کیو ایم کے انضمام یا پی پی پی کی بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ شراکت داری سے کام نہیں چلے گا۔اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے اداروں کا امیج بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں استحکام آئے گا۔میرے خیال میں پی ٹی آئی معاف کر دے گی اور سب کچھ بھول کر اپنے بہتر بیانیہ کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ مسلم لیگ( ن) نے پرویز مشرف کے خلاف لڑتے ہوئے بہت کچھ کھویا ہے ، پی ٹی آئی کو ایسی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔معیشت کا تعلق براہ راست اندرونی سیاسی استحکام سے ہے۔ ملک کو سنگین بحرانوں سے نکالنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔سیلاب سے تباہی کے بعد امدادی سرگرمیوں کے لیے اربوں ڈالر کے حالیہ وعدے امداد نہیں بلکہ قرضے ہیں۔ امریکہ اور جرمنی غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے رقم خرچ کریں گے۔اس حوالے سے انہوں نے سروے بھی شروع کر دیا ہے کہ کیا واقعی یہ رقم سیلاب متاثرین پر خرچ ہوگی یا پھرحکمران اشرافیہ کی جیبوں میں جائے گی؟ یہ ملک کے لیے واقعی شرم ناک بات ہے۔ہمیں ایسے ذلت آمیزآسان قرضوں سے نجات حاصل کرنے، معیشت کی بحالی اور پائیداری کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں ہمارے تزویراتی اثاثے اور دفاعی سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
ہمیں الخالد ٹینک، جے ایف تھنڈر، گیس اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کے خام مال کے پرزہ جات کی درآمد کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھولنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ٹیکسٹائل ملوں کی ایک بڑی تعداد کی بندش نے ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار کر دیا ہے۔اعلیٰ ِان پٹ لاگت نے ہماری مصنوعات کو عالمی مارکیٹ میں مقابلے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ہمیں اپنے ملک کے حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک مستحکم حکومت اور پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے،اور یہ صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ ملک کے اداروں کو اس حقیقت کا ادراک پہلے ہی ہوچکا ہے۔
’ ’ اس وقت معیشت سیاسی بدامنی کے خاتمے یا کچھ اور کرنے سے زیادہ اہم ہے‘‘
چوہدری منظور احمد، پاکستان پیپلز پارٹی
اتحادی حکومت اپنی مدت پوری کرنے کے اپنے منصوبے پر قائم رہے گی، جس کا مقصد معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کی کوششیں جاری رکھنا ہے۔اس وقت معیشت کی بحالی کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔ معیشت ایک وفاقی موضوع ہے، اس لیے اس مسئلے سے نمٹنے کا انحصار مرکز پرہے۔مخلوط حکومت بیمار معیشت کو بحال کرنے اور اسے دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے کوششیں جاری رکھنے کے مقصد کے ساتھ اپنی مدت پوری کرنے کے اپنے منصوبے پر قائم رہے گی۔
یوں دو وفاقی اکائیوں کے عوام آئندہ 5سالہ مدت کے لیے حکومتوں کا انتخاب کریں گے، اور قومی کے ساتھ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات وقت پر ہوں گے۔جی ہاں، سیاسی عدم استحکام موجود ہے، اور یہ صورت حال بحران کو مزید طول دے سکتی ہے۔ لیکن اس وقت معیشت ،سیاسی بدامنی کے خاتمے یا کسی بھی اور معاملے سے زیادہ اہم ہے۔ یہ مسئلہ وفاقی حکومت کا نہیں بلکہ یہ ایک اہم ریاستی مسئلہ ہے، کیونکہ معاشی طور پر مزید بگاڑ کی کوشش کی جارہی ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان نے عام انتخابات کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اسمبلیاں تحلیل کر دیں، لیکن یہ وقت اس کام کےلیے بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔
عام انتخابات کی طرف جانے کا صحیح وقت وہ تھا جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی۔اس وقت عمران خان عام انتخابات کے انعقاد کےلیے بات چیت میں مشترکہ اپوزیشن کو شامل کر سکتے تھے۔اب ایک زیادہ سنگین مسائل کے سامنے آنے کی وجہ سے صورتحال بالکل مختلف ہوچکی ہے۔سوال یہ ہے کہ مرکز اور چار وفاقی اکائیوں میں نہیں بلکہ صرف دو صوبوں میں انتخابات کرانے کے کیا نتائج سامنے آئیں گے ؟ انتخابی نتائج سے قطع نظر اس سوال کا سادہ جواب ،طویل سیاسی بے چینی بر مبنی ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف جیت گئی تو وفاقی حکومت سے محاذ آرائی شروع کر دے گی۔شکست کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف دھاندلی کا الزام لگا کر دوبارہ اس تحریک کو ہوا دینے کی کوشش کرے گی ۔ عام انتخابات ہونے کے باوجود سیاسی افراتفری جاری رہے گی لیکن یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ پی ٹی آئی سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں شکست کھا چکی ہے۔ لہٰذا، اس آپشن پر عمل کرنے کے بجائے تمام کوششوں کو معاشی مسائل کو حل کرنے کی طرف صرف کرنا چاہیے۔ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ دیگر ممالک کے برعکس حکمران اشرافیہ قربانی دینے کو تیار نہیں، جہاں امیر لوگ درمیانے طبقے پر رقم خرچ کرنے کے لیے ٹیکس ادا کرتے ہیں، جب کہ پاکستان میں حالات بالکل مختلف ہیں ۔ یہاں غریب عوام بالواسطہ ٹیکس ادا کر نے پر مجبور ہیں ، یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی پر محنت کی کمائی خرچ کر رہے ہیں، اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں ۔ اس کے برعکس حکمران طبقہ پروٹوکول کے مزے لے رہا ہے اور قرضے معاف کروا رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اشرافیہ تاحال کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟ اہم قومی مسائل پر فیصلے لینے میں غیر معمولی تاخیر بھی ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا تصور پیش کیا تھا لیکن 25 سال کے طویل عرصے کے بعد اب جا کر اس پر عمل کیا گیا ہے ۔
’ ’یہ ایک ایسے ملک کے لیےدرست آپشن ہے جو پہلے سے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے‘‘
امیر العظیم، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی
انتخابات کے نتائج سے قطع نظر حالات ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
دو صوبوں میں انتخابات کے انعقاد کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے جو ملک کے نصف حصے پر مشتمل ہے۔لہٰذا پنجاب میں انتخابات کا انعقاد اور قومی اسمبلی کا ساتھ ساتھ جاری رہناممکن نہیں ۔ یہ بعض سیاسی جماعتوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا ناممکن ہے ۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات اور حال ہی میں خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشستوں پر آگے بڑھنا سیاسی عدم استحکام کو مزید طول دے گا۔انتخابات کے نتائج سے قطع نظر حالات ملک کے لیے تباہ کن ہوں گے۔یہاں سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کو پنجاب، خیبرپختونخوا یا دونوں صوبوں میں اکثریت مل گئی تو پھر کیا ہو گا؟
یہ عمل وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان کشمکش کا باعث بنے گا۔ دھاندلی کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان صوبوں کے انتخابات نہ جیتنے کی صورت میں ایک نئی تحریک شروع کریں گے۔دونوں صورتوں میں ملک میں سیاسی بدامنی کی صورتحال پیدا ہوگی، جو صرف معاشی بحران کو مزید بگاڑنے کا سبب بنے گی ، اور ملک اس طرح کے منظر نامے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
در اصل سوال یہ ہے کہ چند ماہ کے وقفے سے دو انتخابات کرانے کے کیا فوائد حاصل ہوں گے ؟ اس مرحلے پر ایسا ایڈونچر ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔طویل سیاسی بدامنی اور معاشی بحران ہماری قومی یکجہتی، سالمیت اور اسٹریٹجک اثاثوں کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کو تمام وفاقی اکائیوں کے قومی اسمبلی اوردیگر اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دنوں میں کرانے کے لیے نگراں سیٹ اپ کی تشکیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے مستعفی ہونا پڑے گا۔
یہ ایک ایسے ملک کے لیے بالکل درست آپشن ہے جو پہلے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات ایک مستحکم حکومت کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔اس کے بعد معیشت کی بحالی اور پائیدار ترقی کے لیے، قابل عمل پالیسیاں وضع کی جانی چاہیئں اور ان پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ بالکل ایک اہم عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تمام معاملات کو سیاست دانوں پر نہیں چھوڑیں گے اور پس پردہ کردار ادا کرتے رہیں گے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے اتحاد کو پورٹ سٹی میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن ایک بات واضح ہے کہ ملک عام انتخابات کے دوران دھاندلی کا بالکل بھی متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس طرح کی صورتحال سیاسی اور معاشی صورتحال کو مزید خراب کرے گی۔مزید یہ کہ کسی بھی قسم کی دھاندلی سے اداروں کے امیج کو مزید نقصان پہنچے گا۔اس حقیقت کا ادراک ابھی سے کیا جارہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ عوام میں بڑے پیمانے پر اپنا وقار بحال کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے گی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News