Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

آخری معرکہ

Now Reading:

آخری معرکہ

اگر موجودہ جمود برقرار رہا، تومعاشی اورسیاسی بحران پاکستان کی تاک میں ہیں

ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اپنے مخالفین کی مخلوط حکومت کی مدت کو کم کرنے اور قبل از وقت عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے 12 جنوری کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے فوری بعد پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کے فیصلے سے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ اب پی ٹی آئی جلد ہی خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی کو بھی تحلیل کرنے کے لیے تیار ہے۔

دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے زیر التواء استعفوں سے پیدا ہونے والی صورتحال عبوری سیٹ اپ کا باعث بن سکتی ہے، جس کی نگرانی میں نہ صرف دونوں صوبوں بلکہ چاروں صوبوں اور مرکز میں نئے عام انتخابات کرائے جائیں گے۔ پنجاب اور کے پی میں انتخابات اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر کرانا ہوں گے۔ اگر قومی اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل نہ کیا گیا، تو اس سے ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس میں صوبائی انتخابات قومی اسمبلی کے انتخابات سے مکمل طور پر علیحدہ ہو جائیں گے۔ 13 جماعتی اتحاد، جس میں بنیادی طور پر دو بڑٰ جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شامل ہیں، تکنیکی بنیادوں پر قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کے خلاف مزاحمت کر سکتا ہے اور کچھ تاخیری حربے استعمال کر سکتا ہے،تاہم، ملک میں عدم استحکام اور مخدوش معاشی صورتحال سمیت مجموعی سیاسی صورتحال کے پیش نظر مخلوط حکومت کے برقرار رہنے کے امکانات بہت کم ہیں۔دریں اثنا، صدرعارف علوی کی جانب سے اہم سیاسی جماعتوں کو مذاکرات اور تبادلہ خیال کے ذریعے اپنے اختلافات کو دور کرنے اور مستقبل کے عام انتخابات سے قبل کسی قسم کے سمجھوتے تک پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔

عمران خان کی وزیراعظم کے عہدے سے برطرفی کے بعد سے گزشتہ نو ماہ میں پی پی پی کے سربراہ آصف زرداری نے پنجاب میں پی ٹی آئی اور پی ایم ایل ق کی مخلوط حکومت کو گرانے کے لیے متعدد حربے استعمال کیے، لیکن وہ ناکام رہے۔ ایک مرحلے پر اپنے اتحادی مسلم لیگ (ن) کی مدد سے آصف زرداری نے پی ٹی آئی کے اندر اختلاف پیدا کیا اور پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا تختہ الٹ دیا، تاہم وہ صوبائی اسمبلی میں چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے 10 اراکین کی اہم حمایت حاصل نہ کر سکے، جو کہ منقسم ایوان میں فیصلہ کن اکثریت کے لیے ضروری تھی۔عمران خان کی مقبولیت کی لہر اتنی تیز ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی جیسے تجربہ کار سیاستدان اور اس سے بڑھ کر ان کے بیٹے مونس الٰہی نے بھی عمران خان سے جڑے رہنے میں اپنی سیاسی بقا دیکھی۔ پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والے پنجاب اسمبلی کے اراکین نے انحراف کے قانون کے تحت اپنی رکنیت کھو دی اور بعد ازاں ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا،اور انہیں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز تھے اور ریاستی اداروں کا جھکاؤ واضح طور پر پی ٹی آئی کے خلاف تھا۔ اس بار سندھ میں پی پی پی کے وزیر شرجیل میمن نے تقریباً ڈیڑھ ماہ تک لاہور میں ڈیرے ڈالے تاکہ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان کو پارٹی سے الگ کر دیا جائے، اور وہ چند ارکان پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے، لیکن پرویز الٰہی کو برطرف کرنے کے لیے مناسب تعداد نہیں لا سکے۔ آصف زرداری کی سازشیں پنجاب میں کام نہیں آئیں جہاں متوسط طبقہ مضبوط ہے اور افراد کو پارٹی کے ووٹوں سے کم اہمیت حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما چوہدری فواد حسین نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کی ایک خاتون رکن نے بھاری رقم وصول کرنے کے بعد اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں۔اس کے باوجود پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کے 186 ارکان سے اعتماد کا ووٹ اس وقت حاصل کیا، جب زیادہ تر مبصرین کو ایوان میں ان کی اکثریت پر شک تھا۔ اس کے فوری بعد انہوں نے پنجاب اسمبلی کو تحلیل کر کے ان افواہوں کو دفن کردیا کہ اس معاملے پر ان کے عمران خان سے اختلافات ہیں۔

عمران خان نے پنجاب کے گیم آف تھرونز میں اپنی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے گجرات کے چوہدری پرویز الٰہی سے سمجھداری کے ساتھ ایک اچھی تفہیم پیدا کر لی ہے۔عمران خان جانتے ہیں کہ وہ شریف خاندان کی شکل میں ایک مضبوط دشمن کے خلاف کھڑے ہیں اور انہیں اتحادیوں کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں خود ہونے والے حملے اور اس طرح کے مزید سازشی منصوبوں کےموجود ہونے کا علم ہونےکے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ چوہدری پرویز الٰہی جیسے ایک قابل قدر اتحادی کو نہیں کھونا چاہیے، چاہے ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے کی قیمت کچھ بھی ہو۔ تاہم، عمومی طور پر پی ٹی آئی کے کارکن پرویز الٰہی کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ ایک چھوٹی جماعت کے رہنما ہونے کے باوجود وہ اختیار حاصل کرلیتے ہیں۔عمران خان کو بظاہر اس بات کا احساس ہے کہ پرویز الٰہی ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی اچھے تعلقات قائم کروا سکتے ہیں کیونکہ ان کے دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

Advertisement

جیسے جیسے معاملات آگے بڑھے، عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنا شروع کردی، انہوں نے الزام لگایا کہ ان کی پارٹی کے ارکان کو بعض عناصر کی جانب سے فون کالز موصول ہوئی ہیں، انہوں نے انہیں پی ٹی آئی سے منحرف ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انہیں بتایا گیا کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور سیاسی انجینئرنگ میں مصروف ہیں۔ تاہم، یہ خفیہ طاقتوں کی جانب سے ایک نیم دلانہ کوشش معلوم ہوتی تھی، جس کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ پر عوامی دباؤ اتنا شدید ہے کہ ان کے لیے اس لکیر کو عبور کرنا مشکل ہوگا۔

ایک تحقیقی کمپنی آئرس کی جانب سے رواں ماہ کے اوائل میں کرائے گئے رائے عامہ کے سروے میں عمران خان کی مقبولیت 56 فیصد جب کہ ان کے مرکزی حریف نواز شریف کے لیے 19 فیصد اور وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے درجہ بندی صفر ہے۔ سروے کے مطابق بلاول کی مقبولیت کی شرح صرف ایک فیصد ہے۔ میڈیا مہم جس کا مقصد عمران خان کی کردار کشی کے لیے آڈیو اور ویڈیو کلپس جاری کر کے ان کے پلے بوائے طرز زندگی کو ظاہر کرنا تھا، ان کی عوامی حمایت کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔ زیادہ تر افراد عمران خان کے ماضی سے واقف ہیں اور اسے بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے حامی انہیں اپنے اہم مخالفین آصف زرداری اور نواز شریف کے برعکس دیکھتے ہیں، دونوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے اندرون اور بیرون ملک بے پناہ دولت جمع کی۔ ان کے مخالفین نے یہ پروپیگنڈا کر کے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی کہ عمران خان نے سرکاری خزانے سے خریدی گئی ایک مہنگی گھڑی رعایتی نرخوں پر فروخت کر دی ، لیکن اس سے بھی ان کی ساکھ کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا کیونکہ تقریباً تمام حکمران توشہ خانے سے مستفید ہو چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی پنجاب کے جنوبی اضلاع میں سیاسی نامور شخصیات کو اپنے ساتھ شامل  کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو آئندہ وزیر اعظم کے طور پر اس اندازے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے کہ ان کی پارٹی سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کرے گی۔ یہ خواب کسی طرح کی سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے پورا ہو سکتا ہے، لیکن جہاں تک پنجاب اور کے پی میں رائے عامہ کا تعلق ہے، یہ ایک خام خیالی لگتی ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت کو دیکھتے ہوئے یہ ناقابل فہم لگتا ہے کہ ریاستی ادارے آئندہ عام انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کی جیت کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی سیاست میں اس حد تک جوڑ توڑ کر سکیں گے۔

2018 ءکے عام انتخابات سےقبل پنجاب تین دہائیوں تک مسلم لیگ ن کا قلعہ بنا رہا۔ 2018ء میں بھی پارٹی جنوبی پنجاب سے ہار گئی لیکن پنجاب کے وسطی اضلاع میں زیادہ تر نشستوں پر جیت گئیں۔ یہاں بھی اب رائے عامہ ان کے خلاف ہو گئی ہے۔ نواز شریف اپنے حامیوں سے دور بیرون ملک مقیم ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے اقتدار کے آخری نو ماہ پارٹی کے لیے تباہ کن ثابت ہورہے ہیں۔ اس وقت مہنگائی کی غیر معمولی شرح 25 فیصد ہے، جو 1971ء کے بعد سب سے زیادہ ہے۔وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے گھریلو ایندھن قدرتی گیس کی قیمت میں 74 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وسطی پنجاب کے صنعتی قصبوں میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلی ہوئی ہے اور درآمدی خام مال کی شدید قلت کی وجہ سے تقریباً نصف صنعتی یونٹس بند ہوچکے ہیں۔ حکومت لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کے لیے زرمبادلہ جاری نہیں کر رہی، اور گزشتہ نو ماہ میں اشیائے خوردنوش کی قیمتیں تقریباً دوگنی ہو چکی ہیں۔

پاکستان اپنی بیرونی ادائیگیوں میں جزوی نادہندہ ہے۔ والدین بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے اپنے بچوں کے لیے غیر ملکی کرنسی میں فیس نہیں بھیج سکتے۔ ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں کھیپ(کنسائمنٹس) بندرگاہوں پر پھنسی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار مالدار تاجروں نے زرمبادلہ کی کمی کے خلاف کراچی کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ 12 جنوری کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر چار ارب ڈالر سے کچھ زیادہ گر گئے، جو صرف تین ہفتوں کی درآمدات کا احاطہ کرتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو کچھ مالی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن یہ بحران پر قابو پانے کے لیے کافی نہیں۔ اس کا علاج آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے میں مضمر ہے، لیکن حکومت، سیاسی وجوہات کی بناء پر فنڈ کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے درکار اہم فیصلے نہیں لے رہی ہے۔ حکومت صرف پاکستانی کرنسی کی قدر میں مزید کمی کرکے اور بالخصوص پیٹرول پر مزید ٹیکس عائد کر کے آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کر سکتی ہے –جو کہ قیمت میں اضافے کے ایک اور سیلاب لانے کا موجب بنے گا۔ان حالات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت مزید غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے۔

معاشی بقا کی خاطر ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ سخت معاشی فیصلے کرے۔ نواز شریف حکومت زیادہ دیر گریز سے کام نہیں چلا سکتی۔ دونوں عرب ممالک کی جانب سے مالی امداد کا وعدہ چند ہفتوں سے زیادہ کے لیے کارآمد نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں یہ عقل کے منافی ہے کہ ریاستی ادارے موجودہ مخلوط حکومت کو طول دینے میں مدد کریں گے۔ اس سے نکلنے کا راستہ ایک عبوری سیٹ اپ بنانے میں مضمر ہے جو سخت معاشی فیصلے لے سکے اور آئی ایم ایف کے ساتھ نہ صرف موجودہ سال بلکہ آئندہ چند برس کے لیے بھی بیل آؤٹ معاہدہ کر سکے کیونکہ پاکستان کو معاشی طور پر رواں دواں رہنے کے لیے 32 ارب ڈالر سے زیادہ کی سالانہ غیر ملکی فنانسنگ (قرض) کی ضرورت ہے۔ قرض دینے والے بین الاقوامی ادارے سیاسی طور پر مستحکم حکومت سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دیں گے، نہ کہ متزلزل اتحادی حکومت سے۔ ہم جلد یا بدیر ایک یا زائد چھوٹی پارٹیوں کو اتحاد سے علیحدہ، حکومت گرتے ہوئے اور اس کی جگہ نگراں حکومت کو لیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

Advertisement

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ عمران خان اپنے خلاف قائم متعدد مقدمات میں سے ایک یا دوسرے کے باعث عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل ہو جائیں گے۔ ان کے وکیل علی ظفر کے مطابق عمران خان کے خلاف 50 سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ امید ہے کہ ایک بار جب عمران خان کو نااہل قرار دے دیا جائے گا تو ان کے حامی مایوس اور ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے، ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور جانشینی کی لڑائی میں دوسرے درجے کے رہنماؤں کے درمیان شدید اختلافات ظاہر ہوں گے۔ لہٰذا کھیل یہ ہے کہ موجودہ جمود کو اس وقت تک طول دیا جائے جب تک کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں آتا۔ میڈیا میں عمران خان مخالف لابی نے ایک نیا نظریہ پیش کرنا شروع کر دیا ہے کہ بلاشبہ عمران خان عوام میں مقبول ہیں، لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں، اس لیے وہ اقتدار میں نہیں آسکتے۔ اس کا مقصد مقامی بااثر افراد کو عمران خان سے دور رکھنا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے مستقبل کا انحصار عوام میں ان کی سیاسی حمایت پر نہیں (جو اس وقت کافی کمزور ہے) بلکہ خفیہ طور پرمفادات کے حصول اور معاملات طے کرنے پر ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
تمباکو اب بھی لوگوں کی جانیں لے رہا ہے، ترجمان صدر مملکت مرتضیٰ سولنگی
صدر مملکت سے وزیراعظم کی اہم ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
مصطفیٰ کمال کی سعودی ہم منصب فہد بن عبدالرحمن سے ملاقات، باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
افغان جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں چھید کر رہے ہیں ، خواجہ آصف
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر