Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال قوم

Now Reading:

اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال قوم

اگرپاکستانی معیشت ملک کی اشرافیہ کی اسیررہی توبحران میں مزید اضافہ ہوگا

پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران کا سب کو علم ہے،چنانچہ، اسے سیاق و سباق میں رکھنے ہوئے آئیے بنیادی حقائق پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے خزانے میں اتنا زرمبادلہ نہیں ہے کہ وہ پرانے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات اور برآمدات کے درمیان وسیع فرق کو پر کر سکے۔ پاکستانی معیشت کو رواں دواں رہنے کے لیے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہے۔ جنوری میں 7ہزار سے زائد شپنگ کنٹینرز عدم ادائیگی یا ڈالر کی کمی کی وجہ سے بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے تھے۔ اوسطاً افراط زر (کنزیومر پرائس انڈیکس) گزشتہ سال کے مقابلے پر 27اعشاریہ6 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور ایندھن کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد یہ 35 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ محض گزشتہ ایک سال میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں تقریباً 90 روپے کی کمی ہوئی ہے۔ ہزاروں کارخانے بند ہو چکے ہیں، جس سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ صرف ٹیکسٹائل کے شعبے میں 70 لاکھ سے زائد کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

آسان الفاظ میں پاکستان کی موجودہ معاشی بدحالی کی جڑ یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنی آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں اور یوں دائمی قرضوں میں ڈوبے رہتے ہیں، جس کی قیمت اب قومی معیشت اور عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ یہ اقتصادی بحران ہے، جو ایک اقلیتی اشرافیہ کے چنگل میں ہے۔ انہوں نے اسے اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل اور معاشرے کے ایک ایسے طبقے کو پروان چڑھانے کے لیے بنایا ہے جو ان کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ ان کے لالچ کی انتہا کی قیمت ملک کی تقریباً نصف آبادی ہے، جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اشرافیہ میں سول ملٹری بیوروکریسی، بڑے جاگیردار، بڑے تاجر، مذہبی سیاسی رہنما، رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز، نامور صحافی اور میڈیا ہاؤس مالکان شامل ہیں۔ ان کے ساتھیوں میں تقریباً 35لاکھ سرکاری ملازمین اور بازار (دکاندار) شامل ہیں۔ اشرافیہ ملکی پیداواری آمدنی اور بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر کا بڑا حصہ ہڑپ کرجاتی ہے، اور عیش و عشرت میں زندگی گزارنے کے لیے خطیر رقم قرض لے کر معاشی بحران پیدا کر دیا ہے، جب کہ انہوں نے جو قرضے لیے ہیں وہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے واپس کیے جاتے ہیں۔ مہنگائی سمیت، جس سے نمٹنے کے لیے غریبوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

ملک کا پورا معاشی ڈھانچہ درحقیقت اشرافیہ اور ان کے ساتھیوں کے حق میں جھکاؤ کا شکار ہے جس میں امیروں کے لیے برائے نام ٹیکس اور غریب اور نچلے متوسط طبقے سے زیادہ سے زیادہ بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ دریں اثناء، ستم ظریفی یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں سب ایک دوسرے پر اسی گناہ کا الزام لگاتے ہوئے آئی ایم ایف کے پروگراموں کا سہارا لیتی ہیں اور آسان راستہ کے طور پر پیٹرول، ڈیزل اور بجلی پر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہیں، کیونکہ حکمران اشرافیہ  ٹیکس دینا نہیں چاہتی، اور نہ ہی یا اپنی آسائشیں ترک کرنا چاہتی ہے۔ لاکھوں مالدار کاشتکار اور بڑے زمیندار وفاقی حکومت کو انکم ٹیکس ادا کرنے سے مستثنیٰ ہیں۔ملک کے جاگیردار اجتماعی طور پر سالانہ صوبائی ٹیکسوں کی مد میں جو ادا کرتے ہیں، وہ چند ارب روپے کی معمولی رقم ہے۔ یہاں 24 لاکھ تاجر اور دکاندار ہیں جب کہ صرف 30 ہزار براہ راست ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت باقیوں پر براہ راست ٹیکس نہیں لگاتی، کیونکہ وہ اشرافیہ کے ساتھی ہیں۔ مہنگائی کم آمدنی والے عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگانے کا ایک اور طریقہ ہے۔

اشرافیہ کا نظام کس قدر ظالمانہ ہے، اس کا اندازہ ایک حالیہ مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی لگژری کاریں آسانی سے درآمد کی گئیں، جب کہ خوراک، ادویات کے لیے خام مال اور صنعتی خام مال پر مشتمل ہزاروں بحری جہاز زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں۔سندھ حکومت کے وزراء اور افسران کے لیے 25ہزار سے زائد گاڑیاں دستیاب ہیں، ان کے لیے مفت ایندھن اور دیکھ بھال کے فنڈز بھی ہیں، جب کہ برطانوی حکومت کے پول میں کل 45 کاریں ہیں۔ اشرافیہ کے زیر قبضہ ریاست کے خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں نے قومی خزانے سے گرانٹس کے علاوہ 2ہزار ارب روپے کے قرضے لیے۔ پی آئی اے، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل، پاور جنریشن کمپنیاں اور دیگر جیسے عوامی ادارے اشرافیہ کے ساتھیوں کی سرپرستی کے ذرائع ہیں۔ پرائیویٹ پاور پروجیکٹس عرف آئی پی پیز، اس کی سب سے بڑی مثال ہیں کہ کس طرح اشرافیہ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کے ذریعے لاکھوں افراد سے پیسہ بٹورتی ہے۔ ساہیوال کول پاور پلانٹ 32 روپے کی لاگت سے ایک یونٹ بجلی پیدا کرتا ہے، جب کہ تھر کے کول پاور اسٹیشنوں  سے 4 روپے اور نیوکلیئر پاور پلانٹس سے 12 روپے فی یونٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ان آئی پی پیز سے اشرافیہ نے اربوں اور کھربوں روپے رشوت کے طور پر بٹورے ہیں یا فرنٹ مینوں کے ذریعے ان کی ملکیت میں ہیں۔  خطے میں سب سے زیادہ بجلی کی قیمت پاکستان میں ہے۔

Advertisement

پاکستان کی معیشت طویل عرصے سے غیر ملکی آمدنی کے تین بڑے ذرائع اول قرض،دوسرے امداد،بالخصوص امریکہ اور تیسرے تارکین وطن پاکستانیوں کی ترسیلات زر پر منحصر ہے۔ غیرملکی آمدنی نے اشرافیہ کے پرآسائش طرز زندگی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ حالیہ برسوں میں ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے اور قرضے کچھ شرائط پر دستیاب ہیں، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ امریکی امداد گزشتہ چند برس سے بند ہوچکی ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس انداز میں ڈھالا گیا ہے کہ وہ امریکی مالی امداد کی لت میں مبتلا ہے۔ برسوں سے امریکہ نے پاکستان کو فراخدلانہ گرانٹ (قرضے نہیں) دی، اور اس کی معیشت نے جی ڈی پی کے پانچ فیصد یا اس سے زیادہ کی متاثر کن شرح سے ترقی کرنا شروع کی۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی گرانٹس کا تخمینہ 75 ارب سے 95 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ یہ گرانٹس 1960ء، 1980ء اور 2000ء کی دہائیوں کے دوران دی گئیں، جب پاکستان کمیونسٹ روس کے خلاف سرد جنگ اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی تھا۔ جب امریکہ نے اسلام آباد کو امداد دینا بند کر دی تو معیشت سست پڑ گئی، شرح نمو 2 سے 4 فیصد تک پہنچ گئی۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے بیرون ملک سے ادھار رقم پر گزارا کر رہا ہے۔ اس نے سب سے پہلے 1950ء میں آئی ایم ایف پروگرام کا مطالبہ کیا۔ اس وقت ملک کا مجموعی غیر ملکی قرضہ 130 ارب ڈالر سے زیادہ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے،جو اس کی مجموعی جی ڈی پی کے ایک تہائی سے زائد ہے۔ ملک کو اپنی غیر ملکی ادائیگیوں پر دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئندہ تین سال کے لیے ہر سال 32 ارب ڈالر سے زائد کے اضافی غیر ملکی قرض کی ضرورت ہے۔ معیشت آخری سہارے کے طور پر قرض دہندہ ادارے آئی ایم ایف سے قرض لیے بغیر نہیں چل سکتی، جو نہ صرف ڈالر فراہم کرتا ہے، بلکہ سند بھی دیتا ہے جو عالمی بینک، ایشیائی ترقی بینک جیسے مالیاتی اداروں اور سعودی عرب اور چین جیسے ممالک سمیت دیگر بین الاقوامی قرض دہندگان سے اضافی قرضے حاصل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ پاکستان اس وقت اپنے 23ویں آئی ایم ایف پروگرام پر  مذکرات کررہا ہے اور اس پر 7اعشاریہ8 ارب ڈالر سے زائد واجب الادا ہے۔

گزشتہ 75 سال میں پاکستان کو مغرب سے اربوں ڈالر کی امداد اور قرضے ملے ہیں۔ تو، سارا پیسہ کہاں گیا؟ ملک اتنا غریب کیوں ہے کہ اپنے پرانے قرضے ادا نہیں کر سکتا اور اس کا اتنا بڑا تجارتی خسارہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ نے جنرل ایوب خان کے دور میں ایک مختصر مدت کے علاوہ ایسی معیشت کا تصور یا منصوبہ نہیں بنایا جو پیداواری اور خود کفیل ہو۔ پاکستانی معیشت کی ایک بڑی ساختی خرابی یہ ہے کہ یہ اتنی پیداواری نہیں ہے جتنی کہ ہونی چاہیے – پاکستان دنیا سے زیادہ سے زیادہ درآمدات کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی زراعت کمزور ہے (فی ایکڑ پیداوار کم ہے)، بنیادی طور پر مینوفیکچرنگ کم ہے، اور انسانی ترقی مایوس کن ہے۔ امریکہ سے امداد اور بین الاقوامی اداروں کے قرضوں کی مد میں ملک کو ملنے والی ٹریلین ارب ڈالر کی رقم غیر ترقیاتی، غیر پیداواری شعبوں میں ضائع کر دی گئی۔ صرف 1960ء کی دہائی میں، جنرل ایوب خان نے زراعت (سبز انقلاب) کو جدید بنانے، ڈیموں (منگلا، تربیلا) کی تعمیر اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے صنعتی یونٹس قائم کر کے امریکی امداد کو انصاف کے ساتھ استعمال کیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاءالحق (1980ء) اور جنرل پرویز مشرف (2000ء) کے دور میں امریکی فنڈز کھپت کے کلچر کو فروغ دینے پر خرچ کیے گئے، گویا یہ توقع کی جا رہی تھی کہ ڈالر کا دھارا لامتناہی طور پر بہتا رہے گا۔

پاکستانی اشرافیہ کے پاس جاگیردارانہ ذہنیت ہے، جس میں کھپت اور ایک دکھاوے کی زندگی کا زیادہ رجحان ہے، یہ سب کچھ قرض کی رقم پر ہے۔ تعاون کرنے والے متوسط طبقے کا رینٹ سیکنگ طرز عمل ہے جو بدعنوانی اور سرپرستی کے کلچر کو پروان چڑھتا ہے۔ 1990 ءکی دہائی میں، ہماری حکومتوں نے موٹر ویز، انڈر پاسز، اور ہوائی اڈے کے چمکتے دمکتے ٹرمینلز بنائے، جب کہ بھارت نے آئی ٹی پروفیشنلز پیدا کرنے کے لیے آئی ٹی ادارے قائم کیے اور برآمدات کے لیے صنعتیں قائم کیں۔ بھارت نے موٹر ویز تعمیر نہیں کیں، اس کی بجائے انسانی ترقی اور صنعت کاری پر توجہ دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2022ء میں بھارت کی سالانہ برآمدات کی مالیت 314 ارب ڈالر تھی،جو ہماری تقریباً 31 ارب ڈالر کی برآمدات سے دس گنا زیادہ ہے۔ آج بنگلہ دیش کے پاس 33 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جب کہ پاکستان کے پاس 3اعشاریہ6 ارب ڈالر ہیں، اور وہ بھی سوالیہ ہیں۔ اگر چین اور سعودی عرب کے ذخائر کو مدنظر رکھا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر درحقیقت صفر ہیں۔

پاکستان انسانی ترقی کے اشاریوں میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے پیچھے ہے۔ 1980ء کی دہائی میں جنگ زدہ ویتنام پاکستان کی فی کس جی ڈی پی کے نصف کے ساتھ معاشی ترقی میں پاکستان سے بہت پیچھے تھا۔ آج اس کی فی کس جی ڈی پی پاکستان کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ اس نے خواندگی، پیشہ ورانہ تربیت اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی، جبکہ پاکستان نے ان شعبوں کو کم ترجیح دی۔ جب دیگر ترقی پذیر ممالک جدید تعلیم کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے، پاکستان قرون وسطیٰ کے نصاب کے ساتھ مدارس کو فروغ دے رہا تھا۔ پاکستان کی آبادی بھارت کی نسبت دوگنی شرح سے بڑھ رہی ہے اور اس کی معیشت لاکھوں ناخواندہ، غیر ہنر مند افراد کا پیٹ نہیں پال سکتی۔ اس ملک نے خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی جس طرح خطے کی دیگر اقوام نے کی۔ اس میں نوجوانوں کی اکثریت ہے، لیکن زیادہ تر نوجوان بے روزگار ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ اراضی پر کاشت نہیں ہورہی ہے کیونکہ اس ملک نے پانی کو محفوظ نہیں کیا، نا ہی نئی نہریں کھودیں یا جدید طریقے (ڈرپ اریگیشن وغیرہ) استعمال کرکے آب پاشی کے نظام کو جدید بنایا، جیسا کہ دوسرے ممالک نے کیا۔ اس کے نتیجے میں، اب ملک گندم، دالیں، چنے ،مٹر، کوکنگ آئل وغیرہ سمیت خوراک درآمد کرتا ہے۔ 2021ء-2022ء میں اس نے 8 ارب ڈالر کی غذائی اشیاء درآمد کیں۔ یہ ایسے ماحول میں رہنے کی قیمت ہے، جو جدید علم، سیکھنے اور اختراع سے نفرت کرتا ہے اور قرون وسطیٰ کی جاگیردارانہ اقدار اور قرون وسطیٰ کی توہمات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

ملک کی معاشی بدحالی کی ذمہ دار کوئی ایک حکومت نہیں بلکہ پوری حکمران اشرافیہ اور ان کے ساتھی ہیں۔ حکمران طبقے کی ساخت میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ملک کا اس دلدل سے نکلنے کا امکان نہیں۔ عارضی بیل آؤٹ کے لیے، پاکستان ایک کے بعد ایک Iآئی ایم ایف معاہدے کرتا رہے گا۔ اس کی کرنسی ڈوبتی رہے گی اور مہنگائی بڑھتی رہے گی، اس طرح آبادی کی اکثریت مزید غریب ہو جائے گی۔ معاشرے کے کم آمدنی والے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی قیمت پر آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے ڈوبتی پاکستانی معیشت کو صرف عارضی ریلیف ملے گا، کیونکہ بڑے ساختی مسائل برقرار ہیں، اور ایک کے بعد ایک بحران کو جنم دیتے رہتے گے۔ یہ کہنا مشکل نظر آتا ہے کہ حکمران اشرافیہ، جو پہلے ہی خرابی پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے، کبھی نظام کی اصلاح کی کوشش کرے گی اور پائیدار بحالی کے لیے کام کرے گی۔ دریں اثنا، آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے اسٹیرائڈز وینٹی لیٹر پر رکھیں گے اور اس مریض کو زندہ رکھیں گے جو کہ پاکستان ہے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع
بغیر ڈرائیور خودکار ٹیکسی لندن میں کب چلیں گی؟ گوگل نے بتا دیا
چین کے ساتھ ٹرمپ کا تجارتی تعلقات ختم کرنے پر غور
امریکا میں بھارتی نژاد سابق اعلیٰ عہدیدار حساس دفاعی معلومات رکھنے پر گرفتار
پاکستان کا افغان طالبان رجیم کی درخواست پر 48 گھنٹوں کے لیے سیز فائر کا فیصلہ
سعودی عرب نے مسلسل تیسری بار فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر