
سندھ اور پاکستان کیوں بدحال ہے، اور اس سے صورتحال سے نکلنے کا کیا راستہ ہے۔ بول نیوز کی ماہرین سے رائے طلب
ناقص حکمرانی کو تمام برائیوں کی جڑ کہا جاتا ہے، اور پاکستان میں بہت سے لوگ اسے ان تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جو آج کی سیاست، انتظامیہ اور معیشت کو متاثر کررہی ہے۔ اس پس منظر میں، جب صوبہ سندھ میں معیارِ زندگی کو بدتر کرنے والے معاملات کی بات آتی ہے، تو اس کا الزام پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے، جو صوبے میں بغیر کسی وقفے کے تقریباً 15 سال سے حکومت کر رہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو اچھے طرز حکمرانی کے ذریعے نظام کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ عوام کو بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچے، اور ایسے خراب رجحانات سے بچنا چاہیے جو حکمران اشرافیہ اور نام نہاد بڑے ناموں یا اداروں کے مفادات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بول نیوز نے یہ جاننے کے لیے متعدد ماہرین سے بات کی ہے کہ صوبہ سندھ کے ساتھ ساتھ باقی پاکستان کی سیاست اور انتظامیہ کو کیا مسائل لاحق ہیں اور ان کے حل کے طریقے کیا ہیں۔
محمد عالم بروہی
سابق سفیر اور تجزیہ کار
بدعنوانی اور بدانتظامی ناقص حکمرانی کی اہم نشانیاں ہیں۔ اور اس کے اثرات میں دولت کا ارتکاز بھی شامل ہے، جس کا مطلب وی آئی پی کلچر، یا ایک ایسا کلچر جو اشرافیہ کے اسکولوں اور اسپتالوں، مہنگی رہائشی کالونیوں اور دیگر سہولیات پر محیط ہے، یہ اس طرح عوام میں غربت اور احساس محرومی جیسے متعدد بحرانوں کو جنم دیتا ہے۔
ایسے معاشرے غیر محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ جرائم اور لاقانونیت کا شکار ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں کو مسلسل نظر انداز کرنے سے شہری آبادی کی بلند شرح اور زندگی، تعلیم اور صحت کے حوالے سے شہری سہولیات سے مقابلہ ہوتا ہے۔ یہ لوٹ مار یا راہزنی کا رجحان بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔
بانی پاکستان کی بے وقت رحلت کے بعد سے پاکستان ایک آزاد خیال، ترقی پسند اور جمہوری ریاست کے ان کے تصور سے دور ہو گیا، جہاں شہریوں کو ان کی ذات، عقیدہ، رنگ اور سماجی حیثیت سے قطع نظر مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔ ان کے نائب لیاقت علی خان ملک کو صحیح راستے پر ڈال سکتے تھے لیکن انہیں قتل کر دیا گیا، جس نے طاقت ور حلقوں بشمول سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اقتدار کے بھوکے جاگیرداروں کے لیے میدان صاف کر دیا۔
ہمیں ایک انجینئرڈ نظام کے تحت فوجی ریاست، مذہبی حکومت یا چند سری حکومت نہیں بلکہ ایک فلاحی ریاست بننا ہے، جس کی حکمرانی حقیقی طور پر عوام کے منتخب افراد کے ہاتھوں میں ہو گی۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ ایک عظیم الشان قومی کانگریس کے ذریعے وضع کیا جانا چاہیے۔ یہ جتنی جلدی ہو جائے، اس قوم کی بقا کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔ ملک پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہے۔
سندھ میں حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ شدید انتظامی مداخلت سے متاثر ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی اور حیدرآباد کے بڑے شہروں میں جیتنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کی نرمی کا فائدہ اٹھایا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) ووٹنگ کے شفاف عمل کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اختیارات کا دعویٰ نہیں کرسکا۔اور کراچی کے نتائج کے حوالے سے ہمارے ہاں یہ تنازعہ ہے۔ اگر ای سی پی کچھ ہمت دکھائے اور نتائج کو از سر مرتب کرنا شروع کرے تو یہ صورت حال تبدیل کی جاسکتی ہے۔
سیاسی و معاشی استحکام، شفافیت، قابل اعتماد احتساب اور عدالتی انصاف قانون کی حکمرانی، قانون کے سامنے سب برابر اور میرٹ کریسی کے فطری نتائج ہیں، جنہیں اس ملک میں منظم طریقے سے قتل کیا گیا ہے۔
ملک کا نظام خصوصاً سندھ کا نظام اشرافیہ، جاگیرداروں اور پیروں وسجادہ نشینوں کی حمایت کرتا ہے۔ لوگ ان کو ووٹ دینے کے لیےنکلتے ہیں۔ انہیں یقین ہو گیا ہے کہ نظام میں ان کا واحد کام جاگیرداروں کو ووٹ دینا ہے۔ پی پی پی نے اپنے پہلے دورِ اقتدار (1972-1977) کے دوران، جاگیرداروں کے بیٹوں اور بھتیجوں کو ان کی سیاسی حمایت کے عوض اعلیٰ عہدے دیے۔ ملک کے باقی حصوں میں بھی یہی حال ہے۔ حکمران اشرافیہ کے ذاتی مفادات کے خلاف کسی بھی چیز کو آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔
1972ء کے بعد سے سندھ پر یا تو پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے، یا پھر مارشل لاء حکومتوں کے ذریعے آگے لائے گئے اور حوصلہ افزائی کیے گئے گروپوں کی حکومت رہی ہے۔ جب کہ پی پی پی پیٹرن کلائنٹ گورننس(سیاسی حمایت کے بدلے مالی فوائد دینا) پر یقین رکھتی ہے، وہ لوگ جو فوجی حکمرانوں کی پشت پر سوار ہوتے ہیں وہ انعامات اور سزاؤں کے انتظام میں فوج کی ترجیحات کی پیروی کرتے ہیں۔
صوبہ سندھ وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کی بڑی آبادی غربت اور بے بسی کی اذیت کا شکار ہے۔
طارق بنوری
سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن
اچھی حکمرانی کے لیے خود مختاری، احتساب اور پیشہ ورانہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک بھی پاکستان میں موجود نہیں۔ براہ کرم نوٹ کریں کہ ’’حکمرانی‘‘ کا تجزیہ ایک مختلف فریم ورک ہے، جو سیاسی سائنس، پبلک ایڈمنسٹریشن اور معاشیات جیسے سماجی علوم سے علیحدہ ہے۔ اس فریم ورک کی اہم خصوصیات خود مختاری، جوابدہی اور پیشہ ورانہ مہارت کی قبولیت اور حوصلہ افزائی ہیں۔
ایک اچھی حکمرانی والے معاشرے میں متعدد خود مختار ادارے ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک عوامی خدمت کے اپنے متعلقہ دائرہ کار کی ذمہ داری ادا کرتا ہے، جیسے کہ انصاف کی انتظامیہ، پولیسنگ اور تفتیش، آڈیٹنگ، صحت، تعلیم، بینکنگ اور مالیات وغیرہ۔
لیکن پاکستان ابھی تک ایک ایسے جاگیردارانہ طرزِ فکر میں پھنسا ہوا ہے، جس میں تمام قانونی حیثیت فرد واحد کو حاصل ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ بدعنوانی، نااہلی، تشدد اور عدم برداشت کا فروغ اور پیشہ ورانہ مہارت کی مکمل عدم موجودگی کی مستقل صورت حال ہے۔
اور میں نہیں سمجھتا کہ یہ مسئلہ سندھ تک محدود ہے۔ تمام صوبوں کے ساتھ ساتھ وفاق نے بھی مفاد عامہ کا خیال نہیں رکھا۔سادہ الفاظ میں کہا جائے تو پاکستان کا نظام حکمرانی عوامی خدمت کے لیے نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ اعلیٰ سطح کی مراعات یافتہ اقلیت کو سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہر ایک سیاسی جماعت اس معاملے میں برابر کی مجرم ہے۔ صرف وہی پالیسیاں حکومتیں وضع کرتی ہیں جو یا تو وہ ہوتی ہیں جو ان کے ساتھیوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں یا بیرونی عطیہ دہندگان کی جانب سے ان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
اچھی حکمرانی کی کچھ مثالیں موجود ہیں لیکن وہ ہمیشہ حادثاتی تھیں۔ باالفاظ دیگر، اچھی حکمرانی صرف اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کام کے اس مخصوص دائرہ کار سے پیسہ کیسے کمایا جائے۔ مثال کے طور پر، جنگلات کا انتظام کچھ عرصے قبل تک ماہر جنگلات کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ لیکن جیسے ہی کسی کے ذہن میں آیا کہ کس طرح محکمہ جنگلات کو مسخر کیا جائے اور ذاتی فائدے کے لیے اس کا کنٹرول کیسے حاصل کیا جائے، حکمرانی کا معیار گرنے لگا۔ اسی طرح، پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کا انتظام معقول طور پر کیا جاتا تھا، لیکن 1970ء کی دہائی میں لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ طلباء کو حسب منشاء استعمال کرسکتے ہیں اور انہیں طاقت اور مراعات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ جس کا نتیجہ تعلیمی معیار کی مکمل تباہی کی صورت میں نکلا۔
چلیں ہم دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مان لیتے ہیں کہ مسئلہ نہ بدعنوانی ہے، نہ نااہلی یا سیاسی عزم کی کمی، بلکہ یہ ممکن ہے کہ رکاوٹ ایک بند گلی یا’ڈیڈ اینڈ فریم ورک‘ کی مقبولیت ہو جو عوام کو ان کے مسائل کو سمجھنے کی اجازت نہیں دیتی۔ پاکستان میں تقریباً ہر کوئی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اصل مسئلہ صحیح حکمران کی تلاش ہے، اور یہ کہ صحیح حکمران ہی اچھی حکمرانی قائم کرے گا۔
ڈاکٹر ثمینہ سعید
چیئرمین شعبہ سیاسیات، کراچی یونیورسٹی
پاکستان میں حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں ادارہ جاتی معیار، کاروباری ماحول اور احتساب کو بہتر بنانے کے لیے اہم اصلاحات کی ضرورت ہے، اور تمام ناراض سیاست دانوں کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ 18ویں آئینی ترمیم نے اچھی حکمرانی کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کی تھی، لیکن یہ اہداف صرف جزوی طور پر حاصل ہوئے ہیں۔
سندھ میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں عوام کی زندگی سے متعلق پالیسیاں، قوانین اور فیصلے کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ جاگیرداروں کی حکمرانی، جو صدیوں سے جاری ہے اور اب بھی مختلف لبادوں میں جاری ہے، نے مرکزی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی توجہ عوام کے مسائل سے ہٹانے کا رجحان جاری رکھا ہے۔ ایک انتہائی دیہی اور شہری تقسیم نے سندھ کی یکے بعد دیگرے حکومتوں کو عوام کے وسیع تر مفاد میں سماجی و اقتصادی پالیسیاں اور قوانین بنانے سے بھی قاصر کر دیا ہے۔
سندھ کے اہم اسٹیک ہولڈر روایتی طور پر اس میں ملوث رہے ہیں، جسے ’وسائل کی جنگ‘ کہا جا سکتا ہے۔ مسابقتی اسٹیک ہولڈرز میں اقتدار کی خواہش نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے، جہاں کسی کی توجہ میرٹ کو فروغ دے کر اداروں کو مضبوط کرنے اور اس طرح صوبے میں اچھی حکمرانی قائم کرنے پر نہیں ہے۔
یہی حال صوبہ سندھ میں مقامی حکومتوں کا ہے۔ مقامی حکومتوں کے ادارے صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کردار سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو خاطر خواہ فنڈز فراہم نہیں کر رہی۔ صوبے میں حزب اختلاف کی جماعتیں صرف صورتحال کو خراب کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر، سندھ کی مقامی حکومت عالمی بینک کے کارکردگی کے چار معیارات، یعنی احتساب، شفافیت، شرکت اور شمولیت پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے۔
بدقسمتی سے، سندھ حکومت نے اچھی حکمرانی کے احتساب، تشدد کے بغیر سیاسی استحکام، قانون کی حکمرانی، بدعنوانی پر قابو پانے، حکومت کی تاثیر، جمہوری حکمرانی، معاشی حکمرانی، کارپوریٹ گورننس، ماحولیاتی نظم و نسق جیسے متعدد اشاریوں پر کاغذی کام کیا ہے، لیکن عملی طور پر بدعنوانی کی لعنت اور خود غرضانہ پالیسیوں نے سیاست دانوں کو عوام کو فائدہ پہنچانے کی خواہش سے دور رکھا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News