
نئی حلقہ بندیوں کے مطالبات کے اظہار کے لیے ایم کیو ایم پاکستان نے درمیانی راہ اپنانے کا انتخاب کیا ہے
پارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں نے بول نیوز کو بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کی جانب سے پارٹی کے بنیادی مطالبات پرعملدرآمد میں ناکامی پراحتجاجاً وفاقی کابینہ سے علیحدگی پرغورکررہی ہے۔
پارٹی کے بنیادی مطالبات میں سے ایک حلقہ بندیوں کی نئی حد بندی کرنا تھا، جو نہیں کی گئیں اورجس کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان نے گزشتہ ماہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا آخری لمحات میں فیصلہ کیا۔
ایم کیو ایم کے کئی رہنماؤں کے ساتھ پس پردہ بات چیت نے اس بات کی تصدیق کی کہ کابینہ سے علیحدگی کے لیے پارٹی کی اعلیٰ صفوں میں بحث جاری ہے۔ تاہم، پارٹی مرکزمیں حکمران اتحاد چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے۔
پارٹی کے ایک سینئررہنما نے نام اخفاء رکھنے کی شرط پرکہاکہ ’’اس اہم موڑ پر جب ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پرہے، حکومت سے علحیدگی اختیار کرنے سے ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا ۔‘‘
انہوں نے کہا کہ تاہم پارٹی کے اندر یہ بحث جاری ہے کہ ہمیں کثیر الجماعتی حکومت کی کابینہ چھوڑکراپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہیں گے، لیکن کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے ۔‘‘
خیال رہے کہ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کے پاس وفاقی کابینہ میں تین وزارتیں ہیں۔ ان میں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کی زیرسربراہی سمندر پار پاکستانیوں کے امور کی وزارت، فیصل سبزواری کی سربراہی میں وزارت سمندری امور اور امین الحق کی سربراہی میں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
بدھ کے روز شہباز شریف کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے ایسے وقت میں جب اس کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے، وزیراعظم کے سات نئے معاونین خصوصی مقررکیے، جس سے کابینہ کے ارکان کی مجموعی تعداد 85 ہو گئی، جو ملکی تاریخ کی سب سے بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔
پارٹی کے ایک اور رہنما نے بھی نام افشا نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے بول نیوز کو بتایا کہ 31 دسمبر2022ء کو ایم کیو ایم کے مختلف گروپوں کے ایک ہی پارٹی میں دوبارہ ضم ہونے کے فوراً بعد اس کے رہنماؤں نے ابتدائی طورپرپی ڈی ایم اتحاد سے مکمل علیحدگی اختیارکرنے پرغورکیا۔ تاہم، دیگرآراء بھی سامنے آنے لگیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال خراب ہوتی جارہی تھی۔
پارٹی کے سینئرترین رہنما ڈاکٹر فاروق ستارشاید واحد رہنما ہیں، جنہوں نے عوامی سطح پرمرکزی حکومت سے علیحدگی کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے پارٹی کے دوبارہ اتحاد کے موقع پر صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کیا۔
انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم وفاقی حکومت چھوڑ دیں اور صوبائی حکومت کی طرف بھی نہ دیکھیں۔
اس موقع پرخالد مقبول صدیقی نے مداخلت کی اورفاروق ستار کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فاروق بھائی ابھی اس فورم پر پالیسی بیان دینے کا وقت نہیں آیا۔
نئے سال کا آغازایم کیو ایم پاکستان کے انتباہ کے ساتھ ہوا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے معاہدے پرعمل کرنے میں ناکام رہی تو وہ وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت چھوڑسکتی ہے۔
بعد ازاں جنوری میں ایک اورپریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے بظاہرحکمران اتحاد کو یاددہانی کی کوشش کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سات ووٹوں کی وجہ سے شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے اور پیپلز پارٹی کو وفاقی کابینہ میں 10 وزارتیں ملیں۔
اس سے قبل اکتوبر 2022ء میں ایم کیو ایم پاکستان کے ایک وفد نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات میں وفاقی اورسندھ حکومتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پرعمل درآمد نہ ہونے پراپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پی پی پی نے بظاہر پہلے کی حد بندیوں کی منسوخی کا نوٹیفکیشن دے کر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کرکے اپنے اتحادی پارٹنر کو مطمئن کرنے کے لیے انتخابات میں تاخیر کی کوشش کی۔
سندھ حکومت نے بلاول بھٹو زرداری کی زیرصدارت فوری بلائے گئے کابینہ کے اجلاس کے بعد اپنا انتخابی نوٹیفکیشن واپس لے لیا، اوربعد ازاں اس سلسلے میں ای سی پی کو ایک اورخط ارسال کیا۔
خط میں سندھ کابینہ نے اعلان کیا کہ ’’لوکل گورنمنٹ اورہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے SLGA-2013 کے سیکشن 10(1) اور 16 کے تحت جاری کردہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کی کونسلوں کی حد بندیوں سے متعلق تمام نوٹیفکیشنزاسٹینڈ کو منسوخ کردیا گیا، اوربلدیاتی انتخابات اور اورہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ اس کے مطابق ضروری کارروائی کر سکتا ہے۔‘‘
اس اقدام پرمجبورا ایم کیو ایم کا وفد ڈاکٹرفاروق ستار کی قیادت میں کچھ دیربعد وزیراعلیٰ ہاؤس گیا اورپی پی پی کی تعریف کی اورشکریہ ادا کیا۔
تاہم، سندھ حکومت کی حکمت عملی کارآمد ثات نہیں ہوئی، اورجماعت اسلامی (جے آئی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو خوش کرنے کے لیے ای سی پی نے یکے بعد دیگرے اجلاس منعقد کرنے کے بعد اعلان کیا کہ انتخابات 15 جنوری کو اعلان کے مطابق ہوں گے۔
اب جب کہ پی پی پی اور جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات کے متنازع نتائج کو سلجھانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، اتوارسے فوارہ چوک پرغیرمعینہ مدت کا دھرنا شروع کرکے ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں کی نئی حد بندیوں کے اپنے دیرینہ مطالبے کو عملی جامہ پہنانے پرزور دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News