
پنجاب، کے پی میں 90 روز میں انتخابات کرانے کے عدالتی احکامات کے باوجود چیف الیکشن کمشنر ایسا کرنے میں ریاستی اداروں کے عدم تعاون کا حوالہ دے رہے ہیں
پنجاب اور کے پی کے انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال جاری ہے کیونکہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجہ نے جمعرات کو انتخابات کے انعقاد میں ریاست کے مختلف اداروں کے تعاون نہ کرنے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ پاکستان کے آئین کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر اندر انتخابات منعقد ہونے چاہئے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے موجودہ صورتحال پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے سکندر راجہ (CEC) نے دعویٰ کیا کہ انہیں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے اپنے آئینی فرائض کی انجام دہی سے ’’روکا‘‘ جا رہا ہے۔
سکندر راجہ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ جب سیکیورٹی کے لیے فوج کی مدد مانگی گئی تو درخواست مسترد کر دی گئی، جب عدلیہ سے ریٹرننگ افسران کے لیے کہا گیا تو درخواست مسترد کر دی گئی اور جب انتخابات کرانے کے لیے مالیات مانگی گئی تو وہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کے انعقاد میں درپیش رکاوٹوں پر چیف الیکشن کمشنر سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور پولیس چیف کی تعیناتی اور برطرفی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران واقعات کے اچانک موڑ پر چیف الیکشن کمشنر کو عدالت عظمیٰ میں پیش ہونے کو کہا گیا۔
اس سے قبل لاہور اور پشاور ہائی کورٹس پہلے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے کا کہہ چکی ہیں۔
11 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آئینی مدت کے اندر انتخابات کرانے کا کہا۔
پاکستان تحریک انصاف نے بار بار الیکشن کمیشن سے پنجاب میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے کا مطالبہ کرنے کے بعد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے 14 جنوری کو صوبائی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد نوٹیفکیشن کے ساتھ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان فوری طور پر کیا جائے، تاکہ انتخابات نوے دن سے زیادہ تاخیر نہ ہو۔‘
چونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور گورنرز انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے امکان ہے کہ انتخابات 90 دن کی مدت میں نہ ہو سکیں۔
اور اگر انتخابات کے حوالے سے موجودہ غیر یقینی صورتحال کافی نہیں ہے تو، پی ٹی آئی کے ایک سابق رہنما نے حال ہی میں انتخابات کی قسمت پر اپنے سنگین شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔
فیصل واوڈا نے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے ٹاک شو کے دوران کہا کہ ’’اس وقت تک انتخابات کا انعقاد مشکل نظر آتا ہے جب تک کہ پی آئی اے کی تمام پروازیں وقت کی سختی سے پابندی شروع نہیں کردیتیں اور پاکستانی قوم ایک ہی چاند پر عید منانے کا فیصلہ نہیں کرتی ہے۔‘‘
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے نئے انتخابات کرانے کے لیے دونوں صوبوں میں حکومتیں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد بالترتیب 14 اور 18 جنوری کو پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں۔
8 فروری کو صدر پاکستان عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کو خط لکھا اور ان سے کہا کہ وہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کریں۔ اس کے بعد صدر عارف علوی نے اپنے آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر فوری خط پوسٹ کردیا۔
دریں اثناء پنجاب اور کے پی کے صوبے سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے دو سینئر رہنما اپنی رائے پر متفق ہیں کہ انتخابات 90 دن کے آئینی وقت کے اندر ہونے چاہئیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے عدلیہ سے امیدیں وابستہ کرلی گئی ہیں۔
ہم پنجاب، کے پی میں فوری انتخابات چاہتے ہیں
14 جنوری کو تحلیل ہونے والی پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ
سوال:
صوبہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کے انتخابات میں تاخیری ہتھکنڈوں کے بارے میں پی پی پی کا کیا موقف ہے، جیسا کہ پی ڈی ایم انتخابات میں تاخیر کی خواہشمند ہے جو کہ آئین کے خلاف ہے؟
سید حسن مرتضیٰ:ہم فوری انتخابات چاہتے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کبھی آئین کے خلاف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی، ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے آئین دیا ہم اس کے خلاف کیسے جا سکتے ہیں۔
ملک جس صورت حال سے دوچار ہے وہ عدلیہ پر عیاں ہے، ہماری عسکری قیادت کو حالات کا ادراک ہے، حتیٰ کہ عوام بھی حالات سے بخوبی واقف ہیں، ہم تمام تر مسائل کے باوجود کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ صورتحال قدرے پیچیدہ ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آج دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوتے ہیں تو یہ انتخابات پرانی مردم شماری کے تحت ہوں گے۔ اور دو صوبوں اور قومی اسمبلی کے بقیہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے تو آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عدلیہ سے ریٹرننگ افسران کی ڈیوٹیوں کے لیے نام مانگے تو انہوں نے انکار کر دیا، جب ای سی پی نے فوج سے سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے نفری مانگی تو انہوں نے درخواست مسترد کر دی،اسی طرح رینجرز نے بھی کیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جب پولیس سے الیکشن ڈیوٹی کے لیے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ کچے کے علاقے میں آپریشن ہو رہا ہے اور ان کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے۔
جب ای سی پی نے حکومت سے مالیات مانگی تو اس نے مالیات کا بندوبست کرنے میں ناکامی ظاہر کی۔
لہٰذا اس صورتحال میں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں، یہ سب عدلیہ کے سامنے ہے، معاملہ عدلیہ کا ہے، پی ٹی آئی پہلے ہی عدالت سے رجوع کر چکی ہے، وہ ہر کام عدلیہ سے کروانا پسند کرتے ہیں، اس لیے وہ اس پر قائم ہیں۔
ہم عدلیہ اور ان کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
سوال:
پیپلز پارٹی نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟
سید حسن مرتضیٰ: یہ انتخابی بائیکاٹ نہیں ہے، ہم نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کی بجائے ہمیں اپنی بیمار معیشت کو درپیش مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
اربوں روپے کی لاگت سے ہونے والے ضمنی انتخابات کی ساری مشق صرف چار ماہ پر محیط ہو گی جس سے عوام پر مزید بوجھ پڑے گا،یہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔
اس لیے میرے خیال میں ان ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینا بہتر فیصلہ ہے، عام انتخابات میں حصہ لینا ہی بہترین آپشن ہے۔
سوال:
آپ عام انتخابات کب ہوتے دیکھ رہے ہیں؟
سید حسن مرتضیٰ: اب اس شخص کو دیکھیں جو ان اسمبلیوں کا یہ کہہ کر مذاق اڑائے کہ یہ اسمبلیاں ربڑ کی مہریں ہیں اور اس میں چور اور ڈاکو شامل ہیں۔ لیکن جب پی ٹی آئی کے استعفے منظور ہوتے ہیں تو وہ ایسا شور مچانے لگتا ہے کہ استعفے کیوں منظور ہوئے؟ وہ بگڑے ہوئے بچے کی طرح کام کرتا ہے اور ضمنی انتخابات کا مطالبہ کرتا ہے اور پھر تمام نشستوں پر خود الیکشن لڑے گا۔ اگر اس کی خواہشات اور مطالبات مان لیے جائیں تو اس ملک کا نہ آئین بچ سکے گا اور نہ قانون۔
میرے خیال میں عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کا ملک بھر میں ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ
احمد کریم کنڈی 18 جنوری کو تحلیل ہونے والی کے پی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر
سوال:
خیبرپختونخوا اور پنجاب کے انتخابات میں تاخیر ی ہتھکنڈوں کے بارے میں پی پی پی کا کیا موقف ہے، جیساکہ پی ڈی ایم انتخابات میں تاخیر کی خواہشمند ہے جو کہ آئین کے خلاف ہے؟
احمد کریم کنڈی: سچ کہوں تو حکومت میں مختلف مکتبہ فکر موجود ہیں۔ کچھ سیاسی کارکن ہیں اور کچھ پیرا شوٹر ہیں۔ اس قسم کے لوگ ہر پارٹی میں ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) حتیٰ کہ پیپلز پارٹی میں بھی ایسے لوگ (پیراشوٹر) موجود ہیں جو اپنی ذاتی خواہش کے مطابق پارٹی چلانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ریاست کے ہر ادارے میں موجود ہیں جو اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق معاملات چلانا چاہتے ہیں۔ لیکن آئین ایک زندہ دستاویز ہے، یہ اپنا راستہ خود بنائے گا۔ جس نے بھی آئین سے کھیلنے کی کوشش کی ہے، نظام نے اسے باہر پھینک دیا ہے، چاہے اس کا پس منظر کوئی بھی ہو۔
سوال:
تو پیپلز پارٹی کو تاخیر سے کوئی مسئلہ نہیں یا وہ آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات کرانے پر اصرار کرے گی؟
احمد کریم کنڈی: پاکستان پیپلز پارٹی کی آئین کی پاسداری کی تاریخ ہے جو اس معاملے پر بالکل واضح ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 دن کے اندر اندر انتخابات ہو نے چاہیئے۔ اس پر کوئی دوسری رائے نہیں اور پیپلز پارٹی صوبائی انتخابات کی تیاری اور کام کر رہی ہے اور ہمیں توقع ہے کہ انتخابات اپریل سے پہلے ہو جائیں گے۔
ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے انتخابی شیڈول کا انتظار کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں انہیں ایک دو دن میں شیڈول کا اعلان کر دینا چاہیے۔
مجھے انتخابات میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ وہ عدالتیں ہیں جو آئین کی نگہبان ہیں۔ پی ٹی آئی پہلے ہی عدالتوں میں ہے اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے۔جب کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ چکا ہے۔
سوال:
پیپلز پارٹی نے ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟
احمد کریم کنڈی: یقیناً، پی پی پی نے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا ہے – چونکہ ان انتخابات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے، اس لیے ہم صوبائی انتخابات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کیونکہ یہ پانچ سال کے لیے ہوں گے۔
یہ ضمنی انتخابات پہلے کی طرح غیر متعلقہ ہو گئے ہیں، عمران خان نے 16 نشستوں پر انتخاب لڑا تھا اب یہ سات نشستیں ہیں۔ اس لیے یہ ضمنی انتخابات اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔
سوال:
آپ عام انتخابات کب ہوتے دیکھ رہے ہیں؟
احمد کریم کنڈی: عام انتخابات اس سال نومبر میں ہونے والے ہیں، 14 اگست کو یہ مدت پوری ہو جائے گی اس لیے انتخابات نومبر کو ہوں گے، خدا کرے کہ کوئی ہنگامی صورتحال پیدا نہ ہو۔
معاملات اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوں گے جب تک مینڈیٹ والی حکومت اقتدار میں نہیں آتی اور جرات مندانہ فیصلہ نہیں کرتی۔
فرض کریں کہ اگر آپ خیبرپختونخوا اور پنجاب جیسی وفاق کی اکائیوں کے انتخابات میں حصہ نہیں لیتے ہیں تو اہم فیصلہ زیر التوا ہے، مشترکہ مفادات کونسل میں کون بیٹھے گا، (سی سی آئی) نگران سیٹ اپ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔
موجودہ حالت میں اگر کوئی نظام چلانے کی کوشش کرے گا تو اس کی زیادہ اہمیت اور جواز نہیں رہے گا، اہم فیصلے اور معاملات زیر التوا ہیں، جنہیں ایک منتخب صوبائی حکومت ہی حل کر سکتی ہے۔
سوال:
کیا ملک کا موجودہ مالیاتی بحران عام انتخابات میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے؟
احمد کریم کنڈی: حتیٰ کہ اگر مالیاتی ایمرجنسی لگائی جاتی ہے تو اس کے اثرات ہوں گے، لیکن یہ کسی ماورائے آئین اقدامات کا جواز نہیں ہوگا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News