Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کیا متحد ہو کر جیت پائیں گے؟

Now Reading:

کیا متحد ہو کر جیت پائیں گے؟

دوبارہ متحد ہونے والی ایم کیو ایم پاکستان شہری سندھ میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے نکلی ہے، لیکن حکومت سے باہر

وہ اس طاقت کو حاصل کرپائے گی جو اسے پہلے حاصل تھی؟

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو اپنے ناراض دھڑوں کے دوبارہ اتحاد اور حالیہ بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ پارٹی اس وقت ایک عبوری دور سے گزر رہی ہے، اس سال کے آخر میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور عام انتخابات کے لیے خود کو تیار کرنے کے لیے اپنے ڈھانچے کو از سر نو ترتیب دے رہی ہے، سپریم کورٹ میں جا رہی ہے، اور غیرمنصفانہ ضلعوں کی حد بندی اور مقامی حکومتوں کے انتخابات (LGEs) کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے ۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا بائیکاٹ کرنے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما انیس قائم خانی نے کہا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان صوبے کی سیاست سے غائب ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس، یہ مضبوط، طاقتور اور شہری سندھ کی پسندیدہ جماعت بنی ہوئی ہے، جیسا کہ کم ووٹر ٹرن آؤٹ اس کا مظہر ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کوئی ایک جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا جماعت اسلامی (جے آئی) بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف 7فیصد کے قریب عوام نے ایم کیو ایم پاکستان  کے مضبوط گڑھ میں اپنا ووٹ ڈالا ہے،یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں تھے، جن کا جھکاؤ ان کے خلاف تھا۔

انیس قائم خانی نے مزید کہا کہ پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) اوردیگر کے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ انضمام کے بعد سے کراچی اور حیدرآباد میں دو جنرل ورکرز اجلاس ہو چکے ہیں جو کہ بڑے جلسوں کی طرح لگ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کارکن، جو پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں،اب نئے سرے سے خود کو توانا محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ایک بہتر مستقبل کی امید دوبارہ جگائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان آئندہ ضمنی انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے گی۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ ’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ ایم کیو ایم پاکستان کے بائیکاٹ نے پی پی پی اور جے آئی کو ایک موقع فراہم کیا، جیسا کہ ماضی میں بھی ہوا تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان تین بار انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے، پہلے 1993ء کے قومی اسمبلی (این اے) کے عام انتخابات، دوسرے اور تیسرے بالترتیب 2002ء اور 2023ء کے بلدیاتی انتخابات میں۔ جب اس نے 1993ء کے قومی اسمبلی کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو مہاجر قومی موومنٹ، جسے آفاق احمد کی قیادت میں ایم کیو ایم-حقیقی کے نام سے جانا جاتا ہے، نے سیاسی میدان میں طاقت کا مظاہرہ کیا اور کچھ عرصے بعد اس نے 1993ء کے عام انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حصہ لیا۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ پھر اس نے 2002ء کے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور جماعت اسلامی نعمت اللہ خان کو کراچی کا میئر بنانے میں کامیاب ہو گئی، جب کہ جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) نے حیدر آباد میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ لیکن اس سے ایم کیو ایم پاکستان کی مقبولیت اور ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ ان جماعتوں نے شہری علاقوں کے لیے کام نہیں کیا اور اگلے ہی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان بھاری اکثریت سے میدان میں آگئی۔ اور اب اگر پی پی پی کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئر لانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے ،تو بھی اس کا ایم کیو ایم پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ پیپلز پارٹی عوام کی خدمت نہیں کرے گی اور ایم کیو ایم پاکستان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی بظاہر ایک وفاقی جماعت ہے، لیکن سندھ میں یہ نسل پرستی اور تعصب پر مبنی جماعت ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ تمام ضم ہونے والی جماعتیں اور افراد متحد رہیں گے کیونکہ اب سب جانتے ہیں کہ اگر وہ الگ الگ کام کریں گے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر پی ٹی آئی یا چند دیگر جماعتیں عوام کے لیے کام کرتیں تو عوام کا جھکاؤ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب نہ ہوتا اور حالیہ انضمام کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔

مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے انیس قائم خانی نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کراچی میں 73 یونین کمیٹیوں (یو سیز) کی غیر منصفانہ حد بندیوں کے خلاف سپریم کورٹ جانے کی تیاری کر رہی ہے، اور پیپلز پارٹی نے خود اعتراف کیا ہے کہ 53 یو سیز کی حد بندیاں بلاجواز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد ایم کیو ایم پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے اور اب ایم کیو ایم پاکستان خود کو مضبوط کرنے کے لیے پارٹی کے ڈھانچے کی تنظیم نو کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹرز پی ٹی آئی، جے آئی یا تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن پی پی پی اور ایم کیو ایم پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے اور ایم کیو ایم کا اپنا الگ ووٹ بینک ہے۔

انیس قائم خانی نے کہا کہ یہ ایک قائم شدہ حقیقت ہے کہ اگر ہم حکومت سے باہر ہیں تو ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں اور ہم اس وقت کسی حکومتی عمل کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم سب کا موقف تھا کہ ہمیں بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے، لیکن ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ہم غلط حد بندیوں کے ساتھ نہیں جا سکتے۔ اس لیے پارٹی کے پاس بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اگر ہم ان حد بندیوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیتے تو اس کا پورا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوتا۔

ایم کیو ایم پاکستان کی سینئر رہنما نسرین جلیل نے کہا کہ اب ہمیں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا ہوگا کہ ہم سپریم کورٹ جائیں گے تاکہ بلدیاتی انتخابات کے پورے عمل کو کالعدم قرار دیا جائے اور علاقوں کی جائز حد بندیوں کے بعد دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ ‘‘

اس نے دعویٰ کیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد من مانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر حق رائے دہی سے محروم ہے، اور اس سے کافی محرومی، مایوسی اور بدامنی پھیلے گی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اس سلسلے میں بہت سے ناراض سیاسی رہنماؤں اور افراد نے مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔’’ایم کیو ایم پاکستان انصاف کا مطالبہ کرتی ہے اور وہ عوام کے پاس جائے گی اور عوام کے وسیع تر مفادات میں تمام دستیاب قانونی اور آئینی طریقہ کار کو اپنائے گی۔‘‘

Advertisement

انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ آزمائش کا وقت ہے اور ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے قانونی دفاتر کی بندش، مقامی حکومت سے متعلق مختلف مسائل، لوکل گورنمنٹ کے قوانین میں ترامیم، بدتمیزی اور سب سے بڑھ کر ایک کمزور قومی معیشت جیسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ پارٹی کے مسائل عوام کے مسائل ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما محمد ریحان ہاشمی نے کہا کہ آج کل وہ تمام جماعتیں جنہوں نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مقابلہ کیا ایم کیو ایم پاکستان کے اس حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کو تقویت دے رہی ہیں جس کا وہ گزشتہ 10 سے 15 سال سے مطالبہ کر رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا ووٹر ٹرن آؤٹ ضمنی انتخابات سے بھی کم تھا۔انہوں نے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی والوں نے کراچی میں مقابلہ کرنے والی تمام جماعتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے ہمیشہ ناانصافی کے خلاف مؤقف اپنایا ہے، مختلف ٹھوس وجوہات کی بنا پر اب تک تین بار انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ عوام کے حقوق جیسے کہ بلدیاتی اداروں کو اختیارات کی منتقلی، نئی حد بندیوں، مساوی مواقع کی کمی اور صوبائی مالیاتی کمیشن سمیت دیگر کی وجہ سے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام حکمران جماعتیں اور متعلقہ ادارے اگر عوام کے مفادات کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو انتخابات کے انعقاد سے قبل اپنی تمام آئینی ذمہ داریاں پوری کریں۔

سینئر ماہر سیاسیات اور تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے کہا کہ ’’ایم کیو ایم پاکستان ایک بحرانی دور سے گزر رہی ہے کیونکہ یہ ایک عبوری دور سے گزر رہی ہے۔ یہ تین دھڑوں میں بٹ کر خود کو مضبوط کرنے کے لیے متحد ہو گئی ہے۔ کبھی کراچی اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں پر ان کا مکمل تسلط تھا، پھر وہ کمزور ہو گئے، اور اب وہ کراچی میں اپنا میئر بھی نہیں لگا سکتے۔ لوکل گورنمنٹ اس پارٹی کی جان تھی لیکن بائیکاٹ کے بعد یہ ختم ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ’’انہیں اپنے لیے کچھ جگہ بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اب وہ یکطرفہ طور پر کراچی کو بند نہیں کر سکتے۔ لیکن وہ اب بھی بندرگاہی شہر میں بدامنی کو ہوا دے سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کا اتحاد مکمل ہو گیا تو وہ خود کو مضبوط کر سکیں گے۔ بصورت دیگر، یہ ایک اہم گروپ ہو گا، لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں، کیونکہ اس کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف دو نشستیں ہیں۔‘‘ تاہم، انہوں نے اعتراف کیا کہ ’’اگرچہ ایم کیو ایم پاکستان مقامی حکومت سے باہر ہے، لیکن اس کے پاس اب بھی مقامی حکومتیں ہیں۔ بلاشبہ زوال پذیر ہے لیکن یہ سندھ کی سیاست میں ایک اہم عنصر بنی ہوئی ہے۔ حسن عسکری نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے حد بندیوں کا معاملہ غیر معمولی تاخیر کے بعد اٹھایا اور آخری لمحوں میں بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جس سے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو فائدہ ہوا۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں کے معاملے کو پہلے اجاگر کیا ہوتا تو شاید یہ حل ہو جاتا۔

حسن عسکری کے مطابق، یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان متحد ہے اور اتحاد برقرار رکھے گی، کیونکہ جب اس طرح کے مختلف گروپ آپس میں مل جاتے ہیں تو عام طور پر شناخت اور نمائندگی کے مسائل اٹھتے ہیں۔’’یہ اس کی طاقت کو بحال کرنے اور خود کو متحد کرنے کی کوشش ہے، لیکن وقت فیصلہ کرے گا کہ کیا اتحاد حقیقی ہے، یا پھر ابھی بھی ان میں کچھ تفرقہ انگیز رجحانات موجود ہیں۔ اس طرح کے دھڑے جو کہ موجود ہیں، عہدے اور طاقت کے حصے پر تنازعات رکھتے ہیں۔ اس مرحلے پر، آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آیا وہ مل کر ہم آہنگی سے کام کر سکیں گے۔ اس وقت ایم کیو ایم کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔اول یہ کہ مقامی حکومت سے باہر ہے، جو ماضی میں اس کی طاقت کا ذریعہ تھی، اور جس کے ذریعے وہ اپنے ووٹروں کا تحفظ کر سکتی تھی۔ دوم، یہ ابھی تک زیر بحث ہے کہ آیا پارٹی متحد رہے گی، اور تیسرا یہ کہ مسلم لیگ (ق) کی صفوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ اس سال کے عام انتخابات میں کیا کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم ماضی میں تشدد کا سہارا لیتی رہی ہے اور اس نے مقامی حکومت کے سیٹ اپ کے ذریعے خود کو مضبوط کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ اتنے فاشسٹ نہیں ہو سکتے جتنے وہ تھے، جب صرف ایک اشارے سے وہ سارا کراچی بند کر سکتے تھے۔ جو کہ موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے کیونکہ صورتحال مختلف ہے۔

Advertisement

ایم کیو ایم پاکستان کیسا رویہ اختیار کرے گی اور مستقبل میں کیا کرے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان نے افغانستان میں موجود گل بہادر گروپ کے 70 سے زائد خارجی واصل جہنم کر دیے
افغانستان کی جگہ زمبابوے سہ ملکی سیریز میں شامل ہوگیا
افغانستان نے تمام احسانات فراموش کر کے جارحیت کی ، شاہد آفریدی
پیپلزپارٹی  نے وفاقی حکومت کو وعدوں پر عملدرآمد  کے لئے  ایک ماہ کی مہلت  دیدی
ملک کو معاشی دفاعی و سفارتی لحاظ سے مستحکم کر دیا ، وزیراعظم شہباز شریف
جنگ بندی کے باجود اسرائیلی بربریت جاری،اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے 11 فلسطینی شہید
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر