
ان قیاس آرائیوں کے دوران کہ ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل پا سکتی ہے کوئٹہ میں اہم سیاسی جماعتوں کے ناخوش رہنماؤں کا اجتماع
بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کا واحد حل آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات میں مضمرہے، جس کے نتیجے میں ایک حقیقی نمائندہ حکومت قائم کی جائے، جوعوام کا اعتماد بحال کر سکے اورنوجوان بلوچ باغیوں کو سیاسی دھارے میں واپس لا سکے۔
یہ حال ہی میں کوئٹہ میں بلوچستان پیس فورم کے زیراہتمام منعقدہ سابق سینیٹراورسابق صوبائی وزیر نوابزادہ لشکری رئیسانی کی زیرسربراہی سیمینارکا اہم نکتہ تھا۔ یہ سیمیناروں کے ایک سلسلے کا حصہ تھا، جسے کچھ سرکردہ ’’سیاسی باغی‘‘ ملک بھرمیں منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’پاکستان کا تصورنو‘(Reimagining Pakistan) کے عنوان سے سیمینارکا سلسلہ اس خیال پرمرکوزہے کہ ’’پاکستان عوام کی بھاری اکثریت کو فائدہ نہیں پہنچارہا، (لہذا) ہمیں ایک ایسے پاکستان کا دوبارہ تصور کرنے کی ضرورت ہے جو تمام پاکستانیوں کو بہترزندگی فراہم کرے‘‘۔
کوئٹہ سیمینارکی مشترکہ میزبانی کرنے والے نام نہاد ’’باغی رہنماؤں‘‘ میں پاکستان مسلم لیگ نواز(پی ایم ایل این) کے دو رہنما سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اورسابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اورایک سابق سینیٹر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مصطفیٰ نواز کھوکرشامل تھے۔
کہا جاتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کے فیصلوں سے دکھ پہنچا ہے، جنہوں نے سابق وزیراعظم کے طورپر تجربے کے باوجود انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے نظراندازکیا، اور ان کی بجائے اپنے بھائی شہبازشریف کو وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا۔ حال ہی میں میاں نوازشریف نے اپنی صاحبزادی مریم نوازکو پارٹی کی سینئرنائب صدر کے عہدے پر فائزکردیا، جس عہدے پرشاہد خاقان عباسی پہلے ہی فائز تھے۔ لہذا، انہوں نے پارٹی چھوڑے بغیرعہدے سے استعفی دے دیا.
مفتاح اسماعیل نے بھی ابھی تک مسلم لیگ (ن)سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے، تاہم شاید انہیں اس وقت توہین محسوس ہوئی جب ان کی جگہ سینیٹراسحاق ڈارکو وفاقی وزیرخزانہ بنایا گیا اوراس کے بعد سے وہ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔
اسی عرصے میں مصطفیٰ کھوکرنے پیپلز پارٹی کو اس وقت چھوڑ دیا، جب پارٹی نے انہیں مکمل وزارت دینے کے بجائے انہیں وزیرمملکت کا عہدہ دینے کی پیشکش کی۔
ان تینوں ’باغی رہنماؤں‘ اوران کے چند دیگرساتھی سیاست دانوں نے سیاسی جماعتوں کے اندرجمہوری طرز عمل کے بیانیے کو عام کرنے اوراسے عوامی سطح تک پھیلانے کی مہم شروع کر دی ہے تاکہ پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور آزاد میڈیا کو یقینی بنایا جا سکے۔
کوئٹہ سیمینار
اپنی تقاریرمیں انہوں نے واضح طورپراعلان کیا کہ تمام بڑی سیاسی جماعتیں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں اوراس لیے ملک کو موجودہ افراتفری اورانتشار کی جانب دھکیلنے کی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس طرح کے سیمینارزاور اجتماعات کا انعقاد جاری رکھ کر مروجہ سیاسی کلچر کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کریں گے۔
حال ہی میں پشاورمیں منعقدہ ایک سیمینارعوام کی دلچسپی اورشرکت کو یقینی بنانے میں ناکام رہا۔ لیکن کوئٹہ میں ہونے والے جلسے میں نسبتاً اچھی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی گئی، اورشرکاء نے مقررین کو سننے اوران کی کاوشوں کو سراہنے کے لیے کوئٹہ کے سرد موسم کو آٹھ گھنٹے تک برداشت کیا۔
سیمینار کے دو سیشن، پہلا مقامی مقررین کے لیے اوردوسرا مہمان مقررین کے لیے تھا۔ سیمینارسے بیس سے زائد مقررین نے خطاب کیا۔ ان میں سیاست، قانونی برادری، صحافت، زراعت، کاروبار، بیوروکریسی وغیرہ کے شعبوں کے ماہرین شامل تھے۔
مقامی مقررین نے دورے پر آئے ہوئے سیاست دانوں کو ملک کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بلوچستان کے بارے میں وفاقی حکومت کے’’سوتیلی ماں کے رویے‘‘ کی نشاندہی کی، جو کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں باغیانہ رجحانات کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ ہے۔
انہوں نے شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے واضح طریقہ کار کی عدم موجودگی جیسے دیگرمسائل پربھی روشنی ڈالی، یہ اکثراس بات کی وجہ بنتا ہے جس کے لیے’’منتخب افراد کی انتخابی کامیابی‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے گوادرمیں ’حق دوتحریک‘ کے پرامن مظاہرین کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن پربھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب عوام کو ان کے نمائندے منتخب کرنے اوراپنے حقیقی حقوق کے لیے پرامن احتجاج کرنے کا جمہوری حق نہیں دیا جائے گا تو پھر انھیں اپنی بقا کے لیے دوسرے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔
سیمینارکے تینوں شریک میزبانوں نے اپنی تقاریرمیں ان جذبات کی توثیق کی اور کہا کہ یکے بعد دیگرے آنے والی وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کرنے کی پالیسی اپنائی ہے جس کی وجہ سے امن و امان کی مخدوش صورتحال اورمسلح شورش جاری ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب وہ وفاقی وزیر پیٹرولیم تھے تو انہوں نے اس وقت کی بلوچستان حکومت کو سوئی گیس کے وسائل کو اپنے کنٹرول میں لینے اور گیس کمپنیوں کے معاملات خود چلانے کی پیشکش کی تھی لیکن کوئی اس موقع سے فائدہ اٹھانے کو تیارنہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ انتخابی دھاندلی کا معمول ہے جوحقیقی سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ تک پہنچنے اور بلوچستان کے قدرتی وسائل کو اپنے کنٹرول میں لینے سے روکتی ہے۔
ایک نئی اسٹیبلشمنٹ نواز جماعت؟
جیسے جیسےیہ ’باغی رہنما‘ اپنے بیانیے پر زوردینے کی کوشش کر رہے ہیں، قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ بڑی سیاسی قوتوں کے ناراض عناصر کی جانب سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی جا رہی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اس سے بھی آگے جاتے ہوئے دعویٰ کردیا کہ اس اقدام کے پیچھے ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
یہ قیاس آرائیاں بنیادی طورپرمتعدد ممتاز سیاست دانوں کے اکٹھے ہونے سے شروع ہوئی ہیں جو یا تو بعض معاملات پراپنی قیادت کے خلاف آواز اٹھا چکے ہیں، جیسے شاہد خاقان عباسی اورمفتاح اسماعیل، یا جو اپنی پارٹیاں چھوڑچکے ہیں، جیسے خواجہ محمد خان ہوتی، میرہمایوں کرد اورسیمینار کے میزبان حاجی لشکری رئیسانی۔
حاجی لشکررئیسانی نے معزز بلوچ قوم پرست میرغوث بخش بزنجو کی زیرقیادت پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) کے رکن کے طور پراپنی سیاست کا آغاز کیا، اورپی این پی کے ٹکٹ پر 1993ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے اورسینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری سے اختلافات پیدا ہونے کے بعد انہوں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کی اور بی این پی میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہوں نے بی این پی کے ٹکٹ پر 2018ء کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے قاسم سوری سے بہت کم ووٹوں سے ہار گئے۔ انہوں نے نتائج کو عدالت میں چیلنج کیا، لیکن کیس کا فیصلہ اس وقت نہ ہوسکا جب تک کہ پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ نے گزشتہ سال پارلیمنٹ سے استعفیٰ نہیں دے دیا۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے بی این پی چھوڑدی اورفلاحی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے، برادری اورکالج کی لائبریریوں میں کتابیں جمع کرنے اورعطیہ کرنے کا کام کیا۔
ان تمام افراد کوسیمینارزکے سلسلے میں اکٹھا کرنے کا خیال شاہد خاقان عباسی کا تھا۔ بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مریم نوازکی پارٹی کی سینئر نائب صدر کے عہدے پر تقرری سمیت کچھ معاملات پر مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ اختلافات کی تردید نہیں کی۔ لیکن انہوں نے پارٹی چھوڑنے کے کسی بھی امکان کومسترد کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’مسلم لیگ ن میری پہلی اورآخری سیاسی جماعت ہے۔ میرے کچھ اختلافات ہیں (پارٹی قیادت سے) لیکن پارٹی چھوڑنے کے بجائے پچھلی نشستوں پر بیٹھنا بننا پسند کروں گا، اوراگرمیں نے کبھی پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو میں کسی اورسیاسی قوت میں شامل ہونے کی بجائے گھرجانا پسند کروں گا۔‘‘
مبصرین کے مطابق اب تک ان ’باغیوں‘ کو وہ مقبول ردعمل نہیں مل سکا جس کی انہیں توقع تھی۔ ان کی اپنی جماعتوں یا پی ٹی آئی کے کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک ان کے ساتھ بڑی تعداد میں کھڑے ہونے پر رضامندی ظاہرنہیں کی۔
تو، جیسا کہ کچھ مبصرین کا دعویٰ ہے کیا یہ صرف ایک پریشر گروپ ہے، جو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے حکمران اتحاد کو اپنی شرائط منوانے کے لیے تشکیل دیا ہے؟ یا یہ ایک نئی سیاسی تحریک کا آغاز ہے، جس کا مقصد ملک کی سیاست اورمعیشت کو نچلی سطح پرعوام کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہے؟
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا.
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News