نجکاری کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی صورت میں واپڈا ملازمین کی ملک کو اندھیروں میں ڈبونے کی دھمکی
پاکستان مسلم لیگ نواز (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت نے بالآخر گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی واپس لے کر اپنے بیل آؤٹ پیکیج کو بحال کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس اقدام نے عام آدمی پر مزید بوجھ ڈالا ہے کیونکہ بہت سی سیاسی اور سماجی تنظیمیں مہنگائی اور بے روزگاری میں بے مثال اضافے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔
تاہم، واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے ملازمین آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت واپڈا کی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کے حکومتی اقدام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بجلی اور پانی کی دیکھ بھال کرنے والی حکومتی ملکیتی کمپنی واپڈا کی نجکاری 1999ء سے جاری ہے اور یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس یوٹیلیٹی کی نجکاری کے لیے چھ بار کوششیں کیں لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں اور واپڈا ملازمین کے شدید ردعمل کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
تاہم، یوٹیلیٹی کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں تقسیم کیا گیا تھا جو کہ مجموعی طور پر 11 ہیں۔
ان ڈسکوز میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)، کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (کیسکو)، حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو)، ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی (میسکو)، سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی (سیپکو) اور فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) شامل ہیں۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اپنی سالانہ رپورٹ برائے 2021ء-22 میں نوٹ کیا کہ ان ڈسکوز نے ایک سال میں قومی خزانے کو 292 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ رپورٹ کے مطابق ریکوری نہ ہونے کی وجہ سے 170 ارب روپے کا نقصان ہوا جب کہ لائن لاسز کی وجہ سے 122 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
جس ڈسکو کو سب سے زیادہ 63 ارب روپے کا نقصان ہوا وہ پیسکو تھا۔ پیسکو بجلی کی بندش کے حوالے سے بھی پہلے نمبر پر رہا۔ نیپرا نے ڈسکوز کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے تجویز دی کہ وفاقی حکومت مستقبل میں ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے ان کی نجکاری کرے۔
ایک سینئر سرکاری اہلکارنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ وفاقی حکومت نجکاری کے منصوبے پر زور دے رہی ہے جس میں ڈسکوز کی نجکاری بھی شامل ہے۔
اس اقدام کے پیش نظر آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین نے سندھ بھر میں کئی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ یونین کے زونل چیئرمین شجاع گھمرو نے کہا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ڈسکوز کی ممکنہ نجکاری سمجھ سے بالاتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں تمام گیارہ تقسیم کار کمپنیوں کو عملے کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کمپنیوں کو اپنے فرائض سرانجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
گھمرو کے مطابق صرف سیپکو میں 3600 ملازمین کی کمی ہے اور ملک بھر کی تقسیم کار کمپنیوں میں طویل عرصے سے کوئی نئی بھرتیاں نہیں کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتی ہے بلکہ ان کمپنیوں کے مختلف فیڈرز کو آؤٹ سورس کرنا بھی چاہتی ہے اور یہ سب آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہو رہا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے قومی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے لیکن واپڈا ملازمین ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
اگر تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی گئی تو واپڈا کے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔ بجلی پہلے ہی بہت مہنگی ہے اور غریب عوام بجلی کے بلوں کا بوجھ برداشت نہیں کر پاتے۔ اگر ڈسکوز کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا تو بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی۔‘‘
گھمرو نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے ڈسکوز کی نجکاری کا فیصلہ واپس نہ لیا تو یونین پورے ملک کو اندھیروں میں ڈال دے گی۔
ہم واپڈا کے ملازمین کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈسکوز کی نجکاری کے بجائے انہیں ایک بار پھر ایک ادارے میں ضم کر دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم حکومت کو یقین دلاتے ہیں کہ واپڈا کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے سے نقصانات کو کم کرنے اور نظام کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملے گی۔‘‘
یونین کے ایک اور رہنما سید زاہد حسین شاہ نے اتفاق کیا کہ ملک کی معاشی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے اور اسے آئی ایم ایف کے قرض کی اگلی قسط کے اجراء کی سخت ضرورت ہے۔
’’بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور متوسط طبقے کو بھی اپنا پیٹ بھرنا مشکل ہو رہا ہے۔ تاہم حکومت کو سمجھ داری سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے حکومت پر واضح کیا کہ اگر اس نے ڈسکوز کی نجکاری کا فیصلہ واپس نہ لیا تو بھرپور جواب دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ غیر ملکی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے ان قومی اثاثوں کو فروخت کرے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News