بول نیوزکے تفتیشی رپورٹرشاہد اسلم کے راولپنڈی کی تاریخی جیل میں تجربات
17 جنوری منگل کو مجھے پولی کلینک اسپتال کے ڈاکٹر امان اللہ کے ہمراہ ڈھائی بجے پولیس وین میں راولپنڈی سینٹرل جیل، جو اڈیالہ جیل کے نام سے مشہور ہے، لایا گیا۔ اسلام آباد کی مجسٹریٹ عدالت سے اس مقام تک پہنچنے میں وین کو تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔
اڈیالہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، جہاں 70 ایکڑ رقبے پرپھیلی یہ وسیع وعریض جیل واقع ہے۔
اس سے قبل جوڈیشل مجسٹریٹ عمرشبیر نے سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے خاندان کے کچھ افراد کے ٹیکس کی تفصیلات لیک کرنے سے متعلق کیس میں مجھے 14 دن کے لیے جیل بھیج دیا تھا۔
13 جنوری کو وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے اہلکاروں نے سادہ کپڑوں میں مجھے لاہور میں میری رہائش گاہ سے گرفتار کیا اوربعد ازاں مجھے وفاقی دارالحکومت کے جی- 13سیکٹر میں ایجنسی کے لاک اپ میں منتقل کردیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے 15 دسمبر 2022ء کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ڈیٹا مبینہ طورپرلیک ہونے کے خلاف درج مقدمے میں کبھی بھی نامزد نہیں کیا گیا۔ ایف آئی اے نے گرفتاری سے قبل نہ تو مجھے طلب کیا اورنہ ہی کوئی نوٹس جاری کیا۔
جیل کی مرکزی عمارت کے دروازے پر لکھے ہوئے قول ’’کسٹڈی، کیئر اینڈ کنٹرول‘‘ نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ وہ عمارت ہے جہاں ہر قیدی کی اچھی طرح تلاشی لی جاتی ہے اوراس کا ڈیٹا رجسٹر کیا جاتا ہے۔
گرفتاری کے وقت میرے پاس 3ہزار8سو روپے کی رقم تھی۔ داخلی دروازے پرموجود اہلکار نے مجھے رقم کے بدلے پرچی (رسید)جاری کی کیونکہ جیل کے اندرنقد رقم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
اہلکار نے مجھے بتایا کہ’’یہ آپ کا اے ٹی ایم ہے۔ آپ اس پرچی کے ذریعے ایک دن پہلے جیل کے باہر واقع اسٹورپراپنی ضرورت کی چیزکا آرڈردے سکتے ہیں۔ اشیاء اگلے دن پہنچا دی جائیں گی۔‘‘
اہلکار نے مسکراہٹ کے ساتھ مجھے رسید دیتے ہوئے کہا کہ ’’اڈیالہ میں خوش آمدید‘‘ ۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے مجھے میری گرفتاری کے بعد ٹی وی پردیکھا تھا۔ ہر قیدی کی طرح میری دو بارتصویرلی گئی۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی بھی تصویریں کھینچی تھیں جب انہیں پانامہ کیس میں سزا سنائی گئی تھی اور یہاں بھیجا گیا تھا؟
اس نے جواب دیا’’ہاں‘‘، ’’ہم نے ایسا کیا تھا لیکن ظاہر ہے باوقار اندازمیں کیونکہ وہ سابق وزیر اعظم تھے۔‘‘
حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے فنگر پرنٹس نہیں لیے گئے اورمجھے آگے جانے دیا گیا۔
تقریباً 40 منٹ کے بعد مجھے جیل کے احاطے میں داخل ہونے کی آزادی ملی، جہاں بیرک، اسپتال، کچن، مساجد، میدان اور پارکس ہیں۔ اڈیالہ جیل 1986ء میں قائم کی گئی جس میں لگ بھگ 2ہزار قیدیوں کی گنجائش ہے۔ تاہم اس وقت وہاں 6ہزار سے زائد قیدی رکھے گئے ہیں۔
محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کی ویب سائٹ کے مطابق آزادی کے وقت پنجاب کو 19 جیلیں ورثے میں ملی تھیں جب کہ 1947ء کے بعد صوبے میں مزید 21 جیلیں قائم کی گئیں۔
اس وقت پنجاب میں 40 فعال جیلیں ہیں جن میں ایک ہائی سیکیورٹی جیل، 9 سینٹرل جیل، 25 ڈسٹرکٹ جیل، دو بورسٹل انسٹی ٹیوشن اورجووینائل جیل، ایک خواتین کی جیل اور دو سب جیل ہیں۔
اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ میرے پاس آئے اوراپنے عملے میں سے ایک کو میرے ساتھ آمدی کمرہ ’آمدی کمرے‘ میں بھیج دیا۔ ایک بڑے آہنی دروازے کے ذریعے میں اڈیالہ کے مرکزی علاقے میں داخل ہوا۔
میرے بائیں طرف بی کلاس کی بیرکیں تھیں جوعام طور پر سیاست دانوں، بیوروکریٹس، پولیس افسران، مسلح افواج کے اہلکاروں اور بعض اوقات تاجروں کو مختص کی جاتی ہیں۔
بیرکوں کے سامنے ایک بڑا باغ ہے۔ باغ کی دوسری جانب ایک بہت بڑا باورچی خانہ ہے، جہاں روزانہ ٹنوں کے حساب سے کھانا پکایا جاتا ہے۔ باورچی خانے کے ساتھ ہی ایک جگہ فون بوتھ ہے جہاں سے قیدیوں کو ہفتے میں ایک بار اپنے پیاروں سے 30 منٹ تک رابطہ کرنے کی اجازت ہے۔
جیل کا اہلکارشروع میں مجھے بی کلاس کے پچھلے حصے میں واقع اسپتال لے گیا جہاں ایک ڈاکٹر نے یہ دریافت کرکے ’’چیک اپ‘‘‘ کیا کہ کیا میں ذیابیطس یا بلندفشارخون جیسے امراض میں مبتلا ہوں اور کیا میں کوئی دوا لیتا ہوں۔ میں نے دونوں سوالوں کا جواب نفی میں دیا۔بس اتنا ہی میرا طبی معائنہ کیا گیا اورہر دوسرے قیدی کی طرح مجھے بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر نے میری نبض چیک کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ طبی معائنے کے بعد میں اپنی بیرک میں چلا گیا۔
آمد کے کمرے کی جانب جاتے ہوئے میں چکرمیں پہنچا، جو مختلف بیرکوں کے سامنے ایک بڑا باغ تھا، جہاں قیدی مختلف مشقوں میں مصروف تھے اورجیل کے اہلکار دھوپ میں ٹہل رہے تھے۔
چکر کے قریب دیوار پرایک جملہ لکھا ہوا ہے’’جیل بے گناہوں کے لیے آزمائش اورگنہگار کے لیے سزا ہے‘‘۔ میں نے سوچا کہ جیل حکام بھی جانتے ہیں کہ ہرقیدی مجرم نہیں ہوتا۔
تھوڑی دیر پیدل چلنے کے بعد میں بیرک نمبر 6/4-6 میں داخل ہوا، اورمیرے کمرے کا نمبر4 تھا، جو کہ آمدی کمرہ بھی تھا۔
اڈیالہ جیل میں آٹھ بیرکیں ہیں اورہربیرک میں چھ کمرے ہیں۔ ہر کمرے میں 38 افراد کی گنجائش ہے لیکن ان میں سے ہر ایک میں 80 سے 100 کے قریب قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ ہر روز 70 سے 80 نئے قیدی 6/4 میں لائے جاتے ہیں اور میں اس دن وہاں پہنچنے والا پہلا قیدی تھا۔
جب میں نے اپنا تعارف کرایا تو ایک مجرم فیصل مشقتی نے کہا کہ ’’میں گزشتہ چند دنوں سے آپ کا انتظار کررہا تھا‘‘، یہ سن کرمجھے حیرت ہوئی، میں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں جلد ہی اس جگہ آ رہا ہوں؟، انہوں نے کہا کہ ’’اس کیس میں (ٹیکس کی تفصیلات لیک ہونے کے) تین دیگرافراد کو پہلے ہی یہاں لایا جا چکا ہے۔
فیصل اپنے چار بھائیوں کے ساتھ جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ قتل سمیت متعدد مقدمات میں سزا یافتہ اورمجرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ روزانہ 70 سے 80 نئے افراد سے بات چیت کرتے ہیں اور ان کے پاس مختلف کیسزسے متعلق کافی معلومات ہوتی ہیں۔
اس دن تقریباً 70 نئے قیدی آمد کے کمرے میں پہنچے۔ شام تک فیصل اورمیں ایسے دوست بن چکے تھے جیسے ہم ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے ہوں۔
اسلام آباد میں K-21 چینل کے بیورو چیف کامران مغل بھی کچھ دیر بعد میرے پاس کمرے میں آ گئے۔
کامران مغل نے کہا کہ انہیں رئیل اسٹیٹ سے متعلق چند طاقتورتاجروں کے کہنے پرگرفتار کیا گیا ہے، جن کی دھوکہ دہی اورفراڈ وہ اپنی تحقیقاتی رپورٹس کے ذریعے بے نقاب کرتے رہے ہیں۔
شام 7 بجے تک کمرے کو تالا لگا دیا گیا اورتمام قیدیوں کو کھانا کھلایا گیا۔ اس میں شوربے والی مرغی کا سالن اور روٹی تھی اوراس کا ذائقہ اچھا تھا۔ اڈیالہ میں پہلی رات میں 2 بجے تک سو نہیں سکا۔
اگلی صبح، سب صبح 6 بجے تک اٹھ چکے تھے، بعد ازاں چائے اور روٹی ناشتے کے طور پر پیش کی گئی۔
اس کے بعد ایک مشقتی، ایک اصطلاح جو سزا یافتہ قیدیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو جیل کے اندر مختلف فرائض انجام دیتے ہیں، نے ہم سے جیل حکام کے ساتھ ایک تعارفی ملاقات ’ملاحظہ‘ کے لیے ایک کمیونٹی ہال میں جمع ہونے کو کہا۔
ہال میں ماہرین نفسیات کا ایک پینل تھا، جس نے ہر نئے قیدی کا انٹرویو کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ کسی مرض میں مبتلا ہیں یا جیل میں کسی قسم کے تشدد یا بدسلوکی کا شکارہیں۔
میں نے دیکھا کہ جیل کا سارا نظام یہ مشتبہ لوگ چلا رہے ہیں۔
بعد میں، نئے قیدیوں کو جیل سپرنٹنڈنٹ اورڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے ساتھ رسمی لیکن انتہائی مختصر ملاقات کے لیے قطار بنانے کی ہدایت کی گئی۔
اپنی باری پرہر قیدی اہلکاروں کو اپنا نام، اپنے والد کا نام اورکیس کی نوعیت، عمومی طورپرایک طویل جملے میں بتاتا تھا۔
تاہم جب مجھے ان حضرات کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے ہنستے ہوئے میرا معاملہ تفصیل سے دریافت کیا۔ سپرنٹنڈنٹ اسد وڑائچ کی مسکراہٹ نے مجھے شک میں مبتلا کر دیا کہ وہ مجھ سے زیادہ کیس کے بارے میں جانتے ہیں۔
اسد وڑائچ نے پوچھا کہ ’’آپ باقی راتیں کس بیرک میں رہنا چاہتے ہیں؟‘‘
میرا واضح انتخاب 6/4 تھا کیونکہ میں اڈیالہ آنے والے زیادہ سے زیادہ قیدیوں سے بات چیت کرنا چاہتا تھا۔ سپرنٹنڈنٹ نے اپنے عملے کو میرا خیال رکھنے کو کہتے ہوئے کہاکہ’’آپ ہمارے مہمان خصوصی ہیں۔ یہ بتانے میں ہچکچاہٹ نہ کیجئے گا کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے‘‘۔
دوپہر تک، مجھے 6/4 بیرک میں واپس لے جایا گیا اوردوپہر کے کھانے میں دال ماش اور روٹی دی گئی۔ کھانا مزیدار تھا اورمیں نے فیصل سے کہا کہ جب تک میری ضمانت منظور نہیں ہو جاتی میں کہیں نہیں جاؤں گا۔
اڈیالہ میں دوسری رات ہم نے روٹی کے ساتھ شوربے والا آلو اور مرغی کا سالن کھایا۔ اس رات، فیصل، میں اور کچھ دوسرے قیدیوں نے ایک بجے تک تاش کھیلا۔
جمعرات کو فیصل کا بھائی ناشتے پر آیا اور مجھے بتایا کہ میری ضمانت ایک دن پہلے (بدھ کو) منظورہو گئی ہے اورمیں جلد رہا ہونے والا ہوں۔
ناشتے کے بعد ہم دھوپ میں باہرنکلے اورجیل کے احاطے میں ارد گرد گھومنے لگے۔
ایک مجرم احد نے مجھے بتایا کہ اڈیالہ ایک سیاسی جیل ہے جو صوبے کی تمام جیلوں کو کھانا فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قیدی جیل کے اندر صرف اسی صورت میں آزادانہ گھوم سکتے ہیں جب وہ رقم ادا کریں۔
احد کے مطابق ہرنئے قیدی کو ڈرایا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم نکالے۔
اس نے کہا کہ ’’ہر نئے قیدی کی مالی حالت کا اندازہ اس وقت لگایا جاتا ہے جب وہ آمد کے کمرے میں پہنچتا ہے اورجیل حکام اس کی حیثیت کے مطابق اس سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
احد کا خیال تھا کہ قیدیوں کی اکثریت بے گناہ ہے کیونکہ پولیس، ایف آئی اے، نیب اور دیگر محکمے بے گناہوں کو زیادہ تر گرفتار کرتے ہیں۔اس نے دعویٰ کیا کہ جیل مجرموں کی افزائش گاہ ہے کیونکہ یہاں گینگ بنتے ہیں۔ مجرم جیل کے اندرسے باہر اپنے نیٹ ورک کے ذریعے کام کرتے ہیں۔‘‘
اس نے کہا کہ جیل کے اندر منشیات باآسانی حاصل کی جا سکتی ہیں بشرطیکہ آپ کے پاس رشوت دینے کے لیے کافی رقم ہو۔
انہوں نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ جیل میں کوئی ویسٹرن کموڈ نہیں ہے اور اس کی کمی کی وجہ سے قیدیوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں ادویات کی بھی قلت ہے۔
جمعرات کی سہ پہر سوا تین بجے مجھے بیرک سے باہر آنے کے لیے کہا گیا کیونکہ ایڈوکیٹ احد کھوکھر، ایڈووکیٹ میاں علی اشفاق کی سربراہی میں میری قانونی ٹیم کے رکن روباکر پہنچے تھے۔ میں 48 گھنٹے کی مختصر قید کے بعد ساڑھے تین بجے تاریخی اڈیالہ جیل سے باہر آیا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News