
بول نیوز کا ملک کی سیاسی و اقتصادی صورتحال پر رائے جاننے کے لیے رہنما جماعت اسلامی کے ساتھ خصوصی گفتگو
انٹرویو
جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم کا کہنا ہے کہ سیاسی بدامنی اور معاشی بدحالی سے دوچار ملک کے لیے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات ہی واحد راستہ ہیں۔
امیر العظیم ایک منکسر المزاج سیاسی شخصیت ہیں جو 1980ء کی دہائی کے دوران طلبہ کی سیاست میں کافی سرگرم تھے، جب پاکستان میں مرحوم جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں فوجی حکومت تھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلبہ کے پنجاب یونیورسٹی چیپٹر کے ناظم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اور بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اعلیٰ عہدے ناظم اعلیٰ کے لیے منتخب ہوئے۔ اس وقت وہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر رہے تھے۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے طلباء یونینوں کی بحالی کے لیے مہم کی قیادت کی، اور اس قدر نمایاں ہوئے کہ مہم کے دوران ایک موقع پر جنرل ضیاء الحق نے انہیں براہ راست دھمکی دی، جب انہوں نے اعلانیہ کہا کہ ’’کوئی بھی امیر یا امیر العظیم‘‘ جو تعلیمی اداروں میں بے جا مداخلت کا ذمہ دار پایا گیا، اسے نہیں بخشا جائے گا۔
چنانچہ انہیں گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ جیل میں قید کے دوران انہوں نے نجی حیثیت میں تعلیم جاری رکھی اور سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔ اس کے بعد وہ سیاست میں داخل ہوئے اور جماعت اسلامی لاہور اور پنجاب چیپٹر کے امیر کے طور پر خدمات سرانجام دیں، بعد ازاں سیکرٹری اطلاعات اور جماعت اسلامی کے امیر کے اعلیٰ ترجمان بن گئے۔
وہ اس وقت پارٹی کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اپنی دوسری مدت پوری کر رہے ہیں۔ وہ ایک کامیاب کاروباری شخصیت بھی ہیں، مطبوعات اور اشتہارات کے کاروبار سے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔
بول نیوز کے ان کے ساتھ کیے گئے خصوصی انٹرویو کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
سوال: آپ ملک کی معاشی صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے؟ مستقبل کا راستہ کیا ہونا چاہیے؟
امیر العظیم: ہماری معیشت ابترحالت میں ہے۔ سیاسی صورتحال کا معیشت اور کاروبار سے براہ راست تعلق ہے۔ ہمیں سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کرائیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے اپنے وسائل پر انحصار کرنا چاہیے۔ حکمرانوں کو کفایت شعاری کی مثالیں قائم کرنی چاہئیں، تو عوام اس کی پیروی کریں گے، جو بالآخر سادہ طرز زندگی اور خود انحصاری کی خواہش کی راہ ہموار کرے گی۔ اس سے اشرافیہ کے طبقے کو کچھ تکلیف ہو سکتی ہے، لیکن وہ آبادی کا صرف دو فیصد ہیں۔ باقی عوام اس سے بہت فائدہ اٹھائیں گے۔
بڑے بنگلے اور لگژری گاڑیاں ضبط کر لیں، تو آپ کو چھ ماہ کے مختصر عرصے میں بتدریج بہتری نظر آئے گی۔ پاکستان نے 1960ء کی دہائی میں صنعتی انقلاب دیکھا لیکن بعد میں قومیانے کی غلط پالیسی کی وجہ سے ہماری صنعتی ترقی کو شدید دھچکا لگا۔ اگر ہم 1960ء کی دہائی میں ترقی کر سکتے ہیں، تو ہمیں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے اس دور میں زیادہ آسانی سے ایسا کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔
عملی طور پر، پاکستان تقریباً ایک سال پہلے ڈیفالٹ کر چکا تھا۔ تب سے، حتیٰ کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے خام مال درآمد کرنے کے لیے ہمارے پاس ایل سیز کھولنے کے لیے ڈالر ختم ہو چکے ہیں ۔ بہت سی صنعتیں بند ہو چکی ہیں، اور بہت سی صنعتیں خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔
پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا، کیونکہ یہ مغربی طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے۔
وہ پاکستان کو ختم نہیں کرنا چاہتے لیکن نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ یہ ایک آزاد، عوام نواز جمہوریت کے طور پر ابھرے۔ وہ اسے آئی ایم ایف اور دیگر خودمختار قرضوں کے ذریعے غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے ’اسٹرٹیجک اثاثوں‘ پر قبضہ برقرار رکھ سکیں۔ امریکہ ایک نئے ورلڈ آرڈر کا نفاذ چاہتا تھا جو عالمی سطح پر مغرب کی بالادستی اور ہمارے خطے میں ہندوستان کی بالادستی کو یقینی بنائے۔
سوال: پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابی شیڈول کے اعلان میں تاخیر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا دونوں صوبوں میں انتخابات سے استحکام آسکتا ہے؟
امیرالعظیم: کسی نہ کسی بہانے انتخابات میں تاخیر غیر آئینی اور ملکی مفادات کے خلاف ہو گی۔ یہ پہلے ہی سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک عام انتخابات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں۔
تاہم عام انتخابات سے چند ماہ قبل دو صوبوں میں انتخابات کا انعقاد مشکل ہے۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور ملک کی نصف آبادی کا گھر ہے۔ لہٰذا، پنجاب میں انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے جب کہ ابھی بھی پرانی قومی اسمبلی جاری ہو۔یہ بعض سیاسی جماعتوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الگ الگ انتخابات اور حال ہی میں خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشستوں پر بھی آگے بڑھنا ہمارے سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ کرے گا۔
ان انتخابات کے نتائج سے قطع نظر حالات ملک کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کو پنجاب، خیبرپختونخوا، یا دونوں صوبوں میں اکثریت مل جاتی ہے تو کیا ہوگا؟ یہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان کشمکش کا باعث بنے گا۔ اگر عمران خان ان انتخابات میں سے کوئی بھی ہار گئے تو وہ دھاندلی کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک نئی تحریک شروع کریں گے۔ دونوں صورتوں میں، سیاسی بدامنی ہوگی، جو معاشی بحران کو مزید گھمبیر کرے گی۔ مجھے نہیں لگتا کہ ملک اس خاص وقت میں اس طرح کے منظر نامے کا متحمل ہو سکتا ہے۔
یہ بہترین آپشن یہ ہو گا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نگراں سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنے کے لیے دستبردار ہو جائیں جس کے بعد قومی اسمبلی اور تمام وفاقی اکائیوں کے اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کرائے جائیں۔
سوال: آپ ہمارے سیاسی نظام میں اداروں کے کردار کو کیسے دیکھتے ہیں؟
امیر العظیم: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ایک اہم عنصر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سب کچھ سیاستدانوں پر نہیں چھوڑے گی بلکہ پس پردہ کردار ادا کرتی رہے گی۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اتحاد کو بندرگاہی شہر کراچی میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن ایک بات واضح ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس طرح کے ہتھکنڈے ماضی کی طرح آسانی سے کام نہیں کریں گے۔ ہمیں ایک مستحکم حکومت لانے کے لیے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی ضرورت ہے جو ہماری بیمار معیشت کی بحالی کے لیے جرات مندانہ فیصلے کر سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اداروں میں اس حقیقت کا ادراک ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو عوام میں اپنا وقار بحال کرنے کا یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔
سوال: سیاست دانوں اور صحافیوں کے خلاف بغاوت کے الزام میں مقدمات کے اندراج پر آپ کا کیا موقف ہے؟
امیرالعظیم: ہمارے ملک میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسے ہمیشہ غلط پالیسی کے طور پر لیا جاتا ہے جس کے مطلوبہ نتائج کبھی نہیں نکلے۔ اس نے صرف ماضی میں حالات کو خراب سے بدتر کی طرف لے جایا ہے، اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
چاہے وہ سیاست دان ہوں یا صحافی،مخالفین کو ہراساں کرنے کا جاری عمل سیاسی غیر یقینی صورتحال کو طول اور مزید تیز کرے گا۔ ہم اب انتقام کی سیاست کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری کٹی خالی ہے اور عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ طویل سیاسی بدامنی صرف معیشت اور کاروبار کو ہی نقصان پہنچائے گی، جس سے عام لوگوں کی زندگیاں مزید بدتر ہو جائیں گی۔
عقل کا غلبہ ہونا چاہیے اور حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کو آگ میں ایندھن ڈالنے کی بجائے اسے بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنا چاہیے اور اس استحصالی نظام سے نجات کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں، اپنی روشیں درست کریں اور ملک کی بہتری کے لیے کام کریں۔
سوال: پارٹیاں انٹرا پارٹی الیکشن کیوں نہیں کروا رہی ہیں؟
امیر العظیم: انٹراپارٹی انتخابات کا انعقاد ایک آئینی ذمہ داری ہے جسے سیاسی جماعتوں کی اکثریت نظر انداز کر رہی ہے۔ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی رٹ کو نافذ کرے اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اصولوں کو فروغ دے۔ پارٹی میں تقسیم کے خدشے کے پیش نظر انٹراپارٹی انتخابات سے دور رہنا اور منتخب لوگوں کو عہدے دینا ایک غیر ضروری رجحان ہے۔
انٹراپارٹی انتخابات کو ختم کرنا، پاکستان تحریک انصاف نے جس طرح 2017-18 میں واپس کیا، وہ بلاجواز ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ پی ٹی آئی نے آئین کے مطابق الیکشن نہیں کرائے تھے۔ اور بعد میں اس نے نتائج کو قبول نہیں کیا۔ ایسی مشقوں کے بیک وقت فوائد اور نقصانات ہیں۔
ہاں شروع میں اس کے مضر اثرات ہوں گے لیکن جب یہ سلسلہ جاری رہے گا تو یہ بالآخر سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرے گا۔ آپ جماعت اسلامی کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں جو کئی دہائیوں سے غیر متنازعہ انٹراپارٹی انتخابات کا کامیابی سے انعقاد کر رہی ہے۔ دوسری جماعتوں کو بھی ہماری مثال پر عمل کرنا چاہیے اور قابل اور مقبول لیڈروں کو آنے اور پارٹی دفاتر رکھنے کی اجازت دینا چاہیے۔
سوال: طلبہ یونینوں پر پابندی کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
امیرالعظیم: طلبہ یونینوں کو آئین کے مطابق کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، کیونکہ یہ مستقبل کے سیاست دانوں کی تیاری کے لیے اکیڈمیاں ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ طلبہ کی طرف سے فراہم کردہ قیادت کو عملی زندگی میں کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں زیادہ تر پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں، جن میں وسیع تر بحث اور رائے کے اشتراک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
سپریم کورٹ پہلے ہی انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کی ہدایت کر چکی ہے، اور اب یہ متعلقہ حلقوں پر منحصر ہے کہ وہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے مناسب مشاورت کے بعد ضابطہ اخلاق تیار کریں۔
طلبہ یونینز قابل قیادت دے سکتی ہیں بشرط یہ کہ سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں جمہوریت کی اجازت دیں۔
سوال: حالیہ واقعہ میں جب جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں پرویز مشرف مرحوم کے لیے فاتحہ خوانی کے خیال کی مخالفت کی تو جماعت اسلامی کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟
امیرالعظیم: مسئلہ کشمیر اور بھارت کو سب سے زیادہ پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کی تجویز پر نواز شریف کے ساتھ ہمارے شدید اختلافات کے باوجود جماعت اسلامی نے پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کی مخالفت کی تھی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فوج کو خود کو اپنا آئینی کردار ادا کرنے تک محدود رکھنا چاہیے۔ پرویز مشرف دور کا پہلا شکار جماعت اسلامی تھی۔ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو نظر بند کر دیا گیا اور ڈیرہ اسماعیل خان میں میرے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے اتحاد کے قیام اور 2002ء کے عام انتخابات میں اس کی کامیابی کے بعد، جماعت اسلامی نے اہم قومی معاملات پر مشرف کی مخالفت جاری رکھی۔ پرویز مشرف کا الیکشن یونیفارم میں رہتے ہوئے ایم ایم اے کے ٹوٹنے کا سبب بنا۔ جماعت اسلامی کا خیال تھا کہ پرویز مشرف کی اقتدار کی ہوس نے پاکستان کو بنانا ریپبلک میں تبدیل کر دیا ہے۔
یہ غلط تاثر ہے کہ اس وقت کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے پرویز مشرف کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے۔ انہوں نے پرویز مشرف کی دعوت پر جلسے میں شرکت سے انکار کر دیا۔ وہ صرف اسٹیک ہولڈرز کے اجلاسوں میں شریک ہوئے جو کراچی کے مسائل پر بات کرنے اور حل کرنے کے لیے بلائے گئے تھے۔
پرویز مشرف نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں داخل ہونا، جامعہ حفصہ آپریشن کا حکم دینا، اپنی ہی سرزمین سے اپنے ہی لوگوں پر ڈرون حملوں کی اجازت دینا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری جیسے کئی جرائم کیے تھے۔ چادر کعبہ میں پناہ لے کر بھی یہ جرم معاف نہیں ہوسکتے۔
جماعت اسلامی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ہر کسی کو کسی بھی فرد کے غلط کاموں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ تو آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں، سینیٹر مشتاق احمد نے صرف ایک فوجی آمر کے خلاف اس کی غلط حرکتوں پر غصہ نکالا۔ یہ قوم کے خلاف جرائم کرنے والے دوسروں کے لیے بھی سبق ہے۔ انہیں اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ اب ان کی طرف سے کوئی بھی غلط کام مستقبل میں عوامی ردعمل کا باعث بنے گا۔
سوال: کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
امیراعلظیم: حافظ نعیم الرحمن کی محنت، پارٹی کارکنوں کے عزم اور ووٹرز کی محبت کے باعث جماعت اسلامی نے کراچی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ہم نے قومی مفادات میں تصادم سے گریز کیا جب پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو مضبوط کیا۔ اب کراچی کے لوگوں نے جماعت اسلامی پر اعتماد کیا ہے اور سندھ حکومت کو اس کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے۔ ای سی پی کو زیر التواء انتخابی درخواستوں کو نمٹانا چاہیے، بقیہ جنرل نشستوں اور لیبر، اقلیتوں اور خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پررائے دہی کرانی چاہیے۔ کراچی کے میئر منتخب ہونے والے شخص کو اقتدار منتقل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں آمریت اور سیاسی جماعت کی حکمرانی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں، جیسا کہ میں نے پہلے کہا، پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جو چند خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ اس منظر نامے میں جمہوری سیاسی جماعتیں اور عوام کہیں بھی کھڑے نہیں ہیں۔ ای سی پی دوسرے ممالک کی طرح آزاد نہیں ہے، جبکہ ’الیکٹ ایبلز‘ اور قبیلے رائے عامہ کو ڈھالنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔
ہمیں ای سی پی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کے بجائے ریفری کا کردار ادا کر سکے۔ ہر ووٹ کی گنتی، انتخابی قوانین پر عمل درآمد کی ضرورت ہے، خاص طور پر امیدواروں کے انتخابی اخراجات سے متعلق، اور بین الاقوامی اور اندرون ملک نادیدہ قوتوں کے کردار کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: کیا آپ کے خیال میں صدارتی نظام ہمارے ملک کے لیے بہتر ہوگا؟
امیرالعظیم: میں نہیں سمجھتا کہ ابھی اس مسئلے پر بحث کی ضرورت ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کو اب تک صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا۔ آپ موجودہ نظام کی خامیوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی نیا نظام تجویز کر سکتے ہیں۔
یوں ہمارا مسئلہ نظام کا نہیں بلکہ اس کے نفاذ کا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی موروثی سیاست کی مثال نہیں ملتی۔ ہمیں اس پریکٹس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور جو بھی نظام ہمیں پسند ہے اس کے حقیقی معنوں اور روح میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: پاکستان کے مستقبل کے سیاسی اور معاشی نقطہ نظر کے بارے میں آپ کی رائے ہے؟ آپ جماعت اسلامی کو مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں کیسے دیکھتے ہیں؟
امیرالعظیم: ملک کو موجودہ سیاسی و اقتصادی بحرانوں سے نکالنے کے لیے مخلصانہ اور اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے لیے معیشت کی بحالی اور ملک کی مضبوطی کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
موجودہ منظر نامہ واقعی تشویشناک ہے۔ دولت چند خاندانوں میں مرتکز ہے جبکہ اکثریت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں نجی اداروں کو قومیانے کا مقصد 72 بااثر خاندانوں کی دولت چھین کر اسے عوام کے فائدے کے لیے پھیلانا تھا۔ ایسا نہیں ہوا، اور آج ملک کی دولت صرف چار خاندانوں میں مرکوز ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News