Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

جرأت شاہانہ

Now Reading:

جرأت شاہانہ

آفتاب سلطان کے استعفیٰ کے چند گھنٹے بعد ہی نیب راولپنڈی نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے طلب کیا

قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین آفتاب سلطان کا اچانک استعفیٰ اکثر لوگوں بالخصوص قانونی ماہرین پر ایک بم بن کر گرا ہے اور یہ اس بات کا تازہ ترین ثبوت ہے کہ پاکستان کا احتسابی نظام کس طرح ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیرمؤثر بنا یا جارہا ہے۔

1947ء میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے طاقتور سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی اور تاجر برادری کا احتساب آج تک ایک خواب ہی رہا ہے۔

آفتاب سلطان نے مبینہ طور پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی مخلوط حکومت کے ساتھ حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کے خلاف مقدمات شروع نہ کرنے پر اختلافات پیدا ہونے کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔

پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ سال جولائی میں آفتاب سلطان کو تین سال کی مدت کے لیے انسداد بدعنوانی کے نگراں ادارے کا سربراہ مقرر کیا تھا، جب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے چیئرمین نیب کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

Advertisement

ذرائع کے مطابق آفتاب سلطان نے توشہ خانہ کے معاملے پر اپوزیشن بالخصوص عمران خان کے خلاف الزامات عائد کرنے اور کارروائی کرنے میں موجودہ حکومت کے ’احکامات‘ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

ان کے الفاظ میں آفتاب سلطان نے حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ظلم کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے اور صرف قانون کی پیروی کریں گے۔

ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین نیب نے حکام کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال سے بچاؤ کے لیے بیورو کے علاقائی ڈائریکٹر جنرلز (ڈی جیز) سے کسی بھی سیاستدان یا ملزم کو گرفتار کرنے کے اختیارات بھی واپس لے لیے تھے۔

یہ حیران کن بات تھی کہ آفتاب سلطان کے استعفیٰ کے چند گھنٹے بعد ہی نیب راولپنڈی نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس کی سماعت کے لیے طلب کیا، جو 9 مارچ کو مقرر ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے آفتاب سلطان کی خدمات کو سراہا اور ان کی ایمانداری اور حق گوئی کی تعریف کی۔ وزیر اعظم آفس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ان کے اصرار پر وزیر اعظم نے  ردو قد کے بعد استعفیٰ قبول کر لیا‘‘۔

آفتاب سلطان کون ہیں؟

Advertisement

آفتاب سلطان پنجاب یونیورسٹی سے لاء گریجوایٹ ہیں اور انہوں نے یونیورسٹی آف کیمبرج سے ایل ایل ایم کیا اور یونیورسٹی آف ایڈنبرا سے فقہ و قانونی علوم میں ایم ایس سی بھی کیا۔ 2002ء میں ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) سرگودھا ہونے کے ناطے آفتاب سلطان نے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو مرحوم جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے دوران انتظامیہ کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس خلاف ورزی پر انہیں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) بنا دیا گیا۔

آفتاب سلطان آئی جی پی پنجاب اورنیشنل پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ جون 2013ء سے اپریل 2018ء تک سویلین جاسوسی ایجنسی یعنی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن  دونوں جماعتوں کی حکومتوں کے چار وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے تحت خدمات سرانجام دیں۔

سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس آفتاب سلطان نے مشہور بینک آف پنجاب کیس پر 5000 صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے انہیں کیس کا تفتیشی افسر بھی مقرر کیا تھا۔

مجوزہ سارک کانفرنس کے لیے گاڑیوں کی خریداری میں مبینہ بے ضابطگیوں کی وجہ سے آفتاب سلطان کو نیب کے ایک مقدمے میں بھی پھنسایا گیا تھا جس کی سماعت کبھی نہیں ہوئی۔ اس کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف بھی ملزم تھے لیکن نیب نے ریفرنس دائر نہیں کیا۔

بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نیب کے سابق پراسیکیوٹر راجہ عامر عباس نے کہا کہ آفتاب سلطان کے استعفیٰ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ موجودہ حکومت ان کے کیسز پہلے ہی نمٹا چکی ہے اور بیورو ہیڈ نے قانون کی عدالت میں نے ان ہائی پروفائل کیسز کو چیلنج کرنے کے لیے پہل نہیں کی۔

آفتاب سلطان نے مریم نواز کے کیس میں درخواست دائر نہیں کی۔ انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے صاحبزادے سلمان شہباز کو بھی ریلیف فراہم کیا۔

Advertisement

سابق پراسیکیوٹر کے مطابق موجودہ بدعنوان افراد پہلے ہی نیب قوانین میں ترامیم کر کے انسداد بدعنوانی  ادارےکو مکمل طور پر غیر موثر ادارہ بنا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف سپریم کورٹ پر نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں نیب ترامیم کا معاملہ زیر التوا ہے۔ سپریم کورٹ ان متنازع ترامیم کو ختم کر سکتی ہے جن کا مقصد بدعنوان افراد کو سہولت فراہم کرنا تھا۔

راجہ عامرعباس نے دعویٰ کیا کہ آفتاب سلطان کے دور میں بیورو کی جانب سے صرف چار سے پانچ ریفرنس دائر کیے گئے تھے جن سے ان کی کارکردگی کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ان کے قانون سازوں کے نوٹیفکیشن معطل کیے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے فوری طور پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے ورنہ پی ڈی ایم کی حکومت کو چیئرمین نیب کی خالی آسامی راجہ ریاض کے ذریعے پر کرنے کی جلدی ہو گی۔

ایک سوال کے جواب میں کہ یہ آفتاب سلطان ہی تھے جنہوں نے دباؤ ڈالنے کے باوجود پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا، سابق پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت نے نیب قانون میں ترمیم کی تھی تو وہ کس قانون کے تحت مقدمہ درج کر سکتے تھے۔ عمران خان کے خلاف ایکشن لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی فروخت کردہ قیمتی گھڑیوں کی مالیت 500 ملین روپے سے زائد ہے، انہوں نے کہا کہ نیب صرف اس کیس میں کارروائی شروع کر سکتا ہے جس میں ملوث رقم 500 ملین روپے سے زیادہ ہو۔

سینئر تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمارے پاس احتسابی ادارے موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے سیاسی اور عسکری قیادت نے ان کا غلط استعمال کرکے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ ’’احتساب کے محکموں نے ہمیشہ سیاسی ٹول کے طور پر کام کیا ہے۔ ہر حکومت نے انہیں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عمران خان کے دور میں بھی نیب اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو سیاسی مخالفین کے خلاف برہنہ انداز میں استعمال کیا گیا۔

Advertisement

بول نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان عابد نے مزید کہا کہ سابق چیئرمین نیب عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر مسلسل دباؤ میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ نیب قانون میں حالیہ متنازع ترامیم کے بعد بیورو کے سربراہ کے لیے اتنی گنجائش نہیں کہ وہ آسانی سے کارروائیاں شروع کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری سیاسی اور ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی ملک میں احتساب کے نظام کو تباہ کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے منتخب کردہ افراد کو اپنے بڑے مقصد کے لیے استعمال کیا۔

تجزیہ کار نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے جس میں ملک میں احتساب کا ایک مضبوط میکنزم قائم کرنے کا عزم کیا گیا تھا لیکن ان جماعتوں نے نیب کو مضبوط نہیں کیا۔ ایک سوال کے جواب میں سلمان عابد نے کہا کہ احتساب کے نظام کو مضبوط کرنے اور کرپٹ افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لیے کوئی سیاسی عزم نہیں ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ وائٹ کالر کرائمز سے نمٹنا مشکل ہے لیکن ان جرائم کی تحقیقات کے لیے نیب اور ایف آئی اے کو کون مضبوط کرے گا؟ ان کے مطابق ہماری اہم تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے پہلے ہی متعلقہ حکومتوں کی مسلسل سیاسی مداخلت کی وجہ سے تباہ ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’یہ ملک صرف اسی صورت میں چل سکتا ہے اور آگے بڑھ سکتا ہے جب ہم اپنے احتساب کے محکموں کو مضبوط کرکے قانون کی حکمرانی قائم کریں جو طاقتور سیاسی اشرافیہ کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج تک ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں ہے جسے اس کی بدعنوانی اور بداعمالیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
نیپرا کا بڑا ایکشن اضافی بلنگ اور لوڈشیڈنگ پر گیپکو اور سیپکو پر جرمانہ
مستونگ میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن؛ بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے 4 دہشت گرد ہلاک
کراچی، ای بی ایم کاز وے کے دونوں ٹریک ٹریفک کے لیے کھول دیے گئے
کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ نے آرٹس ریگولر گروپ کے نتائج کا اعلان کردیا
سندھ میں نجی اسکولوں کے لیے بڑی تبدیلی، اسکول مالکان کے لیے اہم ہدایت
صدر آصف زرداری چین کے سرکاری دورے پر چنگدو پہنچ گئے
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر