پورا فوجداری نظام درہم برہم ہو چکا ہے جو پولیس کو گھناؤنے جرائم میں ملوث ملزمان کو قتل کرنے پر مجبور کرتا ہے، جسٹس (ر) اللہ بخش رانجھا
لاہور: بول نیوز کے حاصل کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب پولیس نے 2018ء سے 2022ء تک صوبے بھر میں 600 سے زائد ملزمان کو مقابلوں میں ہلاک کیا۔
پنجاب پولیس کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2018ء سے ستمبر 2022ء تک ایک خاتون سمیت 612 کے قریب ملزمان مقابلوں میں مارے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر مبینہ طور پر انکاؤنٹر بتائے جاتے ہیں۔
2020ء اور 2021ء میں رپورٹ کیے گئے زیادہ تر مقابلوں میں تقریباً 186 ملزمان مارے گئے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں ضلع فیصل آباد سرفہرست رہا جہاں 73 ملزمان مقابلوں میں مارے گئے۔ لاہور دوسرے نمبر پر رہا جہاں پولیس نے مقابلے میں 65 ملزمان کو ہلاک کیا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ساہیوال میں 45، گوجرانوالہ میں 34 اور ملتان میں 28 ملزمان مقابلے میں مارے گئے۔ ضلع نارووال واحد ضلع تھا جہاں مذکورہ مدت کے دوران ایک بھی پولیس مقابلہ رپورٹ نہیں ہوا۔
اعداد و شمار کے مطابق ان پولیس مقابلوں کے خلاف 544 ایف آئی آر بھی درج کی گئیں اور ان میں سے صرف 9 متاثرین کے اہل خانہ نے درج کرائیں۔ اسی طرح گزشتہ پانچ برسوں میں مبینہ جعلی مقابلوں پر پولیس اہلکاروں کے خلاف 40 سے زائد محکمانہ انکوائریاں شروع کی گئیں۔
پنجاب میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ان مقابلوں میں 57 پولیس افسران نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جسٹس اللہ بخش رانجھا نے بول نیوز کو بتایا کہ فوجداری انصاف کا پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے پولیس قتل، ڈاکو، زیادتی، اغوا برائے تاوان جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ملزمان کو مارنے پر مجبور ہے۔ جسٹس (ر) اللہ بخش رانجھا نے بول نیوز سے سوال کیا کہ کیا شکایت کنندہ کے لیے اُس وقت کوئی راستہ رہ جاتا ہے جب پورا نظام درہم برہم ہو اور وہ صرف مجرموں کا ساتھ دے؟ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرہ شخص عدالتوں میں اپنا مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس (ر) اللہ بخش رانجھا نے کہا کہ بنیادی طور پر سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو اس تباہی اور انتشار کے لیے ذمے دار ٹھہرایا جانا چاہیے کیونکہ ضیاء الحق نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جعلی اور من گھڑت مقدمے میں پھانسی دی اور سیاست میں بدعنوان طریقے متعارف کرائے جبکہ مؤخر الذکر نے اپنی انتظامی نااہلی سے تمام اداروں کو تباہ کر دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پورا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اسے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ قانون کی حکمرانی کا نفاذ ہی چیزوں کو دوبارہ پٹری پر لانے کا واحد اور تنہا آپشن ہے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں”۔
دوسری جانب سینیئر ریٹائرڈ پولیس افسر عبدالرزاق چیمہ نے جسٹس (ر) اللہ بخش رانجھا سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ جعلی پولیس مقابلے کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ، “حراست میں لوگوں کو قتل کرنا ایک بڑا جرم ہے۔ یہ لوگوں کے بنیادی اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ آپ کسی ملزم کو بغیر کسی عدالتی سماعت کے کیسے سزا دے سکتے ہیں؟”
تین دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر کے دوران عبدالرزاق چیمہ نے پولیس مقابلوں کو صرف اس وقت قابلِ غور سمجھا جب حقیقی زندگی میں پولیس پارٹی پر حملہ کیا گیا اور مجرموں نے قانون کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ان کے بقول ایسا کوئی قانون نہیں جو پولیس کو اجازت دیتا ہو کہ وہ لوگوں کو مقابلوں میں مار ڈالے۔
انہوں نے کہا کہ، “حراست میں ہونے والی ہر موت کی تفتیش جوڈیشل مجسٹریٹ کرتا ہے۔ اگر قصوروار پایا جائے تو پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ ہمیں ملکی قوانین کی پیروی کرنا ہوگی۔ ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ لوگوں کو مقابلوں میں مارنا کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں رہا بلکہ اِس کے ہمیشہ الٹ نتائج برآمد ہوئے”۔
ایک سوال کے جواب میں عبدالرزاق چیمہ نے روشنی ڈالی کہ اس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں، انسانی حقوق سے متعلق قوتوں کی وسیع تربیت اور عدالتی سرگرمی۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس کے فرسودہ نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح عدلیہ کو ایسے معاملات کو فعال طور پر اٹھانا چاہیے تاکہ بروقت سزا دی جائے جس سے احساسِ تحفّظ پیدا ہو۔
’’ہمیں لوگوں کو قانون کے بارے میں سکھانے کی بھی ضرورت ہے۔ لوگوں کو آگہی دینے کی ضرورت ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں اور حساس الزامات کی بنیاد پر لوگوں کو قتل نہ کریں بلکہ انہیں فوری طور پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے محکموں کو مطلع کرنا چاہیے‘‘۔
ڈی آئی جی پنجاب پولیس وقاص نذیر کے مطابق، پنجاب میں شوٹ آؤٹ پالیسی نہیں ہے۔ “پولیس صرف جاری مقابلوں کے دوران گولی چلا سکتی ہے جب ملزمان اُن پر حملہ کریں یا وہ ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی کسی پولیس مقابلے کی اطلاع ملتی ہے تو ہر بار مکمل تفتیش ہوتی ہے۔ “اگر پولیس اہلکاروں کو فرضی مقابلے کا قصوروار پایا جائے تو انہیں سزا دی جاتی ہے”۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News