
شہر کے ریڈ زون میں ایک مسجد میں ہونے والے مہلک حملے میں شہید ہونیوالوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے، خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کے واقعات کے دوبارہ سر اٹھانے پر بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں
پشاور
ملک محمد سعد پولیس لائنز میں ایک کھچا کھچ بھری مسجد کے اندر نمازِ ظہر کے دوران ہوئے مہلک دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بہت سے لوگ اہم سوالات پوچھ رہے ہیں جن کے مخلصانہ اور بروقت جوابات کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے المناک واقعات کی تکرار کو روکا جا سکے۔
خیبرپختونخوا پولیس کی جانب سے اب تک کے بہترین پولیس افسروں میں سے ایک، ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) ملک محمد سعد خان جو 27 جنوری 2007ء کو ایک دہشت گرد حملے میں شہید ہو گئے تھے، کے نام سے منسوب پشاور پولیس لائنز ایک حفاظتی ریڈ زون میں واقع ہے۔ پشاور میں صوبائی اسمبلی، پشاور ہائی کورٹ، سیکریٹریٹ، سینٹرل جیل، مرکزی پولیس دفاتر، گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس اور انسپکٹر جنرل آف پولیس ہاؤس سمیت کئی اہم مقامات ہیں۔
سب سے زیادہ پوچھے جانے والے سوالات میں سے ایک یہ ہے کہ خودکش حملہ آور تمام سکیورٹی چیکس سے گزر کر مسجد تک کیسے پہنچا؟
پولیس لائنز کے سخت حفاظتی انتظامات والے مرکزی دروازے تک دو راستوں سے پہنچا جا سکتا ہے۔ ایک پیدل جو پشاور کی سینٹرل جیل کے قریب غیرمحتاط پہرے والے رسائی پوائنٹ کو جہاں صرف دو پولیس اہلکار آسان سوالات پوچھتے اور کبھی کبھار جسمانی تلاشی لیتے ہیں، کو عبور کرکے۔ دوسری رسائی خیبر روڈ سے ہوتی ہے جو پیدل یا آٹوموبائل کے ذریعے دو سکیورٹی چیک کو عبور کرنے کے بعد ہے۔
بعد ازاں چیک پوائنٹ پر مکمل چیکنگ کی جاتی ہے۔ تاہم یہ پولیس لائنز کے مرکزی دروازے پر ہے جہاں کوئی شخص اپنی تفصیلات اور دورے کے مقصد کے اندراج کے بعد ہی داخل ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ اپنا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) استقبالیے پر چھوڑ کر میٹل ڈیٹیکٹر واک تھرو گیٹ سے گزر سکتا ہے۔ کسی کے لیے کسی بھی دھات کے ساتھ گزرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے اس طرح دہشت گرد کے پیدل اندر آنے کا امکان رد کر دیا گیا ہے۔
ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ واقعے کے فوراً بعد پشاور کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) محمد اعجاز خان نے میڈیا کو حملہ آور کے گاڑی میں سوار ہو کر احاطے کے اندر جانے کے امکان کے بارے میں آگاہ کیا۔ یہ قابلِ ذکر ہے کہ کسی بھی دن، گاڑیوں اور ان میں سوار افراد کی اچانک تلاشی لی جاتی ہے۔ تاہم یہ چیک بھی عام طور پر صرف بنیادی سوالات پوچھنے یا سی این آئی سی کی جانچ پر مشتمل ہوتا ہے۔
ایس ایچ او پشاور ایسٹ پولیس اسٹیشن کی طرف سے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ میں درج ایف آئی آر میں مسجد پر حملے کے لیے نامعلوم دہشت گردوں کا ذکر ہے۔
ایک اور سلگتا ہوا سوال جو ماہرین اور عام لوگوں نے یکساں طور پر پوچھا وہ حملے کے انداز کے بارے میں ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ خودکش جیکٹ پہنے خودکش بمبار صرف 10 سے 15 کلو گرام دھماکا خیز مواد لے جا سکتا ہے جس سے لوگوں کی جان جا سکتی ہے لیکن کنکریٹ کی عمارت کے بڑے حصے کو گرانے میں بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
سوالات پوچھے جاتے ہیں کہ کیا یہ حملہ ممکنہ طور پر نصب بم کا نتیجہ تھا؟
کسی بھی دہشت گردانہ حملے کی طرح توجہ یہ جاننے پر مرکوز رہی کہ کون ذمے داری قبول کرے گا۔ چونکہ تحریک طالبان پاکستان خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں سکیورٹی فورسز اور پولیس کو فعال طور پر نشانہ بنا رہی ہے اور چونکہ ٹی ٹی پی پولیس کو “دشمن” کے طور پر دیکھتی ہے اس لیے یہ ایک جائز ہدف ہے۔ کالعدم دہشت گرد گروہ مسجد پر حملے کی ذمے داری قبول کرے گا۔
واقعے کے چند گھنٹے بعد ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ کے رکن عمر مکرم نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ سابق ٹی ٹی پی کمانڈر عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے شروع کیے گئے آپریشنز کے سلسلے میں چوتھا خودکش حملہ تھا۔ لیکن ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے بعد ازاں اپنے گروہ کو اس حملے سے الگ کر لیا۔ تاہم بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ مذہبی مقامات پر ہونے والے کسی بھی حملے سے خود کو الگ رکھنا گروہ کی مشق ہے۔
عمر خالد خراسانی (اصل نام عبدالولی) ایک سخت گیر ٹی ٹی پی کمانڈر اور 2007ء میں ٹی ٹی پی کے بانی ارکان میں سے ایک تھا۔ عمر خالد خراسانی 7 اگست 2022ء کو افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے برمل ضلع میں دیسی ساختہ بم کے حملے میں مارا گیا۔ اس کے بہت سے پیروکاروں کا خیال تھا کہ ان کے رہنما پر حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔
اگست 2014ء میں اس وقت کے رہنما ملا فضل اللہ سے اختلافات پیدا ہونے کے بعد اس نے گروپ سے علیحدگی اختیار کی اور جماعت الاحرار کے نام سے ایک نیا گروہ تشکیل دیا۔ گروہ کے موجودہ رہنما مفتی نور ولی محسود کی کوششوں کے نتیجے میں 2020ء میں تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی دھارے میں واپس آنے سے قبل 2020ء میں جماعت الاحرار سمیت 20 سے زائد دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ متحد کرنے میں کامیاب ہوئے۔
حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے متعلق الجھن ان افواہوں کو بھی اہمیت دیتی ہے کہ ٹی ٹی پی میں عمر خالد خراسانی کے پیروکار یا تو داعش خراسانی میں شامل ہو رہے ہیں یا ٹی ٹی پی کی منظوری کے بغیر اپنے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کسی بھی صورت میں، ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے پاس اب جماعت الاحرار کے سابق جنگجو نہیں ہوں گے۔
پاکستان کے اہم خدشات میں سے ایک ان دہشت گردوں کی اصلیت ہے جو اگست 2021ء میں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے سکیورٹی فورسز کو اکثر نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان کے پاس یہ شک کرنے کی تمام تر وجوہات ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ارکان افغانستان کے اندر بغیر کسی نقصان رہ رہے ہیں۔ اماراتِ اسلامیہ افغانستان یا افغان طالبان انہیں پاکستانی سرزمین پر جنگ چھیڑنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے اور کئی حالیہ دہشت گرد حملوں کی طرح پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی پر اپنی ناراضی ظاہر کی۔
دوسری جانب نمازیوں پر حملے کی سفارتی طور پر مذمت کرتے ہوئے دوحا میں اپنے سیاسی دفتر میں افغان طالبان کے نمائندے سہیل شاہین نے ٹویٹ کیا کہ ہمارے مذہب میں عبادت گاہوں کا تقدس ہے اور کسی کو اس کی خلاف ورزی کا حق نہیں ہے۔
تاہم طالبان کے وزیر برائے امور خارجہ مولوی امیر خان متقی اتنے سفارتی نہیں تھے جب انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے مسائل کا حل اپنے گھر میں تلاش کرے۔ کابل میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امیر خان متقی نے تجویز دی کہ پشاور حملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ “ہمارا خطہ لڑائی، دھماکا خیز مواد اور بموں سے واقف ہے۔ یہ بالکل ممکن نہیں کہ خودکش بمبار، خودکش جیکٹ یا بم اتنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہم نے گزشتہ 20 برسوں میں ایسا بم نہیں دیکھا جو عمارتوں کو اڑا دے اور سینکڑوں لوگوں کی جان لے سکے۔ اس لیے اس حملے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے”۔
پاکستان کے ان خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے آرہی ہے، امیر خان متقی نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کا مرکز ہے اور ساتھ ہی یہ کہتا ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہے تو یہ دہشت گردی چین، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران تک پھیل جانی چاہیے تھی۔ لیکن افغانستان سمیت یہ سب پرامن ہیں اس لیے یہ ثابت ہوا کہ یہاں دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے، ایک دوسرے کی طرف برادرانہ ہاتھ پھیلانا چاہیے، ایک دوسرے پر الزام نہیں لگانا چاہیے اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج نہیں بونا چاہیے”۔
افغان وزیر خارجہ کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب سے خراب تر کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کو اعتماد کی کمی کا سامنا ہے جسے صرف باقاعدہ روابط کے ذریعے بحال کیا جا سکتا ہے جس سے فریقین کو مشترکا دلچسپی کے مختلف اُمور بشمول دہشت گردی اور یہ حقیقت کہ ٹی ٹی پی قیادت افغانستان میں مقیم ہے جو مکمل طور پر اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے کنٹرول میں ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News